اندرا گاندھی کی ملکی ساڑیوں سے ان کی محبت عیاں ہوتی تھی

0
Image: Britannica

میرٹھ، (یو این آئی) مغربی ثقافت کے کافی قریب رہنے کے باوجود اندرا گاندھی نے آخری دم تک اس ملکی ساخت اشیاء کا ساتھ نہیں چھوڑا جو آنکھ کھلتے ہی ملک کی آزادی کے ماحول سے ان میں سما گئی تھی۔
معروف امریکی رائٹر اور بایو گرافر کیتھرین فرینک کی کتاب ’اندرا گاندھی‘ میں ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم کے ملکی ساخت اشیا ء سے محبت کا دیدار ہوتا ہے۔ اس کے مطابق 31 اکتوبر 1984 کو جب اندرا گاندھی کا قتل ہوا تھا تب بھی وہ ملکی زعفرانی ساڑی زیب تن کیے ہوئی تھیں جو آج بھی جان لیوا گولی کے سوراخوں کے خاموش نشانات کے ساتھ اندرا گاندھی میموریل میں محفوظ ہے۔یہ ساڑی گواہ ہے اس مضطرب سیاست کی جو آپریشن بلیو اسٹار کی کوکھ سے وجود میں آئی تھی۔خاص طورپر ہاتھ سے کات کر بنائی گئی ساڑی ملک کی آزادی کے لیے قوم پرستی کے جوش کی نمائندگی کرتی رہی ہے۔ مہاتما گاندھی کے 1906 میں شروع کیے گئے سودیشی تحریک سے متاثر رہی اندرا گاندھی کو ہینڈ لوم ساڑی کی ماہر بھی تسلیم کیا جاتاتھا۔
کیتھرین فرینک نے اپنی کتاب میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ اندرا گاندھی نمائش کی سودیشی محبت کا اندازا اس امر سے لگایا جانا مشکل نہیں ہوگا کہ 26 مارچ 1942 کو فیروز گاندھی سے شادی کے دوران انہوں نے دلہن کے بیش قیمتی لباس کے بجائے ایک عام سی گلابی ساڑی زیب تن کر رکھا تھا۔ بھلا اس سے قیمتی ساڑی ان کے لیے کیا ہوتی جو ان کے والد جواہر لال نہرو نے اپنے جیل کے سفر کے آخری دور میں بذات خود کات کر بنی تھی۔ اتنا ہی نہیں اس کے لیے کھادی مہاتما گاندھی کے ہاتھوں بنائی گئی تھی۔
کتاب کے مطابق اندرا گاندھی نے اپنے ‘سودیشی پریم’ کوآئندہ نسل تک بھی پہنچانے کی کوشش کی۔ اس کے لیے انہوں نے 23 ستمبر کو بیٹے سنجے گاندھی کی شادی کے موقع پر بہو مینکا کو والد نہرو کے ذریعہ جیل میں کاتے گئے سوت سے بنی ایک کھادی کی ساڑی کے علاوہ 31 نئی شاندارساڑیاں اور زیورات بطور تحفےدیے۔
ملک میں لگائی گئی ایمرجنسی کے بعد شاہ کمیشن کی سماعت شروع ہونے کے کچھ ہی دنوں بعد3 اکتوبر1977 کو جب مرکزی جانچ بیو رو کے دو افسران انہیں گرفتار کرنے 12ولنگڈن کرسینٹ پہنچے تو محترمہ گاندھی نے تیار ہونے کے لیے کچھ وقت مانگا۔ وہ سبز رنگ کی بارڈر والی شفاف سفید ساڑی پہن کر آئیں اور پولس کے سامنے خودسپردگی کردی۔ ان کا ماننا تھا کہ ان کی ساڑیاں سبھی اقسام اور رنگوں میں نہ صرف انداز بلکہ ارادے اور شخصیت کو بھی ظاہر کرتی تھیں۔
بدھ 31 اکتوبر1984 کی وہ صبح بھی کچھ الگ ہی تھی۔ گزشتہ سال اندرا گاندھی ڈھنگ سے سو بھی نہیں پائی تھیں۔ بی بی سی کے لیے پیٹر استینو سے ان کی ملاقات کا وقت متعین تھا اور انہوں نے ہاتھ سے بنے کالے بارڈر کی زعفرانی ساڑی پہن رکھی تھی۔ صبح 9 بج کر 10 منٹ پر وہ گھر سے باہر آئیں اور اسی دوران ان کے محافظوں بے انت سنگھ اور ستونت سنگھ نے انہیں گولیوں سے بھون ڈالا۔
دہلی کے سبھی ٹریفک میں تین میل کا سفر طے کرکے انہیں 9 بج کر 32 منٹ پر ایمس لے جایا گیا۔ حیرانی والی بات یہ ہے کہ ان کی سرکاری رہائش گاہ 1 صدر جنگ روڈ میں کسی نے بھی یہ نہیں سوچا کہ ٹیلی فون کرکے سنگین طور پر زخمی اندرا گاندھی کو اسپتال لائے جانے کی اطلاع دے دی جائے۔ اسپتال میں اندر لے جانے کے بعد اس وقت ڈیوٹی پر موجود ایک نوجوان ڈاکٹر نے انہیں اندرا گاندھی کے طورپر شناخت کرلیا جس سے اس کے ہاتھ پیر پھول گئے اور فوراً سینئر ڈاکٹروں کو اطلاع دے بلوایا۔
الیکٹرو کارڈیو گرافی میں دل کی دھڑکن کے سست ہونے کے اشارے ملے تو سینئر ڈاکٹروں کی ٹیم نے اس امید کے ساتھ ان کے دل کی مالش کی کہ شاید دھڑکن واپس بحال ہوجائے۔ لیکن کافی مشقت کے باوجود ڈاکٹروں کو کوئی پلس نہیں مل پائی اور بالآخر اندرا گاندھی کی آنکھیں پھیل گئیں جس سے یہ پتہ چلتا تھا کہ دماغ کو چوٹ پہنچی ہے۔
یہ بھی ظاہر کررہی تھیں کہ وہ یہ دنیا چھوڑ کر جاچکی ہیں۔ دو پہر دو بج کر23 منٹ پر قریب پانچ گھنٹے کے بعد انہیں مردہ قرار دیا گیا۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS