مضبوط متبادل کافقدان

0

اترپردیش اسمبلی انتخاب کے نتائج سے ایسا لگ رہاہے کہ اب سیاست کا رجحان بالکل ہی بدل چکا ہے۔ ترقی، امن و امان، خواتین کی حفاظت، جمہوریت کا تحفظ، روزگار، بڑھتی مہنگائی، کسانوں و طلبا کے حقوق اور اچھی حکمرانی کے بجائے فرقہ پرستی، پولرائزیشن اور بلڈوزر کاسودااس بازار سیاست میں خوب چل رہاہے۔ بھارتیہ جنتاپارٹی یہ سودا بیچنے میں پوری طرح کامیاب بھی رہی ہے۔
2024کے عام انتخاب سے قبل سیمی فائنل سمجھے جانے والے پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخاب میں ملنے والی خلاف توقع شاندار کامیابی پر بی جے پی کا مسرور و شاداں ہونا بجاہے۔ لیکن کیا بی جے پی کی یہ کامیابی ملک کی جمہوریت اور عوام کیلئے بھی اتنی ہی مسرت وشادمانی کا سبب ہوگی اس پر غور کیاجاناضروری ہے۔ یہ بھی سوچا جانا چاہیے کہ حزب اختلاف عوام میں اپنی شبیہ بہتر کیوں نہیں بنا پایا۔ حزب اختلاف کی یہ حالت کیوں ہوگئی کہ گزشتہ 8برسوں میں بھی وہ خود کو بی جے پی کا متبادل بنانے سے قاصر ہے۔یا پھر بی جے پی کی جیت میںحزب اختلاف کی کمزوری کے علاو ہ کچھ دیگر عوامل بھی کارفرماہیں۔
یہ کچھ کم حیران کن نہیں ہے کہ نتائج آنے سے چند دنوں پہلے ہی بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا نے باقاعدہ پریس کانفرنس بلاکر پانچ میں سے گن کر چار ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت بنانے کا دعویٰ کیا تھا۔ہوسکتا ہے کہ پارٹی کے درون خانہ سروے میں بھی جیت کا ہی امکان ظاہر کیاگیا ہو لیکن اس کے بعد اترپردیش میں جس طرح سے ای وی ایم کی گڑبڑی کا انکشاف ہوا اور گاڑیوں میں بھری ہوئی ای وی ایم پائی گئیں اس سے انتخاب میں دھاندلی کے الزامات کو تقویت ملی۔ اترپردیش کے کم از کم15اضلاع میں ای وی ایم سے چھیڑ چھاڑ، ای وی ایم کی ترسیل میں مقررہ ضابطوں کی سنگین خلاف ورزی، کوڑے دانوں تک میں ای وی ایم کا پایاجاناجیسے معاملات اجاگر ہوئے تھے۔کافی ہنگامہ آرائی کے بعد الیکشن کمیشن نے چند ایک افسران کے خلاف کارروائی کی۔سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو نے اسٹرانگ روم کے باہر اپنے کارکنوں اور کسانوں کو تعینات کرنے کا فیصلہ کیا لیکن ادھر اس معاملہ میں بی جے پی کے خیمہ میں خاموشی چھائی رہی۔ دوسری جانب ایگزٹ پول نے بھی بی جے پی کی ہی جیت کے دعوے کیے۔ان سب کے درمیان منصفانہ اور صاف شفاف انتخابات پر شکوک ابھرنا عین فطری ہے۔ ان شکوک کا ازالہ کرنا اوراس کی وضاحتیں دینا الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری ہے۔
لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حزب اختلاف، بی جے پی کا سحر توڑنے میں ناکام رہاہے۔ خدشہ یہ بھی ہے کہ آئندہ 2024 یعنی اگلے عام انتخابات تک بھی اس کی یہی حالت رہے گی۔انتخابی جلسوں میں امڈنے والی بھیڑ کو حزب اختلاف اپنی کامیابی سمجھتارہالیکن اس بھیڑ کوووٹوں میں تبدیل کرنے میں ناکام رہا۔ اس کی وجہ ہوسکتا ہے کہ 80اور20کا تناسب ہو لیکن حزب اختلاف ملک کے حقیقی زمینی حالات کی عوام میں درست عکاسی بھی نہیں کرسکا۔
پانچوں ریاستوں کے اسمبلی انتخاب ایک ایسے وقت میں ہوئے جب پورا ملک کورونا وائرس کی دوسری لہر کی زد میں تھا،گنگا میں بہتی ہوئی لاشوں کا شرمناک منظر بھی تازہ تھا، زرعی قوانین کے خلاف ایک سال سے جاری تحریک میں کم وبیش700کسانوں کی ہلاکت کا غم بھی تازہ تھا، گاڑی سے کچل کر ہلاک ہونے والے کسانوں کامنظر بھی آنکھوں میں گھوم رہاتھا، دیوہیکل مہنگائی اور بے روزگاری کے خوفناک عفریت سے بھی مقابلہ تھا، امیرا ور غریب کے درمیان بھیانک خلیج بھی نگاہوں کے سامنے گھوم رہی تھی، ترقی،خوشحالی، جمہوریت، اظہار رائے کی آزادی اور شہری حقوق پر پست ترین اشاریے بھی ہماری رسوائیوں کا سبب بنے ہوئے تھے، مسلمانوں، دلتوں، خواتین پر ناقابل تصور مظالم کے زہرہ گدازمناظر بھی تھے، ان سب اور اس طرح کے درجنوں خونچکاں معاملات کا عوام پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ایسا کیوں ہوا ؟
یہ بی جے پی کی کامیابی سے کہیں زیادہ حزب اختلاف کی ناکامی ہے کہ وہ یہ برہنہ حقائق عوام کو سمجھانے بتانے میں ناکام رہا اور عوام نام نہاد ترقی اور بلڈوزر کے سودے پر ٹوٹ پڑے۔عوام بی جے پی کے سحر سے باہر نکل سکتے تھے بشرطیکہ حزب اختلاف میں انہیں اس کا کوئی مضبوط متبادل نظرآتا مگر ایسا نہیں ہو احزب اختلاف ٹکروں میں بٹا رہا۔ سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو نے اب کی بار400کے پار کا نعرہ دیا،بظاہر ان کے جلسوں میں بھیڑ بھی دیکھی گئی لیکن وہ اس بھیڑ کو ووٹوں میںبدلنے میں ناکام رہے۔یہی صورتحال کانگریس کے خیمہ میں تھی ’لڑکی ہوں لڑسکتی ہوں ‘کے نعرہ کو پذیرائی بھی ملی لیکن کانگریس مضبوط متبادل کے طور پر خود کو نہیں پیش کرسکی۔ رہی سہی کسر ’ بہن جی ‘اور ’بھائی جان ‘نے پوری کردی۔
اب ا ن نتائج کے بعدبھی حزب اختلاف نے خود کو بی جے پی کا مضبوط متبادل نہیں بنایا اور عوام میں اپنی شبیہ نہیں بدلی تو حالات میں کسی تبدیلی کی امید نہیں کی جاسکتی ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS