محمد حسین ساحل
یتیمی ساتھ لائی ہے زمانے بھر کے دُکھ عابی
سُنا ہے باپ زندہ ہو تو کانٹے بھی نہیں چبھتے
باپ وہ ہستی ہے جو دن کو دن نہیں سمجھتا۔ راتوں کو بھی فکر معاش میں بے چین رہتاہے۔ باپ کبھی ہمیں اپنی پریشانی یا اُلجھن نہیں بتاتا بلکہ خود سیسہ پلائی دیوار کی مانند ہر مشکل اور دشواری کا سامنا کرتا ہے۔
گھر لوٹ کے روئیں گے ماں باپ اکیلے میں
مٹی کے کھلونے بھی سستے نہ تھے میلے میں
( قیصرالجعفری )
حالات جتنے بھی ناساز ہوں وہ خود سامنا کرتا ہے۔ دن بھر کی مشقت کے بعد پہلا خیال اپنے بچوں کا آتا ہے کہ بچے میرے منتظر ہوں گے کیوں نہ جاتے ہوئے اپنی جیب کے مطابق ٹافی ، سموسے جلیبی یا ان کا من پسند کوئی کھلونا لیتا جاؤں یا اس کو اپنے بچے کی کوئی فرمائش یاد آجاتی ہے جو منّی نے گھر سے نکلتے وقت کہی تھی۔
والدین اور درخت دونوں بوڑھے ہو جاتے ہیں لیکن ان کی چھاؤں ہمیشہ گھنی رہتی ہـے۔باپ ایک چھت کی مانند ہوتا ہے جس طرح ایک چھت گھر کے مکینوں کو موسم کے سرد گرم ماحول سے محفوظ رکھتی ہے، اسی طرح باپ حالات کے منفی اثرات سے ہمیں محفوظ رکھتا ہے۔ آندھی طوفان، گرج چمک سے ہمیں بچاتا ہے۔ اولاد کے لیے باپ وہاں ہاتھ پھیلا دیتا ہے جہاں وہ پاؤں رکھنا بھی گوارا نہیں کرتا۔
زندگی میں بادشاہت پیسوں سے نہیں
بلکہ ماں باپ کے سائے سے ملتی ہے
جب سے آپ بڑے ہوئے کیا آپ نے کبھی اپنے باپ کو گلے لگایا ہے؟ اپنے باپ کو کبھی گلے لگا کر دیکھیں دل و دماغ کو سکون ملے گا۔ ماں باپ کے پاس بیٹھنے کے دو فائدے ہیں ، آپ کبھی بڑے نہیں ہوتے اور ماں باپ کبھی بوڑھے نہیں ہوتے۔ہمارے والدین نے ہمیں بچپن میں شہزادوں کی طرح پالا ہےلہٰذا ہمارابھی فرض بنتا ہے کہ بڑھاپے میں ہم انہیں بادشاہوں کی طرح رکھیں۔
جب سے آپ بڑے ہوئے ہیں کیا تم نے کبھی اپنے باپ کے ہاتھوں کا یا رخسار کا بوسہ لیا ہے؟جب باپ کی داڑھی آپ کےگالوں کو چھوتی ہے اور باپ جب شفقت کا ہاتھ آپ کے سر پر پھیرتا ہےتب آپ کو احساس ہوگا کہ آج بھی آپ پاپا سے چھوٹے ہو۔جب باپ اپنے بیٹے کی پیٹھ پر شفقت بھرا ہاتھ پھیرتا ہے گویا اس میں مسیحائی کے اثرات آجاتے ہیں۔باپ کی سینڈل پاؤں میں آجانے سے کوئی باپ نہیں بنتا۔
آپ نے باپ کو بھلے دل میں ہی بوڑھا، ضعیف اور لاغر کہہ کر دیکھ لیاہو۔ سادھو ، سنت اور مولوی کو آپ بابا کہہ کر پکارتے ہو مگر کیا کبھی اپنے باپ کو ”بابا“ کہہ کر پکارا ہے؟ ایک بار اپنے باپ کو کبھی بابا کہہ کر دیکھیے، یقیناَ َ آپ کی اصلی اور سچے سادھو سنت اور مولوی سے ملاقات ہوگی۔آپ کے باپ سے بڑا کوئی سادھو ، سنت یا مولوی نہیں۔تعجب ہے آپ اپنے گھر کے سادھو ، سنت اور مولوی کو چھوڑ کر باہر بھٹک رہے ہو۔
چہرے کی چمک اور محلوں کی اونچائی پر مت جانا، غور کرنا کہ جس گھر میں ماں باپ ہنستے نظر آئیں سمجھ جانا کی وہ گھر امیروں کا ہے !!
اسےآزمائیں ! آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ باپ کتنا مضبوط اور حوصلہ مند ہوتا ہے۔ماں کی محبت زیادہ اور باپ کی کم ایسا کبھی نہیں ہوسکتا۔ سورج اور چاند کے درمیان آپ نے کیا مماثلت دیکھی ہے؟ یہ دونوں روشنی دیتے ہیں ، دونوں کے بس اوقات مختلف ہوتے ہیں۔
باپ صرف بنیاد ڈالنے کے لیے نہیں ہوتا،کیا آپ نے کبھی اپنے باپ کو غور سے دیکھا ہے؟ ایک نظر ڈالیں زندگی کا بہترین دوست آپ کے سامنے ہے۔ایسی ہی ایک چھوٹی سی بات جو شاید آپ کی سوچ وفکر کو بدل دے!!
ایک باپ نے اپنی بیٹی کا خوب خیال رکھا بہترین پرورش کی۔اس کو خوب تعلیم دی…تاکہ لڑکی کی تمام خواہشات پوری ہوں…….چند سال بعد لڑکی کامیاب انسان بن گئی اور ایک ملٹی نیشنل کمپنی کی سی ای او بن گئی ۔ اعلیٰ عہدہ، اچھی تنخواہ، تمام آسائشیں اسے کمپنی نے فراہم کیں۔باپ بوڑھا ہو رہا تھا، ایک دن باپ نے بیٹی سے ملنا چاہا.. اور وہ بیٹی سے ملنے اس کے دفتر گیا۔ اس نے دیکھا کہ لڑکی ایک بڑے اور شاندار دفتر کی افسر بن گئی ہے۔ اس کے دفتر میں ہزاروں ملازمین اس کے ماتحت کام کر رہے ہیں۔یہ سب دیکھ کر اُس والد کا سینہ فخر اور خوشی سے پُھول گیا!
بوڑھا باپ بیٹی کے کیبن میں گیا۔ وہ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کھڑا ہو گیا اور پیار سے اپنی بیٹی سے پوچھا….. ”دنیا کا سب سے طاقتور شخص کون ہے؟“
لڑکی نے مسکرا کر اعتماد سے کہا۔ ”میرے علاوہ کون ہو سکتا ہے بابا؟“
باپ کو اپنی بیٹی سے اس جواب کی اُمید نہیں تھی۔ اسے یقین تھا کہ اس کی بیٹی فخر سے کہے گی۔
”پاپا، آپ دنیا کے سب سے طاقتور شخص ہیں جس نے مجھے اتنا اچھا بنایا اور اس بلندی تک پہنچایا ! “
سوچ و فکر سے اس بوڑھےباپ کی آنکھیں بھر آئیں۔ وہ کیبن کا دروازہ دھکیل کر باہر نکلنے لگا۔ مگر وہ رُکے بغیر پیچھے مڑ گیا اور لڑکی سے پوچھا کہ پھر بتاؤ اس دنیا کا سب سے طاقتور شخص کون ہے؟
لڑکی نے اس بار کہا، “بابا، آپ دُنیا کے سب سے طاقتور انسان ہیں!“
یہ سُن کر والد صاحب حیران ہوئے اور بولے ”میں ایک طاقتور شخص؟“ ابھی تھوڑی دیر تم نے کہا کہ تم ہی دُنیا کی سب سے طاقتور انسان ہو۔
لڑکی نے مسکرا کر انہیں اپنے سامنے بٹھایا اور کہا ابّا جی اُس وقت آپ کا ہاتھ میرے کاندھے پر تھا،تو میں اپنے آپ کو دُنیا کی سب سے طاقتور انسان سمجھ رہی تھی۔
وہ لڑکی جس کے کندھے یا سر پر باپ کا ہاتھ ہو تو یقیناََ وہ لڑکی دُنیا کی طاقتور ترین انسان ہوگی؟ ہاں یا نہیں، ابّاجان ؟بابا کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔ اس نے اپنی بیٹی کو گلے لگا لیا۔یہ سچ ہے کہ جس بچوں کے کاندھے یا سر پر باپ کا ہاتھ ہو وہ دُنیا کا طاقتور ترین شخص ہوتا ہے۔
ایک بات ذہن نشین کرلیجیے کہ آپ کی ترقی اور خوشحالی پر صرف آپ کے”والدین“ ہی خوش ہونگے۔
1. اُن کی موجودگی میں موبائل فون بند رکھنا۔ 2. اُن کی بات کو خاموشی سے سُننا۔3. اُن کی رائے کو قبول کرنا۔ 4. اُن کے ساتھ بات چیت میں اچھی سوچ کا حامل ہونا۔5. ان کی طرف احترام سے دیکھنا۔
اپنے باپ کو درج ذیل بات بھی سوچنے کا موقع نہ دو !”جو مجھ سے روز پريوں کی کہانی سُن کے سوتے تھے، اب ان بچوں کو میرا بولنا اچھا نہیں لگتا“۔ماں باپ زمین پر ایک خزانہ ہیں ہوسکتا ہے کہ عنقریب یہ خزانہ زمین کے نیچے دفن کردیا جائے گا۔
ہمیں پڑھاؤ نہ رشتوں کی کوئی اور کتاب
پڑھی ہے باپ کے چہرے کی جھریاں ہم نے
(معراج فیض آبادی)