ممتاحکومت اور گورنر جگدیپ دھن کھڑ

0

مغربی بنگال میں گورنر جگدیپ دھن کھڑاور ممتاحکومت کے درمیان جاری تنازع رکنے کا نام نہیں لے رہاہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا ہے جب گورنر کی جانب سے ریاستی حکومت کے کام کاج میںکیڑانہ نکالاجاتاہو اور ریاستی حکومت کے مختلف وزرا گورنر کے خلاف بیان بازی نہ کرتے ہوں ۔ اب یہ معاملہ کیڑاکاری اور بیان بازی سے بھی آگے نکل کرچوک چوراہوں پر بحث کا موضوع بن چکا ہے ۔جس طرح سے یو م جمہوریہ کی تقریب میں گورنر جگدیپ دھن کھڑ اور وزیراعلیٰ ممتابنرجی کے مابین کھلی رسہ کشی دکھائی دی، ریاست کی تاریخ میںاس کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے ۔ وزیراعلیٰ ممتابنرجی نے یوم جمہوریہ کی تقریب میں گورنر جگدیپ دھن کھڑ کا استقبال کرنے سے انکار کردیا اور اپنی جگہ چیف سکریٹری ایچ کے دویدی کو ریاست کے آئینی سربراہ کے استقبال کیلئے بھیجا۔جب گورنر جلسہ گاہ پہنچے تو وزیراعلیٰ ممتابنرجی، اسمبلی کے اسپیکر بمان بنرجی کے ساتھ پوڈیم پر بیٹھی رہیںاور گورنر کے اظہار خیرسگالی پر بھی کوئی توجہ نہیں دی ۔یہ صورتحال ایک دن میں پیدا نہیں ہوئی۔
شروع دن سے ہی یہ دیکھاجارہاہے کہ گورنرجگدیپ دھن کھڑ، ممتاحکومت کے خلاف ہمہ وقت شمشیر برہنہ بنے رہتے ہیں۔ درجنوں بار ریاستی حکومت پرآئین کی خلاف ورزی کا الزام لگاچکے ہیں۔ دو ہفتہ قبل ہی مختلف یونیورسیٹیوں میں وائس چانسلر کی تقرری کے معاملہ کو بھی گورنر نے نزاعی شکل دے دی تھی اوریہاں تک کہہ دیا کہ ریاست میں قانون کی حکمرانی نہیں ہے بلکہ یہاں حکمرانوں کا قانون چل رہاہے ۔ یوم جمہوریہ کی تقریب کے اگلے ہی دن انہوں نے ایک بار پھر وزیراعلیٰ ممتابنرجی کو ایک طویل مکتوب بھیجا جس میں دعویٰ کیا ہے کہ مغربی بنگال کی حکومت سرکاری کام کاج سے متعلق انہیں کوئی بھی معلومات فراہم نہیں کررہی ہے۔جب کہ آئین کی دفعہ16کی رو سے ریاستی حکومت انہیں کام کاج سے مطلع کرنے کی پابند ہے۔
گورنر کاکہنا ہے کہ ریاستی حکومت حال ہی میںپیگاسیس جاسوسی معاملہ، صنعتوں کیلئے سرمایہ کاری اور ورلڈ بنگال گلوبل ٹریڈ کانفرنس کے انعقاد کے اخراجات، ماں کینٹین چلانے پرآنے والی لاگت، گورکھا لینڈ کی علاقائی انتظامیہ سے متعلق معلومات بار بار طلب کرنے پر بھی فراہم نہیں کررہی ہے۔حکومت گورنر کے آئینی عہدہ کو مسلسل نظر اندازکررہی ہے۔یہ ریاستی حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ گورنر کی طرف سے مانگی گئی معلومات فراہم کرے کیوں کہ ریاستی حکومت، گورنر سے کوئی معلومات نہیں چھپاسکتی۔یہ آئین کی خلاف ورزی ہے، جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتاہے۔
گورنر کامکتوب موصول ہونے کے فوراً بعد ترنمول کانگریس نے یہ فیصلہ کیا کہ یکم فروری سے شروع ہونے والے پارلیمنٹ کے بجٹ اجلاس میں ترنمول کانگریس مغربی بنگال کے گورنر جگدیپ دھن کھڑ کے خلاف قرار داد پیش کرے گی ۔
ملک کے آئینی ڈھانچہ میں گورنر کو تفویض کردہ ذمہ داریاں ایسی نہیں ہیں کہ وہ کسی منتخب حکومت کے کام کاج پر انگلی اٹھائے اوراس کے فیصلوں کے خلاف سر عام رائے زنی کرتے ہوئے اسے قانون سے متصادم قرار دے۔ کسی بھی ریاست کی منتخب حکومت اپنے کام کاج میں مکمل آزاد ہوتی ہے، مرکز کی جانب سے نامزد گورنر اس کے فیصلوں کو منظور کرنے کا پابند ہوتاہے اور وہ کسی فیصلہ کی منظوری نہ بھی دے تو حکومت اپنے انتظامی فیصلوں کو نافذ کرسکتی ہے جیسا کہ ریاست کی25یونیورسیٹیوں کے وائس چانسلر کی تقرری کے معاملے میں کیاگیا۔ اس لیے اگر گورنر اس بنیاد پرقانون کی حکمرانی نہ ہونے کی بات کرنے لگیں تو یہ سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہے کہ نشانہ کہیں اور لگایا جارہاہے اور مقصد بھی کچھ اور ہی ہے۔گویہ تصور کرنا بھی ممکن نہیں ہے کہ گورنر اپنے آئینی حدود سے ناواقف ہوں گے لیکن انہوں نے غالباً یہ طے کرلیا ہے کہ وہ اپنی اس آئینی حدکو قبول نہیں کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ گورنر اپنے مفوضہ آئینی حدود سے باہر نکل کر حزب اختلاف کی زبان بولنے لگے ہیں اورخود ہی ریاست میں ’لاقانونیت‘ کی افواہ پھیلارہے ہیں۔اس سے پہلے بھی قومی انسانی حقوق کمیشن نے انتخاب میں مبینہ طور پر ہونے والے تشدد کے حوالے سے بھی کچھ اسی طرح کابیان دیاتھاجس کی بازگشت اب گورنر کے بیان میں بھی سنی جارہی ہے ۔
گورنر کا یہ قدم ریاست میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کہی جائے گی اور یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ اس کوشش سے فائدہ کس کو پہنچے گا ۔گورنر کے آئینی عہدہ کو مذموم سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرناسیاست کیلئے بھی خطرناک ہے اور جمہوریت کیلئے سنگین خطر ہ کی علامت ہے ۔ہوسکتا ہے کہ یکم فروری کو پارلیمنٹ میں ترنمول کانگریس کی جانب سے گورنر جگدیپ دھن کھڑ کے خلاف پیش کی جانے والی قرار داد منظور نہ بھی ہو لیکن اس سے یہ ضرور ہوگا کہ گورنر کے آئینی عہدہ کا سیاسی استعمال باقاعدہ ریکارڈ پر آجائے گا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS