آج عیدالفطر کا دن ہے خوشی و مسرت، فرحت و شادمانی کا دن ہے۔
قارئین! بنیادی تعلقات اور رشتہ داریاں زندگی کا ایک اٹوٹ حصہ ہے، اسی سے خاندان اور قبیلے کا قیام ہے، اسی سے صالح اور مذہب معاشرے کی تعمیر ہے، زندگی تبدیلی اور انقلاب کا دوسرا نام ہے، نشیب و فراز اتار چڑھاؤ زنگی میں آتے ہی رہتے ہیں، اس لحاظ سے تعلقات بھی سرد و گرم حالات سے دوچار ہوتے رہتے ہیں۔
ایسے میں ایک سچے اور حقیقی مسلمان کے لئے اسلامی تعلیمات بہتر نمونہ ہے۔
اچھے اور خوشگوار تعلقات کی بنیاد سچی ،خالص، بے غرض اور بے لوث محبت پر ہوتی ہے۔ احادیث میں دوستی اور دشمنی کا معیار (دوستی اور دشمنی صرف اللہ ہی کے لئے ہو) قرار دیا گیا ہے۔
اس میں خود غرضی اور مفاد پرستی نہ ہو۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کل قیامت کے دن اللہ تعالی پوچھیں گے کہ میری وجہ سے باہم محبت کرنے والے کہاں ہیں؟ آج انہیں میں اپنے سایہ میں جگہ دوں گا، آج کے دن میرے سایہ کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا۔
(ریاض الصالحین ص ١٧٧ باب فضل الحب فی اللہ).
حضرت معاذ بن جبل فرماتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ قیامت کے دن اللہ کی رضا و خوشنودی کی خاطر محبت کرنے والوں کے واسطے روشنی کے ممبر ہونگے، انہیں دیکھ کر انبیاء و شہدا بھی رشک کریں گے۔
(ریاض الصالحین ص ١٧٨ باب فضل الحب فی اللہ).
قارئین! اللہ کی خاطر دوسروں سےمحبت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کسی کے ساتھ رشتہ و تعلق میں صرف اللہ کی رضاء مطلوب و مقصود ہو، کسی کے ملاقات اور زیارت میں اپنی عافیت پسندی اور مزاج کا دخل نہ ہو، نیز یہ بھی ظاہر ہے کہ اللہ کی رضا و خوشنودی انہیں لوگوں سے دوستی اور ملاقات میں ملے گی جو اللہ کے فرمابردار ہوں گے، جو نیکوکار اور صالح ہونگے، اور جولوگ اللہ کے باغی اور نافرمان ہیں ان سے دوستی و محبت در اصل اللہ کی ناراضگی مول لینا ہے۔
دوسرے یہ محبت اور دوستی میں کشیدگی اور خرابی اس وقت آتی ہے جب اپنی طبیعت اور مزاج کے خلاف ہوجاتا ہے یا کوئی بھی بات کہہ دی جاتی ہے، ایسے موقع پر خود کو اعتدال اور توازن کے دائرے میں رکھنے کی ضرورت ہے۔
اسی لئے اسلام میں عفو و درگزر کی تعلیم دی گئی ہے، تاکہ اسکی وجہ سے اپنے آپ پر قابو پانا آسان ہو، قرآن کریم میں نیکوکار اور پر ہیز گاروں کی ایک علامت بھی بتلائی گئی ہے کہ وہ غصہ کو پی جانے والے اور لوگوں کو معاف کرنے والے ہوتے ہیں۔ (آل عمران ١٣٤)۔
خود رسول اللہ کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ آپ انتقام اور بدلہ لینے کے بجائے عفو و درگزر سے کام لیتے تھے۔
عفو و درگزر کے حوالے سے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا ایک واقع تاریخ میں بڑا انوکھا ذکر کیا جاتا ہے۔
ایک مرتبہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ دستر خوان پر تشریف فرما تھے، آپ کی باندی سالن کا برتن لارہی تھی، کہ کچھ سالن حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے کپڑے پر پڑ گیا، حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے چہرے پر غصہ کے آثار ظاہر ہوئے، باندی چونکہ پڑھیں لکھی خاتون تھی اس نے فوراً قرآن پاک کی آیت پڑھی، جس میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ کے نیک و متقی بندے وہ ہیں جو غصہ کو پی جاتے ہیں ، اس پر حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں غصہ کو پی گیا ہوں اور تجھ پر ناراض نہیں ہوں۔
باندی نے مزید پڑھا کہ متقی لوگ، لوگوں کو معاف کر دیتے ہیں، حضرت حسن نے کہا کہ میں نے تجھے معاف کردیا، اسکے بعد باندی کے آیت کا آخری ٹکڑا بھی پڑھ دیا کہ اللہ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے، اس پر حضرت حسن نے کہا کہ جا میں نے تجھے آزاد کر دیا، اس طرح حضرت حسن نے عفو و درگزر کی اعلیٰ مثال قائم کی۔
(پوری آیت : آل عمران ١٣٤)۔
معزز قارئین! غصہ و ناراضگی ایک فطری چیز ہے، کسی معاملے میں بھی تعلق اور دوست و احباب کے ساتھ ایسی بات پیش آجائے تو حدیث میں اسکے لئے صرف تین دن کی اجازت دی گئی ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی مسلمان کے لئے رواں نہیں کہ وہ اپنے مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ بات چیت بند رکھے۔ (ریاض الصالحین ص ٥٦٧)۔
اللہ کے رسول کی یہ بھی حدیث ہے کہ پیر اور جمعرات کے دن اللہ اپنے بندوں کی مغفرت فرماتے ہیں سوائے ان لوگوں کے جو ایک دوسرے سے قطع تعلق کیے ہوں۔ (حوالہ سابق).
کشیدہ تعلقات میں سلام کو رواج دینا اور سلام میں پہل کرنا بہتری اور تازگی کا سبب ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتلاؤں جس سے تمہاری محبت آپس میں بڑھ جائے؟
تم آپس میں سلام کو رواج دو۔ (ریاض الصالحین ص ١٧٧)۔
پس جن بھائیوں کے باہمی تعلقات کشیدہ ہیں ان کو چاہیے کہ وہ سلام میں پہل کرکے اپنے تعلقات کی تجدید و بحالی کا فیصلہ کن قدم اٹھائیں۔
عید الاضحی کے اس مبارک موقع پر ہماری باہمی محبت و چاہت اللہ کی رضا کے لئے ہونی چاہئے، اس موقع پر ہم صرف رسمی طور پر گلے نہ ملائیں بلکہ دل سے ملائیں، رنجش و کدورت کو ختم کریں اور پیار و محبت کی گیت گائیں۔
جب گلے مل کے وہ پلٹے تو ہوا یوں محسوس،
جیسے کھینچے لے جاتا ہے کلیجہ کوئی۔
امام علی مقصود فلاحی۔
متعلم: جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن۔
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد۔