اودھیش کمار
18ستمبر سے22ستمبر تک پارلیمنٹ کا اجلاس بلانے اور سابق صدر رام ناتھ کووند کی صدارت میں ایک ساتھ الیکشن پر تجویز دینے کے لیے کمیٹی کی تشکیل کے اعلان نے بحث کو یکدم بدل دیا ہے۔ اس وقت خصوصی پارلیمانی اجلاس اور ایک ساتھ الیکشن فطری طور پر سب سے بڑے بحث کے ایشوز ہیں۔ ممبئی میں منعقد آئی این ڈی آئی اے کی میٹنگ میں بھی یہ ایشو اٹھا اور وہاں سے آنے والے ردعمل میں یہ سرفہرست تھا۔ کہہ سکتے ہیں کہ وزیراعظم نریندر مودی کی سیاسی حکمت عملی نے ایسی صورتحال پیدا کی جس میں حکمراں بی جے پی کی قیادت والا نیشنل ڈیموکریٹک الائنس(این ڈی اے) ایجنڈا طے کررہا ہے۔ پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بلانے کا مطلب ہے کہ حکومت کچھ خصوصی چرچہ کرانا چاہتی ہے۔ صدرجمہوریہ کی صدارت میں کمیٹی کی تشکیل اور اس میں شامل ممبران کو دیکھیں تو کہنا پڑے گا کہ حکومت ایک ساتھ الیکشن پر سنجیدہ ہے۔ پہلے کسی معاملہ پر سابق صدرجمہوریہ کی صدارت میں کمیٹی کی تشکیل نہیں ہوئی تھی۔ اگر18ستمبر کے پارلیمانی اجلاس کو دھیان میں رکھیں اس میں ایک ساتھ الیکشن سے متعلق ایجنڈا ہو تو ایسا لگ سکتا ہے کہ کمیٹی کو اتنا کم وقت نہیں ملنا چاہیے تھا۔ ویسے پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس کا ایجنڈا ان سطروں کے تحریر کیے جانے تک واضح نہیں ہے۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ وزیراعظم کے ذریعہ 2015سے اس کی چرچہ کی جاتی رہی ہے اور اس پر پوری بحث ہوئی ہے۔ آئین سازوں سے لے کر سیاسی پارٹیوں کے ردعمل آچکے ہیں۔ کئی سفارشات اور رپورٹس بھی ہیں۔ سب سے پہلے 1999میں لاء کمیشن کی 170ویں رپورٹ میں لوک سبھا اور اسمبلیوں کے الیکشن ایک ساتھ کرنے کی بات کہی گئی تھی جس میں اس سے متعلق کچھ نکات کا ذکر تھا۔ 2015میں پرسنل، عوامی شکایات، قانون اور انصاف کے معاملات کی پارلیمانی کمیٹی نے اس کی سفارش کی۔ اگست، 2018میں پھر لاء کمیشن کی رپورٹ آئی جس میں دو مراحل میں الیکشن کرانے کا مشورہ دیا گیا تھا۔ دسمبر2022میں، لاء کمیشن نے ملک میں ایک ساتھ الیکشن کرانے کی تجویز پر قومی سیاسی پارٹیوں، الیکشن کمیشن، نوکرشاہوں، ماہرین تعلیم اور ماہرین سمیت سبھی متعلقین کی رائے طلب کی تھی۔ ان سب کے ساتھ 2017 میں نیتی آیوگ نے ایک اسٹڈی ڈاکیومنٹ جاری کیا تھاجس میں اس نے پارلیمانی کمیٹی کے دو مراحل میں مشوروں کو قبول کیا تھا۔
مخالفین خدشات کا اظہار کررہے ہیں کہ وزیراعظم نریندر مودی کچھ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کو آگے کھینچنا چاہتے ہیں اور ایسی صورت حال میں الیکشن کرانے کے خواہش مند ہیں جس میں قومی سطح پر ان کا نام سب سے اوپر ہو اور لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات میں ان کی پارٹی کو فائدہ حاصل ہو۔ الیکشن کو ایک ساتھ کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ اسمبلیوں کی مدت کار ہی ہے۔ فطری طور پر اگر اس پر اتفاق رائے ہوتا ہے تو کئی ریاستوں کی اسمبلیوں کی مدت کار میں اضافہ کرنا پڑے گا اور کچھ کی کم کرنا پڑے گا۔ مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، راجستھان اور تلنگانہ کے اسمبلی انتخابات لوک سبھا الیکشن کے کچھ ہی ماہ پہلے اور مہاراشٹر اور ہریانہ کے کچھ ماہ بعد ہوتے ہیں۔ فطری طور پر ان اسمبلیوں کے الیکشن ملتوی ہوسکتے ہیں۔ لیکن صرف اسمبلی الیکشن ملتوی کرکے لوک سبھا الیکشن کے ساتھ کرنے کے لیے کوئی حکومت اتنا بڑا قدم نہیں اٹھاسکتی۔
خاص بات ہے کہ کیا ایک ساتھ لوک سبھا اور اسمبلی الیکشن کرنا کافی ہے؟ کیا واقعی اس کی ضرورت ہے اور یہ ہندوستانی جمہوریت کو آج سے بہتر صورتحال دے سکتا ہے؟
1967تک سبھی انتخابات مقررہ مدت میں ساتھ ہی ہوتے تھے۔ 1967میں کانگریس کی اجارہ داری ختم ہونے، آٹھ ریاستوں میں دوسری پارٹیوں کی اتحادی حکومتیں، جنہیں تب کنٹریکٹ گورنمنٹ کہا گیا تھا تشکیل ہونے اور ان کے بے وقت گرجانے یا گرا دیے جانے سے مسئلہ شروع ہوا۔ کانگریس میں قیادت کی اندرونی لڑائی کے سبب اس وقت کی وزیراعظم آنجہانی اندراگاندھی نے چوتھی لوک سبھا کو وقت سے پہلے 1970میں ہی تحلیل کردیا۔ 1975میں ایمرجنسی لگانے کے بعد لوک سبھا کی مدت کار 6سال کردی گئی۔ 1977میں جنتا پارٹی کی حکومت بنی جو ڈھائی سال بعد ہی گرگئی۔ اس کے ساتھ الگ الگ ریاستوں کی حکومتیں بے وقت گرتی رہیں۔ 1989سے 1999کی دہائی ہندوستانی سیاست کی خوفناک عدم استحکام کی تھی جس میں مرکز سے ریاستوں تک حکومتیں بے وقت جاتی رہیں۔ اس طرح الگ الگ الیکشن ہمارے ملک کے سیاسی اور آئینی نظام کا فطری اور عام صورت حال نہیں ہے۔ ہندوستانی سیاست کے بدنما چہرے کے پیچھے سب سے بڑی وجہ ہے۔ بتانے کی ضرورت نہیں کہ مسلسل الیکشن کی وجہ سے نہ صرف معاشی بوجھ میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ پوری مشینری لگانی پڑتی ہے۔ لاء کمیشن نے 2018کی اپنی سفارش میں الگ الگ انتخابی اخراجات کا تخمینہ لگاکر بتایا ہے کہ ایک وقت میں الیکشن ہونے سے زیادہ وسائل بچیں گے۔
سب سے بڑی بات یہ کہ سیاسی پارٹیوں میں اہم قومی یا عوامی مفادات سے متعلق ایشوز پر بھی اتحاد نہیں ہوپاتا۔ سبھی پارٹیاں اپنے ووٹرس کو خطاب کرنے کے لیے مجبور رہتی ہیں۔ الیکشن بھلے اسمبلی کے ہوں لیکن قومی سیاست اور ہماری پارلیمنٹ بھی اس کا شکار ہوتی ہے۔ متعلقہ پارٹیاں قومی سطح پر بھی ریاست کے انتخابی مفادات کو دھیان میں رکھتے ہوئے ہی کردار ادا کرکے پیغام دیتی ہیں۔ ضابطہ اخلاق نافذ ہوجانے کے بعد حکومت چاہے بھی تو ضروری ڈیولپمنٹ اور عوامی فلاح کے لیے نیا قدم نہیں اٹھاسکتی۔ ہر سال ہندوستان میں اوسطاً چار ریاستی اسمبلیوں کے الیکشن ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ مقامی اداروں کے بھی الیکشن ہوتے رہتے ہیں۔ لوک سبھا سے لے کر اسمبلی اور مقامی اداروں کو دھیان میں لائیے اور سوچئے کہ ضابطہ اخلاق کا کتنا بڑا اثر ابھی تک ملک پر ہوا ہوگا۔ ہر غیرجانبدار اور سمجھدار شخص اس صورت حال کو بدلنے کی خواہش رکھتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ ممکن ہے؟ آئین ایک ساتھ الیکشن کی ممانعت نہیں کرتا۔ لیکن لوک سبھا اور الگ الگ ریاستوں کی اسمبلیوں کی مدت کار میں اتنا بڑا فرق آگیا ہے کہ اسے پُر کرنا آسان نہیں ہوگا۔ لیکن ایسا ہوسکتا ہے۔ اس کے لیے کچھ اسمبلیوں کی مدت کار میں اضافہ کرنا ہوگا تو کچھ میں کمی کرنی ہوگی۔ 2018میں لاء کمیشن نے اپنی سفارش میں اس کے لیے آئین کے آرٹیکلز-83، 85، 172، 174 اور 356میں ترمیم کا ذکر کیا تھا۔ 356کو چھوڑ کر دیگر التزامات اسمبلیوں لوک سبھا کی 5سالہ مدت کار ان کو ایک سال تک ایک بار میں بڑھنے اور تحلیل کرنے سے متعلق ہیں۔ ان دفعات میں ترامیم کرکے لوک سبھا اور اسمبلیوں کی مدت کار کم یا زیادہ کی جاسکتی ہیں اور صدرجمہوریہ اور گورنروں کے حقوق کا استعمال کرتے ہوئے اسے مطلوبہ وقت پر تحلیل کیا جاسکتا ہے۔ آرٹیکل 356ایمرجنسی صورت حال ہے جن میں ریاست کا نظم و نسق ناکام ہونے یا کسی صورت میں حکومت تشکیل نہ ہونے کی بنیاد ہوتی ہے۔ ظاہر ہے، اسمبلی تحلیل کرنے کے لیے 356میں ترمیم کرنی پڑے گی۔ آئین میں ترمیم آسان نہیں ہوگی۔ خاص بات سیاسی اتفاق رائے کی ہے۔ سیاسی اتفاق رائے قائم ہوجائے تو 356کو چھوڑ کر ان آرٹیکلز میں بھی ترامیم کی ضرورت نہیں ہوگی۔ اکثریت کی حکومت کبھی بھی اسمبلیوں اور لوک سبھا کو تحلیل کرنے کی سفارش کرسکتی ہے۔ ہندوستانی سیاست اس مرحلہ میں پہنچ گئی ہے جہاں مکمل اتفاق رائے قائم ہونا ناممکن ہے۔ لاء کمیشن نے کہا ہے کہ لوک سبھا الیکشن کے ساتھ پہلے ان اسمبلیوں کے الیکشن کرا دیے جائیں جن کی مدت کار 3سال یا اس سے زیادہ ہوچکی ہے اور پھر 3سال بعد باقی اسمبلیوں کے۔ لوک سبھا اوراسمبلیاں ہی نہیں مقامی اداروں کے الیکشن بھی ایک ساتھ ایک وقفہ میں کردیے جائیں تو سرکار مفادعامہ کا دھیان رکھتے ہوئے سخت قدم اٹھانے پر بھی دباؤ میں نہیں ہوگی۔ حالاں کہ اس بات کی گارنٹی نہیں ہے کہ ایسا ہوجانے کے بعد حکومتیں بے وقت نہیں گریں گی۔ ایک پارٹی کے اکثریت میں نہ ہونے پر اتحادی حکومتیں کبھی بھی جاسکتی ہیں۔ لیکن اس کا بھی راستہ نکالا جاسکتا ہے۔ بنیادی بات حکومت کے ساتھ سبھی سیاسی پارٹیوں کے ارادے اور قوت ارادی کی ہے۔rvr
’ون نیشن ون الیکشن‘ کی پہل کو کیسے دیکھیں
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS