معاشی بحران کے دوران امیدیں

0

جینتی لال بھنڈاری

ملک کی معیشت دوسری لہر کی مار سے ابھی ابھر بھی نہیں پائی ہے کہ تیسری لہر کا خطرہ سامنے کھڑا ہے۔ یہ خطرہ پٹری پر آتی معیشت کے لیے پھر سے چیلنج ثابت ہورہا ہے۔ ابھی بھی صنعت-کاروبار کی مشکلوں کے ساتھ ساتھ غریبی، روزگار اور عام آدمی کی کم ہوتی آمدنی سے متعلق تشویشات ظاہر کررہی ہیں کہ معیشت کیسے سنگین بحران سے نبردآزما ہے۔ بالخصوص چھوٹی صنعتیں-کاروبار اور غیرمنظم شعبہ کے مزدور طبقہ کی غریبی اور روزگار سے متعلق مسائل خوفناک شکل اختیار کرچکے ہیں۔ اگست2021کی بازار رپورٹوں کے مطابق ڈیمانڈ کی حالت ابھی بھی کافی کمزور ہے۔ ساتھ ہی غیرمساوی مانسونی بارش نے مہنگائی کی تشویشات میں بھی اضافہ کردیا ہے۔
اس پس منظر کے دوران دیس اور دنیا میں ہندوستان میں وبا کے سبب غریبی بڑھنے اور روزگار کے مواقع میں کمی آنے کی رپورٹوں نے بھی تشویشات میں اضافہ کیا ہے۔ عظیم پریم جی یونیورسٹی کی ایک ریسرچ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال کووڈ بحران کے پہلے دور میں تقریباً 23کروڑ لوگ خط افلاس کے نیچے جاچکے ہیں۔ یہ وہ طبقہ ہے جو روزانہ قومی کم سے کم اجرت(National Minimum Wage) 375روپے سے بھی کم کمارہا ہے۔ امریکی ریسرچ تنظیم پیو ریسرچ سینٹر کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کورونا وبا نے ہندوستان میں گزشتہ سال ساڑھے 7کروڑ لوگوں کو غریبی کے دلدل میں دھکیل دیا۔ رپورٹ میں روزانہ دو ڈالر یعنی تقریباً ڈیڑھ سو روپے کمانے والے کو غریب کے زمرہ میں رکھا گیا ہے۔ اب حالت یہ ہے کہ وبا کے سبب ملک کے دو کروڑ لوگ غریبی اور بے روزگاری کے درمیان پہلے ہی سے بحران میں تھے، ان کے اب بے حد غریبی میں جانے کا خطرہ کھڑا ہوگیا ہے۔ اس کا اندازہ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام(یو این ڈی پی)(United Nations Development Program) کی رپورٹ سے بھی لگایا جاسکتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وبا کے طویل مدتی نتائج کے تحت دنیا میں 2030تک ہندوستان سمیت غریب اور متوسط آمدنی والے طبقہ والے ممالک کے تقریباً 21کروڑ لوگ انتہائی غریبی میں جاسکتے ہیں۔
لیکن بحران کے اس دور میں بھی ہندوستانی معیشت کے لیے چار فائدہ مند معاشی مطابقت ابھرتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ ان میں پہلی ہے مضبوط زرعی ترقی کی شرح، ریکارڈ فوڈ پروڈکشن وریکارڈ ایگریکلچرل ایکسپورٹس۔ دوسری ہے ریکارڈ اونچائی پر پہنچا زرمبادلہ کا ذخیرہ۔ تیسرا جو مضبوط پہلو نظر آرہا ہے وہ براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری کا ریکارڈ ہے اور چوتھی بات یہ ہے کہ تیزی سے بڑھتے شیئر بازار سے امیدیں پیدا ہورہی ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ملک کو گزشتہ ڈیڑھ سال میں سب سے زیادہ سپورٹ زرعی شعبہ سے ہی ملا ہے۔ اس لیے گزشتہ کچھ وقت میں حکومت نے بھی زرعی شعبہ کو اعلیٰ ترجیحات میں رکھا ہے۔ سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ زرعی شعبہ سے برآمد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ رواں فصل برس 2020-21میں غذائی اجناس کی کل پیداوار ریکارڈ سطح پر پہنچتے ہوئے 30.86 کروڑ ٹن رہنے کا تخمینہ ہے۔ یہ غذائی اجناس کی پیداوار گزشتہ برس کی کل پیداوار 29.75کروڑ ٹن کے مقابلہ زیادہ ہے۔ معاشی سروے 2020-21 میں کہا گیا ہے کہ وبا کے دوران ملک کی مجموعی ملکی پیداوار(جی ڈی پی) میں بڑی گراوٹ آئی اور صفر سے کافی نیچے چلی گئی، لیکن زراعت میں اضافہ کی شرح میں تقریباً تین فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے۔ اگر ہم ربیع کے موسم میں ہورہی فصلوں کی خرید کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کم سے کم سپورٹ قیمت(ایم ایس پی) پر ریکارڈ خرید ہوئی ہے۔ ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ فوڈ کارپوریشن آف انڈیا کے مطابق ملک میں یکم اپریل 2021کو سرکاری گوداموں میں تقریباً 7.72کروڑ ٹن اناج کا محفوظ ذخیرہ تھا جو ضرورت سے تقریباً 3گنا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ ریزرو بینک کی تازہ رپورٹ کے مطابق 14اگست کو ملک کا زرمبادلہ کا ذخیرہ 621.464ارب ڈالر کی تاریخی ریکارڈ اونچائی پر پہنچ گیا اور ہندوستان زرمبادلہ کا ذخیرہ(India Forex Reserves) رکھنے والا دنیا کا چوتھا سب سے بڑا ملک بن گیا ۔ ملک کے اس غیرملکی کرنسی کے بڑے ذخیرہ سے جہاں ہندوستان کی عالمی معاشی ساکھ میں اضافہ ہوا ہے، وہیں اس ذخیرہ سے پورے سال سے بھی زیادہ کی درآمد کی ضرورتوں کی تکمیل کی جاسکتی ہے۔ اب ملک کا زرمبادلہ کا ذخیرہ ملک کی بین الاقوامی سرمایہ کاری کی حالت کا ایک اہم حصہ بن گیا ہے۔

معیشت کو رفتار دینے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے صارفین کی بڑی مارکیٹ میں بنیادی ضرورتوں کے لیے زیادہ خرچ کرنے کی چاہت پیدا کی جائے۔ حکومت کے ذریعہ نئی ڈیمانڈ پیدا کرنے کے لیے لوگوں کی قوت خرید میں اضافہ کے لیے اسٹرٹیجک طور پر قدم آگے بڑھایا جائے۔ صنعت-کاروبار کو رفتار دینے کے لیے جی ایس ٹی نافذ ہونے کے چار برس بعد بھی جی ایس ٹی سے متعلق جو رکاوٹیں آرہی ہیں، انہیں دور کیا جائے۔ تبھی معیشت آگے بڑھ سکے گی۔

یہ بھی کم حصولیابی نہیں ہے کہ وبا کی عالمی مشکلات کے درمیان برس 2020میں ہندوستان میں براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری(ایف ڈی آئی) کا بہاؤ25.4فیصد بڑھ کر 64ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔ برس2019میں یہ 51ارب ڈالر تھا۔ دنیا میں ایف ڈی آئی حاصل کرنے کے معاملہ میں ہندوستان 2019 میں آٹھویں مقام پر تھا اور آج 2020میں پانچویں مقام پر پہنچ گیا۔ حالاں کہ گزشتہ مالی سال میں پوری دنیا کی معیشتوں میں بڑی کمی تھی، اس کے باوجود غیرملکی سرمایہ کاروں کے ذریعہ ہندوستان کو ایف ڈی آئی کے لیے ترجیح دیے جانے کے کئی اسباب ہیں۔ ہندوستان میں سرمایہ کاری پر بہتر ریٹرن ہیں۔ ہندوستانی بازار بڑھتی ڈیمانڈ والا بازار ہے۔
شیئر بازار میں تیزی کا رُخ بھی معیشت کی بہتری کے اشارے دے رہا ہے۔ گزشتہ برس یعنی 23مارچ 2020کو جو بی ایس ای انڈیکس 25981 نمبروں کے ساتھ ڈھلان پر تھا، وہ اس سال 25اگست کو 55,944کی اعلیٰ سطح پر دکھائی دیا۔ اس وقت شیئر بازار میں آئی پی او لانے کی مقابلہ آرائی ہے۔ آئی پی او میں خوردہ سرمایہ کاروں(Retail Investors) کی شراکت داری میں 25فیصد اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ مالی سال میں ایک کروڑ 40لاکھ سے زیادہ ڈیمیٹ اکاؤنٹس کھلے ہیں۔ ملک میں ڈیمیٹ اکاؤنٹس کی تعداد اب ساڑھے 6کروڑ سے اوپر ہوگئی ہے۔ بالخصوص رواں مالی سال 2021-22کے بجٹ میں حکومت نے اضافہ کی شرح اور ریونیو میں اضافہ کے سلسلہ میں جو ایک بڑا اسٹرٹیجک قدم اٹھایا ہے، اس میں شیئر بازار کی بڑی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔ رواں مالی سال میں بجٹ میں جس طرح سے پرائیوٹائزیشن کو بڑھاوا دینے کے ساتھ ساتھ انشورنس، بینکنگ، بجلی اور ٹیکس اصلاحات کے راستے بڑھنے کے لیے جو اقدامات کیے ہیں، ان سے بھی شیئربازار کو رفتار ملی ہے۔ مالی سال 2021-22 کے بجٹ میں بنیادی ڈھانچہ، صحت، مینوفیکچرنگ اور خدمت کے شعبہ کی بھی زبردست حوصلہ افزائی سے شیئر بازار کو قوت حاصل ہوئی ہے۔ انشورنس سیکٹر میں براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری(ایف ڈی آئی) کی حد میں اضافہ کرکے 74فیصد کرنے سے اس شعبہ کو نیا سرمایہ حاصل کرنے اور کاروبار میں اضافہ کرنے میں مدد ملے گی۔ مالی سال 2021-22کے بجٹ میں منافع پر بھی واضح حکمت عملی کو یقینی بنایا گیا ہے۔ ان سب سے شیئر بازار میں شفافیت میں اضافہ ہوا ہے اور سرمایہ کار بازار میں پیسہ لگانے کے لیے راغب ہورہے ہیں۔
اس وقت جس طرح کے معاشی اور صنعتی چیلنجز سامنے ہیں، ان میں رواں سال میں شرح نمو میں اضافہ کے لیے زیادہ اسٹرٹیجک کوششیں ضروری ہیں۔ اس بات پر بھی توجہ دی جانی ہوگی کہ اس وقت ٹیکہ کاری کے ہدف کے مطابق زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچیں۔ ملک میں لوگوں کے خرچ سے متعلق تصور کو بہتر بنایا جائے۔ معیشت کو رفتار دینے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے صارفین کی بڑی مارکیٹ میں بنیادی ضرورتوں کے لیے زیادہ خرچ کرنے کی چاہت پیدا کی جائے۔ حکومت کے ذریعہ نئی ڈیمانڈ پیدا کرنے کے لیے لوگوں کی قوت خرید میں اضافہ کے لیے اسٹرٹیجک طور پر قدم آگے بڑھایا جائے۔ صنعت-کاروبار کو رفتار دینے کے لیے جی ایس ٹی نافذ ہونے کے چار برس بعد بھی جی ایس ٹی سے متعلق جو رکاوٹیں آرہی ہیں، انہیں دور کیا جائے۔ تبھی معیشت آگے بڑھ سکے گی۔
(بشکریہ: جن ستّا)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS