ہماچل کی تباہی انتباہ کو نظرانداز کرنے کا نتیجہ

0
ہماچل کی تباہی انتباہ کو نظرانداز کرنے کا نتیجہ

پنکج چترویدی

جس ہماچل پردیش میں ابھی ایک ماہ قبل تک گرمی سے بچنے کے لیے موج مستی کرنے والوں کا ہجوم تھا، آج وہاں موت کا سناٹا پسرا ہوا ہے۔ ان سیاحوں کی سہولت کے لیے جو سڑکیں تعمیر کی گئی تھیں، انہوں نے ہی ریاست کی تباہی کی عبارت لکھ دی۔ آج ریاست میں دو نیشنل ہائی وے سمیت تقریباً 1220سڑکیں ٹھپ ہیں۔ سیکڑوں بجلی ٹرانسفارمر تباہ ہونے سے اندھیرا ہے۔ تقریباً 285 گاوؤں تک گئے نلوں کے پائپ اب سوکھے پڑے ہیں۔ 330 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ 38 لاپتہ ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ابھی تک تقریباً 7500 کروڑ کا نقصان ہوچکا ہے۔ راجدھانی شملہ کی اہم سڑکیں سنسان ہیں اور ہر کثیر منزلہ عمارت اس اندیشے کے ساتھ کھڑی ہے کہ کہیں اگلے لمحہ ہی یہ زمیں بوس نہ ہو جائے۔ قدرت کبھی بھی اچانک قہر نہیں برپا کرتی۔ شملہ اور ہماچل میں گزشتہ کچھ برس سے کائنات خود کے ساتھ ہو رہی ناانصافی کے لیے احتجاج کرتی رہی لیکن ترقی کے جس ماڈل سے چمکتے پوسٹر اور اشتہارات ’گورو گاتھا‘ بیان کرتے تھے، وہی تباہی کی بڑی عبارت میں بدل گئے۔
کالکا- شملہ نیشنل ہائی وے -5 پر چکی موڑ کے نزدیک پہاڑ کسی بھی دن ڈھہ سکتا ہے۔ یہاں بڑی اور گہری دراڑیں نظر آرہی ہیں۔ یہاں سے صرف 500 میٹر کی دوری پر ریلوے کی ہیریٹیج لائن ہے۔ ابھی گزشتہ سال ہی اسی لائن پر چلنے والی کھلونہ ریل 4 اگست، 2022 کو بال بال بچ گئی تھی۔ سولن ضلع کے کمہار ہٹی کے پاس پٹّہ موڑ پر زبردست بارش کی وجہ سے لینڈسلائیڈ میں کالکا-شملہ یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثہ کے ٹریک پر کچھ گھنٹوں کے لیے ٹرینیں چلنا رک گئی تھیں۔ ٹوائے ٹرین میں سفر کرنے والے مسافر بال بال بچ گئے، کیونکہ لینڈسلائیڈ کی وجہ سے ریل کی پٹری پر وزنی پتھر گرگئے تھے۔ وہ ایک بڑا انتباہ تھا۔ اس کے باوجود اس علاقے میں مسلسل پہاڑ کاٹنے، سڑک چوری کرنے کے کام چلتے رہے۔
اگر 2020 سے 22 کے دو سال کے اعداد و شمار ہی دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ ہماچل پردیش جیسی چھوٹی ریاست میں لینڈ سلائیڈ کے واقعات میں 7 گنا اضافہ ہوا۔ 2020 میں جہاں یہ اعداد 16 تھے، دو سال بعد 117 ہو گئے۔ ظاہر ہے کہ اس سال اس تعداد میں مزید کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔
کچھ سال قبل نیتی آیوگ نے پہاڑوں میں ماحولیات کے مطابق اور مؤثر لاگت سے ترقی کے لیے تحقیق کا منصوبہ بنایا تھا۔ یہ کام انڈین ہماچل سینٹرل یونیورسٹی کنسورٹیم (آئی ایچ سی یو سی) کے ذریعے کیا جانا تھا۔ اس تحقیق میں پانچ اہم نکات میں پہاڑ سے نقل مکانی کو روکنے کے لیے معاش کے مواقع، آبی تحفظ اور اسٹوریج کی حکمت عملیوں کو بھی شامل کیا گیا تھا۔ ایسی رپورٹیں عام طور پر لال بستہ میں دہاڑا کرتی ہیں اور زمین پر پہاڑ درک کر کہرام مچاتے رہتے ہیں۔
جون 2022 میں گووند بلبھ پنت نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہمالیہ انوائرمنٹ (جی بی این آئی ایچ ای) کے ذریعے جاری رپورٹ ’انوائرمینٹل اسیسمنٹ آف ٹورزم اِن دی انڈین ہمالین ریجن‘ میں سخت الفاظ میں کہا گیا تھا کہ ہمالیائی علاقے میں بڑھتی سیاحت کی وجہ سے ہل اسٹیشنوں پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی سیاحت کے لیے جس طرح سے اس علاقے میں زمین استعمال کرنے میں تبدیلی آرہی ہے وہ اپنے آپ میں ایک بڑا مسئلہ ہے۔ جنگلات کی بڑھتی کٹائی بھی اس علاقے کے ایکوسسٹم پر وسیع پیمانے پر اثر ڈال رہی ہے۔ یہ رپورٹ نیشنل گرین ٹربیونل (این جی ٹی) کے احکام پر ماحولیات، جنگلات اور موسمیاتی تبدیلی کی وزارت (ایم او ای ایف اور سی سی) کو بھیجی گئی تھی۔ اس رپورٹ میں ہماچل پردیش میں سیاحوں کی گاڑیوں اور اس کے لیے بن رہی سڑکوں کی وجہ سے جنگلی جانوروں کے مسکن تباہ ہونے اور حیاتیاتی تنوع پر منفی اثرات کی بات بھی کہی گئی تھی۔
منالی، ہماچل پردیش میں کی گئی ایک تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ 1989 میں وہاں جو 4.7 فیصد زیر تعمیر علاقہ تھا وہ 2012 میں بڑھ کر 15.7 فیصد ہوگیا تھا۔ آج یہ اعداد 25 فیصد سے زیادہ ہیں۔ اسی طرح 1980 سے 2023 کے درمیان وہاں سیاحوں کی تعداد میں 5600 فیصد کا اضافہ درج کیا گیا ہے جس کا راست اثر اس علاقے کے ایکوسسٹم پر پڑ رہا ہے۔ اتنے لوگوں کے لیے ہوٹلوں کی تعداد بھی بڑھی تو پانی کا مطالبہ اور گندے پانی کی نکاسی بھی بڑھی، آج منالی بھی دھنسنے کے دہانے پر ہے- وجہ وہی جوشی مٹھ والا- زمین پر ضرورت سے زیادہ دباؤ اور پانی کی وجہ سے زیرزمین کٹاؤ۔
ہماچل پردیش کو سب سے پسندیدہ سیاحتی مقام مانا جاتا ہے اور یہاں اس کے لیے بڑی تعداد میں سڑکیں، ہوٹل بنائے جا رہے ہیں، ساتھ ہی جھرنوں کے بہاؤ کے استعمال سے بجلی بنانے کے کئی بڑے پروجیکٹ بھی یہاں کے بحران کی وجہ رہے ہیں۔
نیشنل ریموٹ سینسنگ ایجنسی، اِسرو کے ذریعے تیار ملک کے لینڈسلائیڈ والے نقشے میں ہماچل پردیش کے سبھی 12 اضلاع کو انتہائی حساس علاقوں کی فہرست میں رکھا گیا ہے۔ ملک کے کل 147 ایسے اضلاع میں حساسیت کی نظر سے منڈی کو 16 ویں مقام پر رکھا گیا ہے۔ یہ اعداد و شمار اور انتباہ فائل میں سسکتے رہے اور اس بار منڈی میں تباہی کا خوفناک منظر سامنے آگیا۔
ٹھیک یہی حال شملہ کا ہوا جو اس فہرست میں 61 ویں نمبر پر ہے۔ ریاست میں 17,120 مقام لینڈسلائیڈکے ممکنہ علاقے کے طور پر نشان زد ہیں جن میں سے 675 انتہائی حساس بنیادی سہولتوں اور گنجان آبادی کے قریب ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ مقام 133 چنبا ضلع میں، منڈی (110)، کانگڑا (102)، لاہل-سپیتی(91)، اُنا (63)، کلّو (55)، شملہ(50)، سولن(44) وغیرہ ہیں۔ یہاں لینڈسلائیڈ کی نظر سے کنّور ضلع کو سب سے خطرناک سمجھا جاتا ہے۔ گزشتہ سال بھی کنّور کے بٹ سیری اور نیوگلسری میں دو حاثات میں ہی 38 سے زیادہ لوگوں کی جان چلی گئی تھی۔ اس کے بعد کنور ضلع میں لینڈسلائیڈ کو لے کر جیولوجیکل سروے آف انڈیا کے ماہرین کے ساتھ ساتھ آئی آئی ٹی، منڈی و رڑکی کے ماہرین نے تحقیق کی ہے۔ اسٹیٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے مختلف ایجنسیوں نے سروے کرکے لینڈسلائیڈ کے ممکنہ 675 مقامات کی نشاندہی کی ہے۔ انتباہ کے بعد بھی کنور میں، ایک ہزار میگا واٹ کے کرچم اور 300 میگا واٹ کے باسپا پروجیکٹوں پر کام چل رہا ہے۔ ایک بات اور سمجھنی ہوگی کہ ’’موجودہ وقت میں بارش کا طریقہ بدل رہا ہے اور گرمیوں میں درجۂ حرارت معمول سے کہیں زیادہ پر پہنچ رہا ہے۔ ایسے میں میگا ہائیڈروالیکٹرک پروجیکٹس کو بڑھاوا دینے کی ریاست کی پالیسی کو ایک نازک اور ماحولیات کے تئیں حساس علاقے میں نافذ کیا جا رہا ہے۔‘‘
موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے اچانک تیز بارش، بادل پھٹنے کے ساتھ ساتھ سڑکوں کی تعمیر اور ان کی چوڑائی بڑھانے کے لیے پہاڑوں کی کٹائی، سرنگیں بنانے کے لیے کیے جارہے دھماکے اور کانکنی، سال درسال خوفناک ہو رہے لینڈسلائیڈ کی اہم وجوہات ہیں۔ ہماچل پردیش میں بھلے ہی برسات کے دن کم ہو رہے ہیں لیکن اس کی شدت اور کم وقت میں موسلادھار بارش میں اضافہ ہو رہا ہے۔
جاننا ضروری ہے کہ ہماچل پردیش میں موسمیاتی تبدیلی کے برے اثرات کی وجہ سے بادلوں کے پھٹنے، ضرورت سے زیادہ بارش، سیلاب اور لینڈسلائیڈ سے قدرتی آفات میں اضافہ ہورہا ہے۔ اتراکھنڈ میں ہیم وتی نندن بہوگنا گڑھوال یونیورسٹی میں شعبۂ ارضیات کے وائی پی سندریال کے مطابق، ’’بلندہمالیائی علاقے موسم اور ماحول کے اعتبار سے زیادہ حساس ہیں۔ ایسے میں ان علاقوں میں میگا ہائیڈرو-پروجیکٹ کی تعمیر سے گریز کیا جانا چاہیے یا پھر ان کی صلاحیت کم ہونی چاہیے۔ ہمالیائی علاقوں میں سڑکوں کی تعمیر بھی سائنسی تکنیک سے کی جانی چاہیے۔ ان میں اچھا ڈھلان، رِٹیننگ وال اور راک بولٹنگ اہم ہیں۔‘‘لیکن ایسا نہیں ہورہا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS