عبدالسلام عاصم
ایک سے زیادہ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کے اعلان کے بعد گزرنے والے ہر دن کے ساتھ مختلف سیاسی جماعتوں کے جیتنے کے امکانات اور ہارنے کے اندیشوں کی خبروں کے درمیان سوشل میڈیا کی مفسدانہ سرگرمیاں جس طرح ذہنی آلودگی پھیلا رہی ہیں، وہ افسوسناک سے زیادہ تشویشناک ہے۔ ابھی گزشتہ دنوں سوشل میڈیا میں ایک مصور پوسٹ نظر سے گزری۔ اس میں کچھ اس طرح کی عبارت درج تھی: اب آپ شرعی قید و بند سے آزاد خطے میں قدم رکھ رہے ہیں، اس لیے اپنی گھڑی کی سوئیاں چودہ سو برس آگے بڑھا لیں۔ پوسٹ شیئر کرنے والے نے جوابِ آں غزل کے طور پر اُس میں یہ اضافہ کر دیا تھا کہ گھر واپس آنے والے اپنی گھڑی میں وقت پانچ ہزار سال پیچھے کر لیں۔ بظاہراس پوسٹ میں ایک حلقے کو حکایات پر مبنی تابناک ماضی کا اسیر دکھانے کی کوشش کی گئی ہے اور جواب میں دوسرے حلقے کے سفر کارُخ ماضی کے اندھیرے کی طرف دکھایا گیا ہے۔
کیا ہندوستان فرقہ وارانہ ہم آہنگی میں خلل سے متاثر انتخابی فضامیں درونِ ملک جمہوریت کے ماحول کو اس طرح زہر آلود کرنے کی اجازت دینے کا متحمل ہے! اگر اِس کا جواب نہیں ہے تو اطلاعاتی انقلاب کے ڈیجیٹل عہد میں جب دنیا عالمی وبا کورونا سے انتہائی مضبوط ارادوں کے ساتھ نبرد آزما ہے، موجودہ حکومت کو محدود سیاسی نفع نقصان سے بالاتر ہوکر پہلی فرصت میں اُن عناصر کی عملی حوصلہ شکنی کرنا چاہیے جن کی وجہ سے ملک جمہوری تقاضوں کی وسعت سے محروم ہوتا جا رہا ہے اور معاشرہ بڑے اہتمام سے ایک ایسے رُخ پر آگے بڑھ رہا ہے جہاں زندگی کے تمام بنیادی تقاضوں پر عقائد اور نظریاتی سوچ بری طرح حاوی ہوتے جا رہے ہیں۔
ماضی قریب کی تاریخ کے وہ اوراق ابھی بوسیدہ نہیں ہوئے جو شاہد ہیں کہ آزادی کے بعد ذمہ دارانِ سیاست نے ہندوستان میں سیکولرزم کی جس نوعیت کی وکالت کی تھی اُسے مختلف مذہبی فرقوں، ذات اور برادریوں کو مساوی طور پر ایک چھت کے نیچے ایک ساتھ رکھنے کے لیے مرتب کیا گیا تھا۔ اس سے بہ کثرت اتفاق کرنے والوں کے نزدیک ہندوستان کی جامع ثقافت اس کی اہم طاقتوں میں سے ایک تھی۔ جس حلقے نے اتفاق نہیں کیا تھا وہ بین فرقہ و ذات رواداری کا قائل ہونے کے باوجود قوم پرستی کو اکثریت سے جوڑ کر دیکھتا تھا اور ملک کی یک ثقافتی پہچان کے حق میں تھا۔ موجودہ منظر نامے میں بی جے پی اور اس کے مختلف نظریاتی وابستگان ملک میں ایک سے زیادہ ذات اور مذہب کی موجودگی کے مخالف نہیں ہیں لیکن وہ بظاہر ملک کی سیکولر جمہوری پہچان کو کسی جامع ثقافت کا ترجمان دیکھنا نہیں چاہتے۔ وہ ہندوستان کو تمام تر فرقہ وارانہ گنجائش کے ساتھ ایک اکثریتی قومی ریاست کے طور پر سامنے لانا چاہتے ہیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ مسلم اکثریت والے کئی ممالک بھی ایسی نظیررکھتے ہیں۔ یعنی وہ جامع ثقافت کے عکاس نہیں پھر بھی اُن کے یہاں دیگر مذاہب کے عاملین کو حسبِ عقیدہ زندگی گزارنے کی اجازت ہے، لیکن ہندوستان کی نظیر سیکولر جمہوریت کی ترجمانی کے اعتبار سے زیادہ لائقِ اعتنا ، قابلِ بھروسہ اور دوسروں کے لیے موجبِ تقلید ہے۔بنگلہ دیش نے بہت حد تک اسی نظیر کو اپنا رکھا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وقفے وقفے سے وہاں بھی اس میں خلل پڑتا رہتا ہے۔
متذکرہ پس منظر میںاب اِس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہندوستان میں جامع ثقافت جسے مقامی طور پر گنگا جمنی تہذیب کہا جاتا ہے، اپنی کشش سے کیسے محروم ہوئی!اکثریت اور اقلیت دونوں میں ایسے حلقے نئی نسل کی ذہنی آبیاری کرنے میں کیسے کامیاب ہوگئے جو ہندوستانی سے زیادہ اپنی اپنی مذہبی پہچان کے ساتھ سرگرم رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس پر غور کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اب یہ سچ جگ ظاہر ہے کہ سیکولر جمہوریت کو عملاً فروغ دینے کے بجائے رنگ اور نسل، ذات اور مذہب سے منسوب شناختوں کا سیاسی استحصال کرنے کی سیاست کرنے والوں نے ہی مذہبی منافرت کو بالواسطہ پنپنے اور سیکولرزم کے اختیار کردہ تصور کو دھندلا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ نتیجے میں اقلیت کے اندر جہاں عدم تحفظ کا احساس شدید ہوا ہے، وہیں اکثریت میںمذہبی قوم پرستی کا جذبہ رکھنے والے یہ تاثر قائم کرنے میں کامیاب رہے کہ اُنہیں مذہبی پاسداری سے دور کیا جا رہا ہے۔
وقت آگیا ہے کہ گمراہ نئی نسل کو منظم طور سے یہ بتایا جائے کہ تقسیم کا صدمہ جھیلنے والے آزاد ہندوستان کے لیے مذاہب کو نہیں فرقہ پرستی کو دشمن گردانا گیا تھا۔ شروع میں یہ کوشش اتنی موثر تھی کہ آزادی کے بعد قائم ہونے والی سیکولر حکومتوں میں 1970 کی دہائی تک ہندوستان کا اختیار کردہ سیکولرزم معقول طریقے سے کام کرنے لگا تھا۔ اکثریت اور اقلیت کی نئی نسل ہند-پاک تاریخ رٹنے کی جگہ ادب، سائنس، ریاضی اور اعلیٰ سرکاری ملازمت رُخی تعلیم حاصل کرنے لگی تھی۔ ملک کے مرکزی اور ریاستی قانون ساز اداروں میں اقلیتوں کی بھی اچھی نمائندگی سامنے آنے لگی تھی۔ صنعتی انقلاب نے پوری قوم کو اپنی طرف متوجہ کر رکھا تھا۔ ایک طرح سے سب ٹھیک چل رہا تھا لیکن کشمیر پر پاکستان کے لگاتاردعوے اور ہندوستان کا اس دعوے سے مسلسل اختلاف نے تقسیم کے اُس زخم کو نہیں بھرنے دیا جواندر ہی اندر فرقہ وارنہ ہم آہنگی کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہا تھا۔
1971 کی ہند-پاک جنگ اور اس جنگ میں پاکستان کی شکست نے دہائیوں پر محیط امکانات کا رُخ اندیشوں کی طرف موڑ دیا۔ پا کستان کی فرقہ وارانہ نوعیت کی انتقام پسندانہ ہند دشمنی نے وطن عزیز میں ایک بار پھر اُس مذہبی صف بندی کی راہ ہموار کر دی جس کے سابقہ تجربے نے ملک کو دولخت کردیا تھا۔ ہر چند کہ1951 کے عوامی نمائندگی ایکٹ کی دفعہ 123(جس کا تعلق انتخابات کے انعقاد کی رہنمائی کرنے والے قانون سے ہے) سیاست دانوں کو مذہبی موضوعات پر انتخابی مہم چلانے سے روکتا ہے لیکن 1970 کی دہائی کے بعد کی عوامی اور انتخابی دونوں طرح کی سیاسیات کو حکمراں اور اپوزیشن حلقوں نے مذاہب کے استحصال سے آلودہ کر دیا۔
تازہ منظر نامے میں حالات سے بیزاری اور بیداری نے پھر سراُٹھانا شروع کیا ہے لیکن عقائد اور آستھا کو دلوں تک محدود اور حقیقی علم سے ذہنوں کو منور کرنے کا میلوں سفر طے کرنے میں کوئی دو نسلوں کا زیاں ہوتا نظر آرہا ہے۔ اگر اس منظر نامے کو نسلِ آئندہ کے حق میں بدلنا یا بدلنے کی کوشش کرنا مقصود ہے تو سب سے پہلے اس بات سے اتفاق کرنا ہوگا کہ ردعمل کے نام پراحتجاج کرکے نقصان اور تلخیاں نہ بڑھائی جائیں۔ یہ موقع سنجیدہ غور و خوض کا ہے اور اس لحاظ سے باعثِ اطمینان بھی کہ منفی تبدیلیوں اور خیالات سے اتفاق نہ کرنے والے بفضلہ دونوں فرقوں میں بہ کثرت موجود ہیں۔ ایسا نہ ہوتا تو بین فرقہ ہم آہنگی کے دن کم ہوتے اور بعض جنگ زدہ ملکوں کی طرح یہاں بھی فساد روز کا معمول ہوتا۔ یہ ہمارے یہاں دونوں حلقوں کے امن پسندوں کا کمال ہے کہ اُن کی وجہ سے خلل ڈالنے والوں کو موقع کی تلاش میں سرگرداں رہنا پڑتا ہے ،لیکن جوئندہ پائندہ کے مصداق اُنہیں نقض امن کا ایک آدھ موقع مل ہی جاتا ہے۔ ایسے ناخوشگوار مواقع بہرحال کم ہونے کے باوجود اتنے شدید ہوتے ہیں کہ متاثرین برسوں تکلیفیں جھیلتے رہتے ہیں۔
حالات کیسے بدلیں گے؟اس سوال سے رجوع کرنے میں ایک بنیادی فکری تبدیلی کے تحت مسئلے پر غور اور ازالے کے عمل کو اس طرح مربوط کیا جائے کہ درمیاں میں کوئی خلا اس قدر بسیط نہ ہو کہ غلط فہمیاں پیدا کرنے والے خاموشی سے اپنا کام کر جائیں اور جب تک اس کا پتہ چلے ، دیر ہو چکی ہو۔ ہمیں اب اپنے لیے نہیں بلکہ نئی نسل کے لیے کام کرنا ہے اور ان پر باور کرنا ہے کہ ہماری بعض مشترکہ غلطیوں کی وجہ سے زندگی کے ارتقاء کے سفر کارُخ ایک بار پھر انہی غاروں کی طرف مڑ گیا ہے جہاں سے ہم تمدن کی طرف بڑھے تھے۔ اپنے بچوں کے آگے ایسی خود سپردگی میں کوئی قباحت نہیں۔ بچوں کی بھلائی کے لیے جہاں ہم اور تکلیفیں اٹھاتے ہیں، وہیں ایک کوفت یہ بھی سہی۔یہ قدم کئی رُخ پر اٹھانا ہوگا جن میں ایک کا تعلق تعلیم و تربیت سے ہے۔
ہمیں مدارس اور ششو مندروں میں بچوں کی تعلیم کا ایسانظم کرنا ہوگا کہ اُن کے اندر دوسروں کو کم تر سمجھنے سے مشروط قسم کا احساسِ برتری پیدا نہ ہو۔ طلبا کو بین مذاہب زندگی کے سفر کے حوالے سے یہ بتایا جائے کہ ہر راستہ ایک ہی منزل کی طرف جاتا ہے۔ اس لیے کسی کو اپنے راستے کی طرف کھینچنے یا اپنا راستہ بدلنے کے بجائے سبھی راستوں کو کشادہ اور آسان بنانے پر توجہ دی جائے۔ المیہ یہ ہے کہ بعض درس گاہیں/پاٹھ شالے بالواسطہ یا لاشعوری طور پر تنگ نظری پھیلانے کے مراکز میں بدل گئے ہیں۔ وہاں سے جسمانی بلوغت اور ذہنی کنڈیشننگ کے ساتھ نکلنے والے فارغین کسی دوسرے کی بات دوسرے کے نقطہ نظر سے سُننے، سوچنے اور سمجھنے کی توفیق سے یکسر محروم ہوتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی تعلیم کو ذہنی آزمائش کے کام میں نہیں لا پاتے، حالانکہ دورانِ تعلیم وہ مقدس کتابوں میں سوچنے اور سمجھنے کی تلقین کے کئی احکامات سے گزر چکے ہوتے ہیں۔ اس صورتحال کا جن حقیقی وابستگانِ علم کو احساس اور ادراک ہے اُنہیں چاہیے کہ وہ اپنی صفوں میں شامل ایسے گمراہوں کی نفسیاتی اصلاح کریں اوراُن پر باور کریں کہ ایک دوسرے کے ماضی کے تاریک ابواب کو سامنے لانے سے کسی کا حال نہیں بدلتا بلکہ جارحیت اور مدافعت کی جنگ شدت اختیار کرتی ہے۔
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]