محمد حنیف خان
ملک کی سلامتی کی دو ظاہری شکلیں ہیں،ایک خارجی اور دوسرے داخلی۔خارجی سطح پر اس کی حفاظت کے لیے پورا ایک نظام ہے ،جس میں فوجیوں کے ساتھ ہی خفیہ ایجنسیاں اور دوسرے ممالک کی ایجنسیوں سے مدد و تعاون وغیرہ۔ اس پر زر کثیر صرف ہوتا ہے جس کا مقصد ہوتاہے کہ ملک کو کسی بھی صورت میں خارجی حملوں اور دوسرے نقصانات سے بچایا جا سکے۔یہ ذمہ داری جہاں فوجی و خفیہ ایجنسی کے افسران و ماتحت افراد انجام دیتے ہیں تو وہیں اس پر نگاہ رکھنا اور پالیسی کی سطح پر فیصلے لینا سیاستدانوں /حکمرانوں کا کام ہوتا ہے،جن کے احکامات کے مطابق نوکر شاہ پالیسی تیار کرتے ہیں لیکن اس کے مرکز میں ملک کی فوج رہتی ہے اور اصلاً وہی اس کی ذمہ داری بھی ادا کرتی ہے۔ دوسری سطح داخلی ہے،جس کے مرکز میںپولیس رہتی ہے جو وزیر داخلہ کے ماتحت ہے اور یہ ایک ایسا سیاسی عہدہ ہے جسے حکومت میں نمبر دو کی حیثیت حاصل ہے۔وزیراعظم کے بعد اگر کسی کو سب سے زیادہ اہمیت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے تو وہ وزیر داخلہ ہوتا ہے کیونکہ اس کے کندھے پر ملک کی داخلی سلامتی کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ چونکہ یہ ملک مختلف تہذیبوں، ثقافتوں، خطہ ارض اور مختلف طبائع سے تشکیل پایا ہے،ایسے میں ان سب کو ایک لڑی میں پرو کر رکھنا وزیر داخلہ کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ملک کی داخلی سلامتی میں سب سے زیادہ جن افراد کو غیر سرکاری سطح پر دخل حاصل ہے وہ ہیں سیاسی جماعتیں۔چونکہ ان کے پاس منظم اکائیاں ہوتی ہیں جو مختلف امور کے لیے مختلف اوقات سڑک سے لے کر اسمبلی تک احتجاج و مظاہرے کرتے ہیں یا دوسری سرگرمیاں انجام دیتے ہیں۔اس سے جہاں ایک طرف ملک کی سلامتی بھی وابستہ ہوتی ہے، وہیں دوسری طرف عوامی مسائل کے حل بھی اسی سے جڑے ہوتے ہیں اور ان سب سے زیادہ اس سے وہ بیانیہ بھی قائم ہوتا ہے جو حکومت کی موافقت یا مخالفت میں پورے ملک میں قائم ہوتا ہے۔اسی عمومی فضا میں محبت و نفرت کے جذبات بھی دیکھنے کو ملتے ہیں اور یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ملک کے اندرون کیا حالات ہیں۔مختلف سماجی و معاشرتی وحدتیں متحد ہیں یا نہیں۔
سماجی وحدتوں کے مابین محبت و نفرت کا مسئلہ سیاسی پارٹیوں سے وابستہ ہے۔یہ ملک کی بدقسمتی ہے کہ کل تک جو مسئلہ سماجی تھا، وہ آج سیاست کے ہاتھوں میں چلا گیا ہے۔یہ سیاست داں اب چاہیں تو ملک کی وحدتوں ہندو، مسلم،سکھ،عیسائی،جین ،پارسی وغیر ہ کے مابین نفرت کو ہوا دے کر ملک کو خاک و خون میں شرابور کردیں یا پھر آپس میں محبت و مؤ دت کی باد صبا چلا کر ہر ایک کے ذہن کو انسانیت کی خوشبو سے معطر کردیں۔لیکن ثانی الذکر اس لیے ممکن نہیں ہے کیونکہ اسی سے تو ان کی سیاست وابستہ ہے اور یہی ان کی زندگی کی کامیابی کی شاہ کلید ہے۔اس وقت ملک کی سطح پر جس طرح محبت کی جگہ نفر ت کو راہ دی گئی ہے وہ حددرجہ تشویشناک اورخطرناک ہے۔یہ عمل سیاسی پارٹی اور حکومت دونوں سطحوں سے ہو رہا ہے۔کہنے کو پالیسیوں میں کسی کو کوئی امتیاز نہیں دکھائی دے گا لیکن زمینی سطح پر پالیسی کے بالکل برخلاف ہوگا۔جیسا عام طور پر فسادات میں دیکھنے کو ملتا ہے، جس شخص کی پہلی گرفتاری ہوتی ہے وہ مسلم ہی ہوتا ہے۔ نفرت کی جو بیار ادھر چند برسوں میں چلی ہے اور خصوصاً اترپردیش، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر ،کرناٹک اور آسام میں دیکھنے کو ملی ہے، اس سے معاشرے میں مایوسی ہے۔دانشور طبقہ ملک کے حالات سے متعلق فکر مندہے،اس کو مستقبل تاریک نظر آرہا ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر دانشوروں کو ہی ایسا کیوں نظر آتا ہے؟سیاستدانوں کو تو ملک کا مستقبل بہت خوبصورت نظر آرہا ہے۔وہ 2022کے بعد اب 2030کے سپنے دکھا رہے ہیں جب ہمارے یہاں کسی چیز کی کمی نہیں ہوگی۔ تعلیم، گھر، روزگار، گھریلو صنعتیں، چھوٹے بڑے اسٹارٹ اپ وغیرہ کے متعلق سیاست داں ایسے ایسے خواب دکھا رہے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان بہت تیزی کے ساتھ ترقی کی راہ پر جا رہا ہے لیکن وہ لوگ جنہوں نے حکومت چلائی ہے اور عملی طور پر فائلوں میں سر کھپایا ہے، زمینی سطح پر کام کیا ہے،جن کی جنبش قلم پر حکومت بھی ناچتی رہی ہے، ان کو صاف طور پر دکھائی دے رہا ہے کہ یہ ملک ان خطوط پر نہیں جا رہا ہے جس کا خواب مجاہدین آزادی اور ہمارے بزرگوں نے دیکھا تھا۔در اصل یہ وہ طبقہ ہے جسے ہم نوکر شاہ یا بیوروکریٹ کہتے ہیں۔ جنہوں نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی کو خط لکھا ہے۔خط لکھنے والے ان سابق نوکر شاہوں کی تعداد ایک دو نہیں ہے بلکہ 108سابق نوکر شاہوں نے خط لکھ کر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور وزیراعظم سے اس جانب توجہ مبذول کرنے کی گزارش کی ہے۔
ان نوکر شاہوں نے اپنے خط میں صاف طور پر لکھا ہے کہ ہم ملک میں نفرت سے بھری تباہی کا طوفان دیکھ رہے ہیں،جبکہ بلی کا بکرا صرف مسلمان اور اقلیتی طبقے ہی نہیں آئین بھی بنا ہوا ہے۔ان نوکر شاہوں نے یہاں تک لکھ دیا ہے کہ سابق نوکر شاہ ہونے کے ناتے ہم اتنے تیکھے لفظوں میں اظہار نہیں کرنا چاہتے تھے مگر کیا کیا جائے جس تیزی کے ساتھ ہمارے بزرگوں کے ذریعہ تیار آئین کو تباہ کیا جارہا ہے وہ ہمیں بولنے اور اپنے غصے کے اظہار پر مجبور کرتا ہے۔اس خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ریاستوں آسام، دہلی، گجرات، ہریانہ، کرناٹک، مدھیہ پردیش، اترپردیش اور اتراکھنڈ میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد میں خطرناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے۔ان سبھی ریاستوں میں دہلی کو چھوڑ کر ہر جگہ بی جے پی کی ہی حکومت ہے۔
اس نفرت اور تشدد کی ایک دو نہیں متعدد مثالیں ہیں،رام نومی اور ہنومان جینتی کے موقع پر جس طرح نفرت کا مظاہرہ کیا گیا ہے، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔متعدد ریاستوں میں حکومت کی سطح پر جس طرح سے ’’لوجہاد‘‘ کے نام پر مسلمانوں اور اسلام کو نشانہ بنایا گیا ہے وہ بھی کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے۔اس کی ابتدا اترپردیش سے ہوئی تھی پھر یکے بعد دیگرے متعدد ریاستوں نے اسی طرح کا قانون بنایا گویا مسلمان ’’لوجہاد ‘‘ کررہے تھے جنہیں اس سے روکا جانا ضروری تھا۔دراصل یہ بل ہندو-مسلم لڑکوں اور لڑکیوں کی دوستی کے خاتمہ کے لیے لایا گیا تھا، اس بل کے تحت اب تک جو ایف آئی آر درج ہوئی ہیں ان میں اکثرمسلمانوں کے خلاف ہوئی ہیں۔اسی طرح اب یکساں سول کوڈ کو بھی اسی طرز پر لایا جا رہا ہے کہ پہلے ایک ریاست اس کا اعلان کرے گی پھر دوسری اور تیسری،اس کے بعد پورے ملک میں اس کو نافذ کردیا جائے گا۔مرکزی اور ریاستی حکومتوںکے دائرۂ اختیار کے الگ الگ قانون ہیں لیکن یکساں سول کوڈ ایک ایسا قانون ہے جو مرکز کے دائرے کا ہونا چاہیے کیونکہ اس سے مرکزی حکومت پورے ملک کو ایک قانون پر لے آئے گی مگر چونکہ یہ قانون آئین کے خلاف ہے، اس لیے مرکزی حکومت ابھی اس جانب قدم نہیں بڑھانا چاہتی ہے۔اتراکھنڈ اور اترپردیش میں اسی کی حکومتیں ہیں۔اتراکھنڈ کے بعد اب اترپردیش نے یکساں سول کوڈ کی جانب قدم بڑھایا ہے،جس پر مسلم پرسنل لاء بورڈ نے سخت موقف کا اظہار کرتے ہوئے اسے ناقابل قبول بتا یا ہے۔کیونکہ آئین ہند ہر مذہب کو آزادی کے ساتھ اپنے مذہبی امور انجام دینے اور ان پر عمل کرنے کی اجازت دیتا ہے، ایسے میں یکساں سول کوڈ قابل قبول نہیں ہوسکتا۔لیکن بی جے پی کا چونکہ آر ایس ایس سے ملا اپنا ایک ایجنڈا ہے جس کی جانب وہ دھیرے دھیرے بڑھ رہی ہے مگر اس کے لیے آئین ہند کوتباہ کیاجا رہا ہے۔ اسی جانب سابق نوکر شاہوں نے وزیراعظم کی بھی توجہ مبذول کرائی ہے۔
وزیراعظم کو ان نوکر شاہوں کی اپیل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے چونکہ ان لوگوں نے اپنی عملی زندگی میں آئین اور سماج دونوں کو برتا ہے، اس لیے ان کے مشوروں پر عمل بھی کرنا چاہیے۔ ہو سکتا ہے کہ اسی سے معاشرے کو اپنی دھند میں لپیٹ لینے والی نفرت کا خاتمہ ہوجائے اور محبت کی بنیاد پرہمارا ملک ترقی کی راہ پر نکل پڑے اور آج جو نفرت کا شکار ہوئے ہیں، کل وہ محبت کے گلاب لیے راہوں میں کھڑے ہوں۔ایسے ہندوستان کا خواب مجذوب کی بڑ ہوسکتی ہے لیکن خواب اور سپنے بھی زندگی ہوتے ہیں، ان سے ہمارا مستقبل وابستہ ہوتا ہے اور سچائی بھی ہے کہ جہاں خواب نہیں ہوتے وہاں زندگی نہیں ہوتی۔
[email protected]