کیا ہم صیاد کے دام میں آگئے ہیں

0

شاہنوازاحمد صدیقی
ہندوستان کے عظیم شاعر اسرار الحق مجازجن کا شمار اردو کے جدید فکر کے حامل شعرا میں ہوتاہے،نے خواتین کو روایتی زندگی کو ترک کرکے میدان عمل میں آنے کی دعوت دی تھی۔ان کا ایک مشہور شعرجدید عورت کو دعوت عمل دیتاہے:
تیرے ماتھے پر یہ آنچل بہت خوب ہے لیکن
تواس آنچل سے ایک پرچم بنالیتی تواچھا تھا
یہ شعرآج کے تناظر میں خاص طور پر حجاب تنازع میں درست دکھائی دیتاہے مگر حقیقت یہ ہے کہ جس طرح کرناٹک اور ملک کے دیگر مقامات پر طالبات کے حجاب کا معاملہ طول پکڑ رہاہے وہ باعث تشویش ہے اور یہ ہماری نئی نسل کی تعلیم میں ایک رکاوٹ بن سکتاہے۔اس تنازع نے تمام ارباب دانش کو تشویش میں مبتلا کردیاہے۔خاص طور پر وہ طبقہ جو کہ مسلم خواتین کو تعلیم یافتہ اور بااختیار بنانا چاہتاہے۔سخت گیر عناصر نے حجاب پر بحث کو بالکل نئے انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی اور یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ ایک طرف حجاب ہے اور دوسری طرف تعلیم کا حصول ہے یعنی اگر آپ کو تعلیم حاصل کرنی ہے تو حجاب کو ترک کرنا پڑے گا۔اس طرح ذرائع ابلاغ ، سوشل میڈیا نے اس بحث کو انتہائی تباہ کن موڑ دینے کی کوشش کی ہے ، ہمیں سمجھنا ہوگا۔
خوشحال اورترقی یافتہ طبقات میں پردہ کو سماجی برائی سمجھا جاتاہے۔کئی علاقوں میں پردہ ’گھونگھٹ‘ حجاب وغیرہ کو سماجی اور ذہنی پسماندگی کی علامت کے طور پر پیش کیاجاتا ہے۔ ہرطبقہ سمجھتا ہے کہ مسلمان اپنی عورتوں کو جبراً برقعہ اڑھاتے ہیں اور حجاب پہننے پر ان کو مجبور کرتے ہیں۔مگر گزشتہ چارپانچ سال میں جس طرح مسلم پردہ پوش خواتین اور طالبات نے قائدانہ رول ادا کیا اور میدان عمل میں آکر اپنی رائے رکھی اوربہت اعتماد کے ساتھ رکھی۔اس سے کافی لوگوں کو حیرت ہوئی۔اظہار حیرت کرنے والا وہ طبقہ تھا جو ہندوستانی مسلم سماج سے واقف نہیں تھا اورمیڈیا پر اس کی امیج دیکھ کر رائے قائم کرتاتھا۔میڈیا خاص طور پر ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا پر مسلم لڑکیوں نے برملا اپنی رائے ظاہر کرنی شروع کردی ہے۔اس سے ان کی ذہنی بالیدگی اور آزادانہ فکر کا اظہار ہوتا ہے۔اس سب کے باوجود ابھی بھی مسلم لڑکیوں میں دوسری اقوام کے مقابلے میں ترقی کی رفتار کو مزید تیزکئے جانے کی ضرورت ہے۔میڈیا اور سوشل میڈیا کی وجہ سے دوسری اقوام کے ساتھ ساتھ اقلیتی فرقہ خصوصاً مسلم سماج میں ذہنی کشادگی پیدا ہوتی ہے۔وہ مذہبی روایات یا پابندیوں کو اپنی ’’مرضی‘‘ سے اختیار کررہی ہیں۔ اس کا اندازہ بنگلور کی برقعہ پوش لڑکی کے رویہ سے ہوا جس کے سامنے اچانک لڑکوںنے اس کے حجاب پہننے پر اعتراض کیا۔حجاب پر بحث سے قطع نظر مسلمانوں کے ارباب فہم کی توجہ اس طرف بھی ہونی چاہئے کہ حجاب تنازع کی وجہ سے باحجاب لڑکیوں کا سلسلہ تعلیم متاثر نہ ہو۔علاوہ ازیں ہندو لڑکیوں کے مقابلے میں مسلم لڑکیوں کا اسکول ، کالج یا روزگار اور کریئرکے معاملہ میں جدوجہد قدر کم ہے۔ باالفاظ دیگر مسلم خواتین کی نمائندگی کم ہے۔مسلم لڑکیوں کے اسکول میں داخلہ لینے اور کلاسز میں آنے کے اعدادوشمار سے تھوڑی راحت توملتی ہے مگر ابھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے۔
ڈاکٹرمنموہن سنگھ کے دوراقتدار میںہی ہندوستان کے مسلمانوں کے حالات کے بارے حقائق کا پتہ لگانے کیلئے سچر کمیٹی کا قیام عمل میں آیا۔2006میں اس اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی نے ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت کی زبوں حالی کا جائزہ لیا اورسرکاری اداروں کے اعدادوشمار کی روشنی میں سفارشات پیش کیں۔
سچرکمیٹی کی رپورٹ کو کانگریس کے خلاف ہی دستاویز بناکر پیش کیاگیاتھا۔اس رپورٹ میں بتایا گیاتھا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بھی زیادہ خراب ہے۔ مسلمانوں میں بھی خواتین کی حالت مردوں کے مقابلے میں ابتر ہے۔سماجی ماہرین اور ارباب اقتدار اس صورت حال کو مسلم سماج کے اندر کی نابرابری اور دبے الفاظ میں اسلام سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔مگر تازہ ترین اعداد وشمار ا ن پرانے رویوں کی تردید کرنے والے ہیں ۔سچر کمیٹی کی رپورٹ 2006میں منظر عام پر آئی تھی ، مگر بعد میں نیشنل سپمل سروے (این ایس ایس )کے 2017-18 کے سروے میں حوصلہ افزا صورتحال کی طرف اشارہ ہے کہ مسلم لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم کی کلاسز میں حاضری کی شرح جس کو تکنیکی زبان میں Gross attendance Ratio(جی اے آر) کہتے ہیں، بڑھ کر 13.5فیصد ہوگئی ہے۔جی اے آر کی یہ رپورٹ 18سال سے 23کے درمیان کی خواتین (طالبات) کے بارے میں ہے۔ یہ وہ طالبات ہیں جوتعلیم حاصل کرنے کے لئے کالج جاتی ہیں، یعنی انڈر گریجویٹ یا پوسٹ گریجویٹ ہیں۔ ضلعی سطح پر تعلیمی اور سماجی رویوں کا اندازہ لگانے والی اعدادوشمارUnified District information System for education (یو ڈی آئی ایس ای) کے اعداد وشمار کے مطابق پانچویں کلاس سے لے کر 8ویں کلاس تک کی مسلم لڑکیوں کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے۔ پہلے مسلم لڑکیوں کے داخلہ کی شرح 13.3فیصد تھی ، مگر بعد میں یہ بڑھ کر 2015-2016 میں 14.54فیصد ہوگئی۔قومی سطح پر اپرپرائمری میں لڑکیوں کے اسکول جانے (حاضری)کی شرح 2015-16 کے درمیان 13.30تھی جو 2019-20میں بڑھ کر 14.54 ہوگئی۔ اسی طرح سکینڈری اسکول میں لڑکیوں کے داخلہ لینے کی شرح 11.23 تھی جو 2019-20میں بڑھ کر 13.29 ہوگئی۔ اس طرح اسکول میں ہائرسکینڈری سطح پر مسلم لڑکیوں کے داخلہ لینے کی شرح 2015-16میں 8.77سے بڑھ کر 2019-20 میں 10.67فیصد ہوگئی۔ہائی سکینڈری سطح پرمسلم لڑکیوں کے داخلہ کا یہ رجحان بہت حوصلہ دینے والاہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS