ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک
ان پانچ ریاستوں کے انتخابات میں اپوزیشن کو اتنی زبردست مار لگی ہے کہ کچھ دنوں تک اس کے ہوش و حواس گُم رہیں تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔آج اپوزیشن کے پاس نہ تو ایسی کوئی پارٹی یا اتحاد ہے جو بی جے پی کو آل انڈیا لیول پر چیلنج دے سکے۔ اپوزیشن کے پاس کوئی ایسا لیڈر بھی نہیں ہے جو مودی کا مقابلہ کرسکے۔ 2024میں مودی اور بی جے پی کا تیسری مرتبہ اقتدار میں آنا واضح طور پر دکھائی دے رہا ہے بشرطیکہ وہ ایمرجنسی جیسی کوئی خوفناک غلطی نہ کردے۔ وہ ایسی غلطی اگر کربھی دے تو اپوزیشن کے پاس جے پرکاش نارائن کی طرح کوئی ایسا چوٹی کا لیڈر بھی نہیں ہے، جو ساری اپوزیشن پارٹیوں کو ایک پلیٹ فارم پر لاسکے۔ ایسی صورت حال پر عام لوگوں اور خاص طور پر بی جے پی کے کروڑوں ارکان کا ردعمل یہ ہوسکتا ہے کہ ہندوستان کی سیاست پر مودی اور بی جے پی کی اجارہ داری ملک کے لیے بہت سود مند ثابت ہو سکتی ہے۔ کمزور اپوزیشن کی فضول مخالفت سے پروا کیے بغیر بی جے پی اپنی عوامی فلاحی مہمات کو آگے بڑھا سکتی ہے۔ یہ سوچ ویسے تو اوپری طور پر درست ہی معلوم ہوتی ہے لیکن جمہوریت کی ریل ہمیشہ دو پٹریوں پر چلتی ہے۔ اگر ایک پٹری بے حد کمزور ہو جائے یا نہ ہو تو ریل کے الٹ جانے کا خدشہ رہتا ہے جیسا کہ1975میں ہوا تھا۔ اگر کسانوں کی تحریک جیسی کوئی بڑی عوامی تحریک کھڑی ہوگئی تو وہی صورت حال اب بھی پیش آسکتی ہے۔ بی جے پی کی ریل گاڑی پٹری پر چلتی رہے اور ہماری جمہوریت بھی مفلوج نہ ہوجائے، اس کے لیے ضروری ہے کہ اب ملک میں ایک مضبوط اپوزیشن بنائی جائے۔ اس امکان کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اروند کجریوال، اکھلیش یادو اور ممتا بنرجی کو پہل کرنی ہوگی۔ اگر یہ تینوں متحد ہوسکیں تو مہاراشٹر، پنجاب، جھارکھنڈ، بہار، اڈیشہ، کیرالہ، تمل ناڈو، کرناٹک، کشمیر وغیرہ کی صوبائی پارٹیوں کے لیڈر بھی ان کے ساتھ شامل ہوسکتے ہیں۔ تمام غیر بی جے پی پارٹیوں کے ووٹ مل کر آج بھی ملک میں بی جے پی سے کئی گنا زیادہ ہیں۔2019کے انتخابات میں 91کروڑ ووٹروں میں سے بی جے پی کو تقریباً23کروڑ ووٹ ملے تھے۔ باقی68کروڑ ووٹروں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی صلاحیت اس وقت ملک کے کسی لیڈر یا پارٹی میں نہیں ہے۔ اگر وہ مہاگٹھ بندھن/عظیم اتحاد بنالیں تو اس کا بھی کامیاب ہونا ممکن نہیں ہے کیونکہ اس اتحاد کے پاس الیکشن لڑنے کے لیے کوئی زبردست ایشو نہیں ہے۔ ہاں، اگر تمام اپوزیشن پارٹیاں متحد ہوجائیں تو شاید کانگریس کی شیخی کچھ کم ہو جائے اور وہ بھی شاید بڑے اتحاد میں شامل ہو جائے۔ لیکن جب تک اس اپوزیشن اتحاد کے پاس ہندوستان کو مکمل طور پر خوشحال اور سپر پاور بنانے کا کوئی ٹھوس متبادل نقشہ نہیں ہوگا، ہندوستان کے عوام ان کرسی سے محبت کرنے والی اپوزیشن پارٹیوں سے متاثر بالکل نہیں ہوں گے۔ کنبہ پروری، ذات پرستی اور فرقہ پرستی نے ان اپوزیشن پارٹیوں کو بے راہ رو اور بے سمت بنا دیا ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں کی نااہلی اور تمام پارٹیوں میں کم ہوتی داخلی جمہوریت پورے ہندوستان کے لیے فکر کا موضوع ہے۔
(مصنف ہندوستان کی خارجہ پالیسی کونسل کے چیئرمین ہیں)
[email protected]