سویڈن میں پھر مذموم واقعہ

0

یوروپی ملکوں کی انسان دوستی، اظہاررائے کی آزادی، کھانے پینے اور ملبوسات کی آزادی کئی بار ناقابل فہم لگتی ہے۔ یہ کیسی اظہار رائے کی آزادی ہے جو دوسروں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کی وجہ بن جاتی ہے۔ کسی یوروپی ملک میں اظہاررائے کی آزادی کے نام پر مذموم خاکے بنائے جاتے ہیں، کسی یوروپی ملک میں اظہار رائے کی آزادی کے نام پر قرآن کریم کی کاپی نذرآتش کی جاتی ہے۔ سویڈن میں تو قرآن کریم کی کاپی نذرآتش کرنے کا واقعہ ایک سے زیادہ بار ہوچکا ہے۔ وہاں 3ستمبر 2023 کو ایک بار پھر یہ مذموم واقعہ ہوا ہے۔ اس بار سویڈش پولیس نے 12لوگوں کو گرفتار کیا ہے لیکن دعوے سے یہ بات نہیں کہی جاسکتی کہ انہیں سزا ملے گی۔ اس سے قبل سویڈش حکومت نے قرآن کریم کی بے حرمتی کے واقعات کی مذمت تو کی تھی مگر یہ بات بھی واضح کردی تھی کہ سویڈن میں اظہار رائے کی آزادی کو قانونی اور آئینی تحفظ حاصل ہے۔ اظہار رائے کی آزادی کی بات دیگر ملکوں میں بھی کی جاتی ہے، اس لیے بار بار اظہار رائے کی آزادی کے بہانے ہونے والے مذموم واقعات پر احتجاج کرنا تو سمجھ میں آتا ہے مگر یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اظہار رائے کی آزادی کی تعریف جاننے پر زور کیوں نہیں دیا جاتا؟ کیوں نہیں یوروپی حکومتوں سے یہ پوچھا جاتا کہ اظہار رائے کی آزادی کا دائرہ کیا اتنا وسیع ہے کہ اس میں ساری مذموم حرکتیں سما سکتی ہیں؟ ورنہ کیا وجہ ہے کہ مذہبی جذبات مجروح کرنے کی بھی پروا نہیں کی جاتی اور بتانے کی یہ کوشش کی جاتی ہے کہ اظہار رائے کی آزادی بہت ضروری ہے؟ اظہار رائے کی آزادی بیشک ضروری ہے لیکن تب تک جب تک اس کا استعمال کوئی مذموم واقعہ انجام دینے کے لیے نہ کیا جائے؟ اظہار رائے کی آزادی کی قدر کی جانی چاہیے لیکن اسی وقت تک جب تک اس کا استعمال کوئی تنازع پیدا کرنے کے لیے نہ کیا جائے لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ وہ یوروپی ممالک جو کبھی انصاف پسندی، امن پسندی، انسان دوستی، مذہبی مساوات اور مذہبی جذبات کی قدر کرنے کے لیے جانے جات تھے، آج وہ مذموم واقعات کو روکنے میں ناکام ہیں۔ سوال یہ ہے کہ سویڈش حکومت کب تک مٹھی بھر لوگوں کے مذموم عمل کو صحیح ٹھہرانے کے لیے اظہار رائے کی آزادی کی باتیں کرتی رہے گی اور اسلام کے ماننے والے تقریباً دو ارب مسلمانوں اور ان تمام امن پسند لوگوں کو نظرانداز کرتی رہے گی جس کے لیے اظہار رائے کی آزادی تو اہم ہے لیکن اس سے زیادہ اہم ہے دوسروں کے جذبات کا خیال کرنا، ان کے مذہبی جذبات کو ٹھیس نہ پہنچانا؟ سوال یہ بھی ہے کہ قرآن کریم کی بے حرمتی کے واقعات بار بار سویڈش میں ہی کیوں ہورہے ہیں؟
رپورٹ کے مطابق، سویڈن کے جنوبی شہر مالمو کے ایک چوک پر مظاہرہ ہوا۔ اس مظاہرہ کا انعقاد عراقی پناہ گزیں سلوان مومیکا نے کیا تھا۔ مومیکا اس سے قبل قرآن کریم کی کاپی نذرآتش کرچکا ہے اور اس کے باوجود کھلا گھوم رہا ہے تو ظاہر سی بات ہے کہ اس کی وجہ ہوگی، ورنہ اظہار رائے کی آزادی اتنی اہم بھی نہیں ہوسکتی کہ اسے جھگڑے فساد کی وجہ بننے دیا جائے ، ملک کی ساکھ خراب کرنے کی وجہ بننے دیا جائے، کیوں کہ یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ سویڈن میں قرآن کریم کی کاپی نذرآتش کیے جانے کی وجہ سے دنیا بھر کے مسلمانوں میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ کئی مسلم ممالک نے ناراضگی کا اظہار واضح الفاظ میں کیا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے ایک سے زیادہ ملکوں نے سویڈن کے سفیروں کو طلب کرکے احتجاج درج کرایا ہے۔ عام لوگوں نے مظاہرہ کرکے اپنے غم و غصہ کا اظہار کیا ہے۔ قرآن کریم کی کاپی نذر آتش کیے جانے کے بعد سویڈش انٹلیجنس ایجنسی نے دہشت گردی کے انتباہ کی سطح بڑھا دی تھی کہ سویڈن کو دہشت گردانہ حملوں کے لیے ترجیحی ہدف سمجھا جانے لگا ہے۔ لیکن دہشت گردی کے لیے اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن کریم پڑھنے اور اس کی تعلیمات پر عمل کرنے والا کوئی بھی مسلمان کسی بھی وجہ سے دہشت گردی کو صحیح نہیں ٹھہراسکتا۔ نہایت افسوس کی بات ہے کہ وہ مقدس کتاب جس کی بے حرمتی اظہاررائے کی آزادی کے نام پر ہونے دی جارہی ہے اور سویڈش حکومت ایک طرح سے بے بسی کا اظہار کررہی ہے، وہ بتاتی ہے، جس نے ایک بے قصور انسان کا قتل کیا، اس نے پوری انسانیت کا قتل کیا اور جس نے ایک انسان کو بچایا، اس نے پوری انسانیت کی حفاظت کی۔ کیا وہ لوگ جو قرآن کریم کی بے حرمتی کرنے کے لیے مچل رہے ہیں اور وہ لوگ جو ان کے سامنے اظہار رائے کی آزادی کے نام پر بے بسی کا اظہار کررہے ہیں، انسانیت سے ان کا کچھ لینا دینا نہیں ہے؟ اگر ہے تو یہ سوچ کر قرآن کریم کو انہیں سینے سے لگالینا چاہیے کہ یہی وہ مقدس کتاب ہے جو ایک انسان کی حفاظت کو پوری انسانیت کا تحفظ بتاتی ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS