سالِ نو کے خرافات سے بچئے !…

0

مریم جاوید
کچھ دن پہلے میں اپنے کچن میں کام کر رہی تھی فریج کھولنے اور بند کرنے میں ایک برف کا ٹکڑا پھسل کر فرش پر گر گیا، میں اپنے کام میں مصروف ہو گئی تھوڑی دیر بعد جب میری نظر اس برف کے ٹکڑے پر پڑی جو تیزی سے گھل رہا تھا بلکہ ختم ہو چکا تھا‘ میں ایک لمحے کے لئے چونک گئی اور سوچنے لگی کہ ہماری زندگی بھی تو اس برف کی مانند ہےجو لمحہ لمحہ گھل رہی ہے ختم ہو رہی ہے لیکن ہمیں اس کا شعور نہیں ہمیں اس کا ہوش نہیں۔اچانک مجھے قرآن کی صورت العصر یاد آ گئی اور میں نے فوراً اُسے کھول کر پڑھنا شروع کر دیا جب میں اس آیت کی تشریح پڑھ رہی تھی وقت کی قسم انسان بڑے خسارے میں ہے بڑے گھاٹے میں ہے۔پھر مولانا محترم نے امام رازی کا قول نقل کیا کہ انہوں نے اس آیت کا مطلب ایک برف فروش سے سمجھا ہے جو بازار میں آواز لگا رہا تھا لوگو ں اس آدمی پر رحم کرو جس کا سرمایہ گھلا جا رہا ہے اس آدمی پر رحم کرو جس کا سرمایہ گھلا جا رہا ہے۔
ہمارے پاس وقت ہی تو سرمایہ ہے جو اس قدر تیزی سے گھلا جا رہا ہے جس کا ہمیں شعور نہیں جس کا ہمیں ہوش نہیں کاش ہم اس باریک نکتے کو سمجھ سکتے ۔
سال نو کی خرافات یا سال نو کی شروعات کیا ہے۔
ہر قوم سال نو کی شروعات کسی نہ کسی مہینے سے شروع کرتی ہے۔
مسلمانوں کا سال نو یکم محرم سے شروع ہوتا ہے۔
غیر مسلم کا سال نو padhva سے شروع ہوتا ہے۔
عیسائی مذہب کا سال نو یکم جنوری سے شروع ہوتا ہے۔
31 دسمبر کی رات یعنی 9 بجے سے یہ لوگ چرچ میں جمع ہوتے ہیں یہاں تک کہ ٹھیک 12 بجے جب سال شروع ہوتا ہے موسیقی اور آتش بازی سے سال نو کا استقبال کرتے ہیں ایک ہی رات میں کروڑوں روپیے خرچ کیے جاتے ہیں کیک کاٹے جاتے ہیں اور ہر طرف Happy New year کی صدائیں گونجتی ہے۔ یہ مغربی کلچر ہے۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ مسلمان قوم جن کی اپنی شناخت ہے جن کی اپنی زندہ تہذیب ہے جن کا دین فطرت پر ہے۔ جن کے پاس دستور زندگی ہےوہ بھی اس مرعوبیت کا شکار ہو رہے ہیں شیطان کو تو موقع ملنا ہے۔انسان کے باہر سے شیطان اور اندر سے نفس امارہ اپنی پوری طاقت سے شر پر آمادہ کرتے ہیں۔31 دسمبرکی رات کو ہوٹلیں،ہال،فارم ہاؤس بک کیے جاتے ہیں وہاں موسیقی ناچ گانے ہوتے ہیں لڑکے لڑکیاں پارٹی میں ڈرنکس لیتے ہیں ۔بہت زیادہ شراب کے نشے میں نوجوان اپنے ہوش وحواس کھو دیتے ہیں اور کئی لڑکیاں اپنی عصمت کو تار تار کر دیتی ہے ۔یہ بہت افسوس کا مقام ہے۔ یہ ہے وہ تصویر جو سال نو کے نام پر چھپی ہوئی ہے۔حفیظ میرٹھی کا شعرظ؎
یہ ناچتی گاتی ہوئی اس دور کی تہذیب
کیا جانیے کس کرب کا اظہار کرے ہے
آج ہماری مسلم قوم بھی ان سب میں آگے ہے لڑکیاں اس دلدل میں پھنستی جا رہی ہیں ۔ابھی بھی وقت ہے سنبھل جائے ، سال نو کی اس خرافات سے خود بھی بچے اور اُمتِ مسلمہ کی بیٹیوں کو بھی اس سے بچائے ۔آج مسلمان سال نو کی آمد پر جشن مناتا ہے کیا اسکو یہ معلوم نہیں کہ اس کی زندگی کا ایک برس کم ہو گیا ہے۔زندگی اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ایک بیش قیمتی نعمت ہے اور نعمت کے ضائع یا کم ہونے پر جشن نہیں منایا جاتا بلکہ افسوس کیا جاتا ہے۔یہ عمر اور زندگی جو ہم کو عطا ہوئی ہے وہ صرف آخرت کی ابدی زندگی کی تیاری کی خاطر عطا ہوئی ہےکہ ہم اس کے ذریعے آنے والی زندگی کو بہتر بنائیں اور اپنے اعمال کو اچھا بنا سکیں۔سال نو کے نام پر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی جاتی ہے اللہ کے غضب کو دعوت دی جاتی ہے اپنے کندھوں پر گناہوں کا بوجھ بڑھایا جاتا ہے ۔اس طرح نیا سال منانا بالکل بھی جائز نہیں ہے اسلام میں اسکی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
زمانہ ڈھل رہا ہی مغربی تہذیب میں لیکن‘میرا ہر رنگ میں ڈھلنا الہٰی تیری خاطر ہو
میرا جینا میرا مرنا الہٰی تیری خاطر ہو

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS