نیلی قتل عام، سیکولر سیاست کا چہرہ

0

ایڈووکیٹ ابوبکر سباق سبحانی

تاریخ تہذیب و سماج میں بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے، ماضی ذہن و دماغ کے سامنے رہے تو مستقبل کا لائحہ عمل تیار کرنا اصولاً زیادہ عملی ہوگا، لیکن ہمارے ارباب حل و عقد کے منصوبہ بند مقاصد و محرکات کی بناپر ہمارے ذہن و دماغ سے ہماری یادداشت مندمل کردی جاتی ہیں، مسلم شناخت کی بنیاد پر ہوئے ہمارے آزاد ملک کا سب سے بڑا قتل عام ’نیلی قتل عام‘‘ بھی ہمارے ذہن و دماغ سے اوجھل کردیا گیا ہے، آج سے39سال پہلے18؍فروری1983کو آسام کے نیلی میں صرف6گھنٹوں کے اندر2000سے زائد مسلم افراد کو قتل عام کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق10ہزارسے زائد لوگ قتل عام کا شکار ہوئے تھے۔ آج39سال گزرجانے کے بعد بھی کسی ایک شخص کو عدالت سزا دینے میں کامیاب کیوں نہیں ہوئی۔ کیا ہم بطور مسلم قوم کے ایمانداری کے ساتھ انصاف حاصل کرنے کی خواہش اور حوصلہ بھی نہیں رکھتے ہیں؟ حتیٰ کہ ہم آج بھی انہی سیاسی پارٹیوں کو اپنا ناخدا سمجھتے ہیں جن کی سرپرستی میں یہ قتل عام ہوئے اور مجرمین کو سزا سے بچانے میں ان نام نہاد سیاسی جماعتوں کا پدرانہ کردار رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم ماضی میں ہوئے ہر قتل عام کو بھول جانا چاہتے ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ نیلی میں ہونے والا سانحہ کوئی فرقہ وارانہ فساد نہیں تھا، یہ سانحہ ہمارے آزاد ہندوستان کے مسلح سلامتی دستوں اور اکثریتی قوم کے دنگائیوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں پر ایک منظم اجتماعی قتل عام تھاجس میں حکومت وقت بھی شامل رہی تھی۔ 1978 میں ہیرالال پٹواری، ممبر آف پارلیمنٹ(لوک سبھا) کی موت ہوگئی جس کے بعد مانگلڈوئی لوک سبھا سیٹ پر ضمنی انتخاب ہونے تھے، اس انتخاب میں بنگالی مسلمانوں نے اپنے ووٹ کا استعمال کانگریس امیدوار کے حق میں نہیں کیا جس کے بعد بنگالی مسلمانوں کے خلاف ایک تحریک شروع ہوگئی۔ آل آسام اسٹوڈنٹس یونین(آسو) نے بنگالی مسلمانوں کا نام ووٹر لسٹ سے ہٹانے کے لیے تحریک پہلے ہی سے شروع کررکھی تھی کیونکہ بنگالی ووٹرس کی تعداد بہت زیادہ تھی جو کہ آسام میں فرقہ وارانہ سیاست کا ایک اچھا ہتھکنڈہ بن سکتا تھا۔1983میں آسام اسمبلی انتخابات کا اعلان ہونے کے بعد آسو کو صوبے کا ماحول مزید خراب کرنے کا موقع مل گیا، کانگریس سمیت دیگر سیاسی و سماجی اداروں کا آسو کو پورا تعاون حاصل تھا، 1983کے اسمبلی انتخابات کا آسو نے بائیکاٹ کردیا، آسام کے انسپکٹر جنرل آف پولیس کے پی ایس گل تھے، مسٹر گل کے مطابق صوبے کے23حلقوں میں فرقہ وارانہ کشیدگی کی وجہ سے انتخابات ممکن نہیں تھے جن میں نیلی بھی شامل تھا۔
ہمارے ملک میں غیر ملکی بنگالی مسلمانوں کے نام پر فرقہ وارانہ سیاست آزادی کے بعد ہی شروع ہوگئی تھی، آسام میں غیرقانونی بنگلہ دیشیوں کی موجودگی کے نام پر تحریک بظاہر 1950 کے بعد شروع ہوگئی تھی لیکن1979 سے1985کے دوران یہ تحریک ایک مسلح اور تشدد پسند تحریک کی شکل اختیار کرچکی تھی، بنگالی زبان بولنے والے مسلمان اس تشدد کا شکار ہوتے رہے۔ نیلی قتل عام ہمارے آزاد بھارت کی تاریخ کا واحد ایسا قتل عام ہے جو بہت ہی کم موضوع بحث رہا، جس پر بہت کم بولا اور لکھا گیا، یہی وجہ ہے کہ اس قتل عام کی جڑ میں پیوست فرقہ وارانہ سیاست غیرملکی بنگالی مسلمانوں کا ملک میں انخلا، شہریت اور قومیت کا زہر آسام کے بعد آج پورے ملک میں پھیل چکا ہے۔
نیلی اور دیگر مقامات پر ہزاروں کی تعداد میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا، آسام کے سیاسی و سماجی حلقوں نے مسلمانوں کے خلاف ہونے والے اس قتل عام کے لیے ماحول بنانے میں پورا تعاون کیا، ان قتل عام کی جانچ کے لیے تیواری کمیشن بنایا گیا۔ تیواری کمیشن نے ایک سال کے اندر ہی 1984میں آسام کی کانگریس حکومت کو600صفحات پر مبنی اپنی انکوائری رپورٹ پیش کردی تھی۔ آسام کے وزیراعلیٰ ہیتیشور سائیکا نے اس رپورٹ کو مخفی رکھنے کا فیصلہ کرلیا، اس رپورٹ نے تمام ہی حقائق سے پردہ اٹھایا اور ان تمام ہی سیاسی و حکومتی افراد کا ذکر کیا جو اس قتل عام کے لیے ذمہ دار تھے لیکن آج تک وہ رپورٹ اسمبلی یا عدالت میں پیش نہیں کی گئی اور نہ ہی عدلیہ نے اس سمت کوئی توجہ دی ہے جب کہ آسام یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ نے قانونی پیش رفت کے ذریعہ عدلیہ کا رخ بھی کیا۔
اس دوران مرکز و آسام دونوں ہی جگہ کانگریس برسراقتدار تھی جب کہ راجیوگاندھی وزیراعظم تھے۔ نیلی قتل عام کے دو سال کے اندر ہی مرکزی و صوبائی حکومت نے 15؍اگست1985 کو آسام معاہدہ ’’Assam Accord‘‘ پر دستخط کرتے ہوئے تقریبا تمام ہی مطالبات کو تسلیم کرتے ہوئے قتل عام کرنے والی طاقتوں کی فتح کا اعلان کردیا، یہ معاہدہ آل آسام اسٹوڈنٹس یونین(آسو) اور آل آسام گانا سنگرام پریشد کی مانگوں کے مطابق ہوا جو کہ اس قتل عام کے ذمہ دار اور مجرم تسلیم کیے جاتے رہے ہیں۔ اس معاہدہ کی رو سے ’’ شہریت قانون1955‘‘ میں ایک دفعہ ’اے‘ کا اضافہ کرتے ہوئے جو اپنے شہری بھی یکم جنوری1966سے اپنی شہریت کے مستحکم ثبوت پیش کرنے میں ناکام ہوں گے، ان کو10سال تک کسی بھی الیکشن میں ووٹ دینے کے حق سے محروم کردیا جائے گا۔ اس معاہدے کے مطابق اگر کسی شخص پر یہ الزام لگا کہ وہ بنگلہ دیش سے 24؍مارچ1971کے بعد بھارت میں آیا ہے اور وہ شخص اس الزام کی تردید ثابت کرنے میں ناکام رہا تو اس کو حراست میں لے کر بنگلہ دیش ڈپورٹ کردیا جائے گا۔
آسام ایکارڈ یعنی معاہدہ کی رو سے اس دوران احتجاجات اور مظاہروں میں شامل ہونے کے الزام میں جن آسامیوں پر پولیس یا انتظامیہ نے مقدمات درج کیے ہیں وہ تمام ہی مقدمات ختم کردیے جائیں گے۔ مختلف رپورٹ اور اعداد و شمار کے مطابق نیلی اور دیگر حادثات سے متعلق پولیس نے کل688مقدمات درج کیے تھے،378 مقدمات میں ثبوت دستیاب نہ ہونے کی بنیاد پر پولیس نے مقدمات رد کردیے جب کہ310مقدمات میں چارج شیٹ تیار کی لیکن آسام ایکارڈ کے مطابق ان تمام مقدمات کو بھی رد کردیا گیا۔ آج اس قتل عام کو39سال گزرچکے ہیں، اس دوران کسی ایک شخص کو بھی ان قتل عام میں ملوث ہونے کے الزام میں نہ تو گرفتار کیا گیا اور نہ ہی عدالت میں پیش کیا گیا۔
نیلی کا قتل عام پرانے زمانے کی کہانیوں کا حصہ جیسا بن گیا ہے، لیکن یہ قتل عام ہمارے آزاد بھارت میں ہوا تھا، ہمارے ملک کا یہی دستور اور یہی قوانین موجود ومروج تھے، گجرات فسادات میں تو درجن بھر آئی پی ایس افسران سے لے کر کابینی وزیر تک عدالت کے ذریعہ مجرم قرار دیے گئے یا فسادات اور اس کی سازش میں شریک ہونے کے الزام میں دسیوں سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھے گئے۔ حقائق کی روشنی میں اگر غور کیا جائے تو ہمارے سماج اور قوم کے نام نہاد سماجی کارکنان اور سربراہان کو کانگریس و دیگر سیکولر سیاسی جماعتوں نے ایک منظم اور سوچی سمجھی پالیسی کے تحت کچھ اس طرح استعمال کیا جو سماج کے معصوم افراد کو اپنے ذاتی مفادات کے لیے صرف بی جے پی کا خوف دکھا کر یا گجرات فسادات کے واقعات سناکر کانگریس اور دوسری سیاسی پارٹیوں کے لیے سیاسی دلالی تو کرتے ہیں لیکن کانگریس اور اس کی ہمنوا سیاسی پارٹیوں کے وہ کالے کارنامے نہیں بتائے جاتے جب ہزاروں کی تعداد میں مسلمانوں کو کچھ ہی گھنٹوں میں قتل کردیا گیا اور نہ ہی کوئی مقدمہ درج ہوا اور نہ ہی کسی کے خلاف کوئی قانونی کارروائی ہوئی، اگر مقدمات درج ہوئے بھی تو وہ حکومت کے ذریعہ ہی واپس لے لیے گئے، ایسے خوفناک قتل عام کی لمبی فہرست ہے جس میں نیلی ایک واحد قتل عام نہیں ہے، بلکہ مرادآباد عیدگاہ قتل عام سے لے کر مظفرنگر فسادات جیسے قتل عام کی ایک لمبی فہرست ہے جب ہمارے دستوری ادارے اور جمہوری حکومتیں اقلیتی طبقات کے تحفظ میں ناکام رہیں اور قاتلوں کو تحفظ بھی فراہم کرتی رہی ہیں جو آج بھی سرکاری مراعات سے محظوظ ہورہے ہیں لیکن ہمیں بتایا جاتا ہے کہ دشمن صرف بی جے پی ہی ہے جب کہ نام نہاد سیکولر سیاسی جماعتیں ہمارے خون سے ہولیاں کھیلتی رہی ہیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS