ڈاکٹرریحان اختر قاسمی
اسلام خالقِ کائنات کا انسانیت کے لیے عظیم ترین عطیہ ہے۔ جو ہمہ گریت، آفاقیت و ابدیت کا حامل ہے۔ چونکہ اسی دین کا علم حضرت آدمؑ سے لے کر حضرت نوحؑ ابراہیمؑ و اسماعیلؑ نے بلند کیا اور اسی دین حق کی تکمیل کائناتِ انسانی کے سب سے بڑے محسن اعظم محمد عربی ﷺ کے ذریعہ ہوئی جس کو اللہ رب العزت نے اپنی کتاب عزیز میں برملااعلان فرمایا ہے:
(آج کے دن ہم نے تمہارے لیے دین اسلام کو مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے طریقہ زندگی کے طور پر اسلام کو پسند کیا)۔موجودہ دور میں اسلام مخالف طاقتیں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ بڑی تیزی کے ساتھ اپنے تمام جدیداسباب و ذرائع یعنی پرنٹ میڈیا، الکٹرانک میڈیا ، شوشل میڈیا کے ذریعہ یہ افواہ پھیلائی رہی ہیں کہ دنیا میں اسلام کی نشو ونما طاقت و قوت کے زور سے ہوئی۔اتنا ہی نہیں بلکہ دین اسلام کے خلاف ارسال کی جارہی ترسیل بتا تی ہیں کہ دنیا میں اسلام کی نشو و نما طاقت و قوت کے زور سے ہوئی۔ساتھ ہی یہ بھی وہ اپنے مضامین اور دیگر ذرائع سے بتا تے ہیں کہ دین اسلام کی ترویج و اشاعت میں اسلامی جنگوں کا بہت اہم کردار رہا ہے،جس کی وجہ سے کافی لوگ بھی اسلام سے بد ظن ہورہے ہیں۔اس کے علاوہ یوروپ اپنی معاندانہ روش کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کیلئے تمام حربے استعمال کر رہا ہے کہ کس طرح سے اسلام کی صاف و شفاف شبیہ کو داغدار کیا جائے۔ کبھی تو اسلام کو ایک خونخوار مذہب سے تعبیر کرتا ہے اور کبھی مسلمانوں کو درندہ صفت اور دہشت گرد کا لیبل لگا دیتا ہے اور اپنی اسلام مخالف سرگرمیوں میں ساری دنیا کو شریک کرنا چاہتا ہے۔ بالخصوص ہندوستان کو اور یہ باور کرارہا ہے کہ ہندوستان میں بھی مسلمان حکمرانوں نے اپنی طاقت و قوت کے بل بوتے پر غیر مذاہب کے لوگوں کی گردن پر تلوار رکھ کر انھیں اسلام کو قبول کرنے پر مجبور کیا۔بالخصوص صلیبی جنگوں میں معاندین اسلام کی ذلت آمیز ہزیمت وپسپائی کے بعد یہ بات بڑی زور وشور سے اٹھی کہ اسلام ایک خونخوار مذہب ہے اور مسلمان ایک دہشت گرد قوم و ملت کا نام ہے۔ اس کے بعد سے لے کر آج تک کسی نہ کسی پیرائے بیان وزبان میں اس الزام کو بے جا اسلام کی طرف منسوب کرنے میں پوری دنیا لگی ہوئی ہے۔اسلام تو سراپا خیر و سلامتی کا مذہب ہے اور امن و سلامتی کے جامع اور ہمہ گیر تصور کا نقیب ہے۔ دین حق نے تو اپنی دعوت و تبلیغ کو دلائل و براہین کے ذریعہ اخلاقِ حسنہ سے پیش کی اور حسن اخلاق نے لوگوں پر ایسے اثرات مرتب کیے کہ غیر مذاہب کے لوگوں نے اسلام کی پناہ میں آنا اپنے لیے باعث سعادت سمجھا اور اسلام قبول کرنے کے بعد وہ کسی حال میں اپنے چھوڑے ہوئے دین کی طرف واپس جانا گوارہ نہ کیا۔ اسلام نے عقل و خرد کو حکم بنانے کے بعد لوگوں کو اسلام قبول کرنے اور انکار کرنے کی پوری آزادی دی، قرآن کریم میں اعلان ہے:
(جو چاہے ایمان لائے اور چاہے کفر کا راستہ اختیار کرے)
اسلام کی ترویج و اشاعت اور دعوت و تبلیغ کے اصول قرآن میں بیان کیے گئے ہیں اورمذہب اسلام میں جبروا کراہ سے روکا گیا ہے۔ اسلامی دعوت کو پیش کرنے کا طریقہ کار کیا ہونا چاہیے قرآن کی زبانی سینے:
(انھیں اپنے رب کے راستہ کی طرف حکمت وعمدہ وعظ وپند کے ساتھ بلائو اور بحث و مباحثہ ایسے طریقہ پر کرو جو بہترین ہو)
(اے پیغمبرﷺ نیکی اور بدی برابر نہیں ہیں۔ توبدی کو ایسے طریقہ پر دور کر جو بہت اچھا ہے پھر دیکھو کہ جسکے ساتھ تیری دشمنی ہے وہ تیرا گر مجوش دوست بن جائے گا)
مذہب اسلام میں جبروا کراہ پر بندش لگاتے ہوئے قرآن کریم میں اعلان کیا:
(کیا تو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ وہ مومن ہو جائیں، حالانکہ تیرا کام مجبور کرنا نہیں)
ایک دوسری جگہ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:
(کوئی شخص اللہ کی اجازت کے بغیر ایمان نہیں لا سکتا اور اللہ عدمِ اجازت کی ناپاکی انھیں لوگوں پر ڈالتا ہے جو اپنی عقل سے کام نہیں لیتے)
دوسری جگہ ارشاد ہے:
(تو جسے چاہے ہدایت نہیں کر سکتا بلکہ اللہ جسے چاہے ہدایت دیتا ہے وہی جانتا ہے کہ کون ہدایت قبول کرنے کے لیے تیار ہے)
(ان کی ہدایت تیرے ذمہ نہیں ہے بلکہ اللہ جس کو چاہے ہدایت بخشتا ہے)۔(قرآن کریم کی یہ تمام آیات کیا اس بات کے بین ثبوت نہیں ہیں کہ اسلام میں مذہبی جبرواکراہ اور زور زبردستی کی کہیں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ پھر کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ کوئی اہل ایمان خدا کی جاری کردہ احکامات کے خلاف ظلم و تشدد و ناانصافی اور حق تلفی کا راستہ اختیار کرے گا۔ یہ بات واضح ہے کہ اسلام میں کوئی بھی جنگ دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لیے نہیں ہوئی، بلکہ تمام جنگیں ظلم و ستم اور جبرو اکراہ کے خاتمہ کے لیے ہوئیں اور ان ہی جنگوں کے بعدظلم و ستم کا خاتمہ اور اس کے اسباب و ذرائع کا بھی خاتمہ ہوا اور معاشرہ میں عدل و انصاف کا قیام ہوا ،جس کے بعدلوگوں نے دیکھا کہ اسلام بہت اچھا مذہب ہے،اس لیے اسلام کو قبول کر لیا۔ علامہ لورڈ ہیڈ لے لکھتے ہیں:
’’محمد ﷺ کی تلوار جو آپ نے جماعتِ مفسدین کی ظالمانہ سرگرمیوں کو نیچا دکھانے کے لیے اٹھائی وہ صرف حفظِ ذات کی تلوار نہ تھی بلکہ تمام قوموں، تمام مذہبوں، تمام مندروں، گرجائوں اور مسجدوں کی حفاظت کی تلوار تھی اوریہ تلوار اقوام وادیان کے رشتوں کو توڑنے والی نہیں تھی بلکہ جوڑنے والی تھی۔ اس کا بڑا مقصد یہ تھا کہ عرب سے خانہ جنگی کو ختم کر دیا جائے اور ایک ایسی منظّم اور پرامن حکومت قائم کی جائے جس کے سایہ میں تمام اقوام کو عزت وآزادی کی زندگی مل سکے‘‘۔
مشہور ہندوسیرت نگار سوامی لکشمن پر ساد اسلام کی جنگوں کے سلسلہ میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’کہ یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اسلام کی شان و شوکت کے ایام کی کہانی جنگ و جدال کی ایک خونچکاں داستان ہے اور یہ خون آشائی مذہب اسلام کی خصوصی امتیاز قراردی جاتی ہے۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ یہ قطعی مبنی برصداقت ہے کہ اسلام نے خون کا دریا عبور کرکے ہی اپنی اس حیرت انگیز شان و شوکت کو حاصل کیا ہے۔ جس کا تصور انگشت بدنداں کردینے کے لیے کافی ہے۔ اسلام کے گلشن ہائے رنگ کی رنگینیوں میں ان مظلوم سرفروشانِ توحید کی جھلک موجود ہے، جنھوں نے صیانتِ دین کے لیے بے دریغ گردنیں کاٹیں۔ مگر یہ قطعی صحیح نہیں ہے کہ مسلمانوں کو خونریزی اور جنگ و جدال سے دلی ذوق و شوق اور قلبی ربط وضبط تھا۔ قوموں کی تاریخ میں بعض ایسے وقت آتے ہیں جب خونریزی ناگزیر ہو جاتی ہے اور اس وقت جان دینے سے جان چرانا ایک قسم کا گناہ بن جاتا ہے۔ مسلمان بھی ایسی ہی آزمائش سے دو چار تھے،اس لیے انہوں نے تلوار اٹھانا اہم ترین فریضہ سمجھا۔
اسلام پوری انسانیت کیلئے آیا ہے اور یہ عالم انسانیت کو تحفظ و حقوق فراہم کرتا ہے اور یہ دنیا میں ایک ایسا معاشرہ چاہتا ہے جہاں پر ہر انسان کو مکمل آزادی حاصل ہے اور احکامِ الٰہی کے حدود وقیود میں رہ کر جس طرح چاہے زندگی گزارے، لیکن اگر معاشرہ انسانیت ظلم و تشدد کا شکار ہو اور فتنہ و فساد کی آما جگاہ بنا ہو، اور انسانوں کے ساتھ ننگ انسانی سلوک وبرتائو کیا جا رہا ہو، مذہبی حقوق کو چھین لیا جا رہا ہو اور انسانی تقدس پامال ہو رہا ہے، تو اب ایسے وقت میں فتنہ و فساد اور ظلم و جبر کے طریقہ کا پربندش لگانے کے لیے تلوار اٹھانا ناگزیر ضرورت بن جاتا ہے۔ سامی لکشمن پرشاد کا اسلامی جنگوں پر بے باکانہ تبصرہ کی تائید سید ابوالاعلیٰ مودودی کی تحریر سے ہوتی ہے لکھتے ہیں:
’’اسلام اپنی صداقت پرا یمان لانے کے لیے کسی کو مجبور نہیں کرتا بلکہ دلائل و براہین کی روشنی میں ہدایت کی راہ کو ضلالت کی راہ سے ممتاز کرکے دکھانے کے بعد ہر شخص کو اختیار دیتا ہے کہ چاہے غلط راستہ پر چل کرنا مرادی کے گڈھے میں جا گرے، اور چاہے سیدھے راستے پر لگ کر حقیقی اور دائمی فلاح و کامرانی سے بہرہ اندوز ہو، لیکن اس سلسلہ کلام کو ختم کر دینے سے پہلے ہم یہ بتا دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ اسلام کی اشاعت میں تلوار کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس میں شک نہیںکہ جہاں تک تبلیغ دین الٰہی کی حد ہے، اس میں تلوار کا کوئی کام نہیں ہے، لیکن اس تبلیغ کے ساتھ کچھ چیزیں اور بھی ہیں جن کے تعاون سے دنیا میں اسلام کی اشاعت ہوتی ہے اور وہ یقینا تلوار کی اعانت سے بے نیاز نہیں ہیں۔‘‘
گاندھی جی اسلامی تعلیمات کی خصوصیات و امتیازات کو پرزور انداز میں اعتراف کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:
’’میں اس کا بہت زیادہ قائل ہوں کہ اسلام کو جو مقام اس دور میں حاصل ہے، یہ تلوار کی بدولت نہیں ہے۔ یہاں حددرجہ سادگی ہے، رسول کی زندگی نمونہ ہے، جس میں ایفائے عہد ہے۔ دوستوں اور پیروکاروں کے لیے خلوص و محبت ہے۔ بے خوفی اور رب کی ذات میں اپنے پیغام کی سچائی میں یقین ہے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جس کے لیے نہ تلوار کی ضرورت ہے اور نہ کسی اور چیز کی جو سامنے والے کو اپنے ساتھ بہالے جائے۔‘‘ ہم نے تلوار کا چرچا بہت سنا ہے اور مثال کے طور پر جہاد کا مسئلہ ہمارے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ گویا اسلام کی نشر و اشاعت اور اس کی بقاوترقی کا انحصار تلوار پر ہے۔میرے سمجھ سے ایسا کہنا خود اسلام کی تردید کرنا ہے، اس غلط اور شرانگیز عقیدے کے حامیوں نے حضرت محمدﷺ کی زندگی کے واقعات کو بالائے طاق رکھ دیا اور صداقت سے آنکھ بند کر لیں۔ اسلام میں تلوار کی جو جگہ ہے وہ کسی بھی مذہب میں ہو سکتی ہے، اسلام میں تلوار کا استعمال جائز ہے، مگر صرف وہیں تک جہاں تک صداقت اور سچائی کی حفاظت کے لیے ضرور ی ہے۔ اسلام میں امن و آشتی اور صلح راستی کی جگہ تلوار سے کہیں بالا تر ہے۔ اسلام تلوار کا نہیں امن کا پیغام ہے۔
’’اسلام میں تلوار اور مبارزت کے ذریعہ فتح کے تصور کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیںہے حتی کہ مفتوحہ علاقوں کے بت پرستوں کو بھی موت کے گھاٹ نہیں اتارا جاتا تھا۔‘‘
تلوار سے ملک اور میدان تو فتح کیے جا سکتے ہیں، مگر دل نہیں جیتے جا سکتے۔ اگر اسلام تلوار سے پھیلا ہوتا تو تلوار کا خطرہ سر سے ٹلتے ہی لوگ اسلام سے پھر جاتے، لیکن حقائق اس کے بالکل خلاف ہیں۔ جب تلوار کی قوت مسلمانوں کے ہاتھوں سے چھین لی گئی تب بھی ہزاروں لوگ اسلام قبول کرتے رہے ہیں۔
پس جس طرح یہ کہنا غلط ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے لوگوں کو مسلمان بناتا ہے، اسی طرح یہ کہنا بھی غلط ہے کہ اسلام کے اشاعت میں تلوار کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ حقیقت ان دونوں کے درمیان ہے، اور وہ یہ کہ اسلام کی اشاعت میں تبلیغ اور تلوار دونوں کا حصہ ہے۔ جس طرح ہر تہذیب کا کام ہوتا ہے، تبلیغ کا کام تخم ریزی ہے اور تلوار کا کام قلب ریزی ہے، پہلے تلوار زمین کو نرم کرتی ہے، تاکہ اس میں بیچ پرورش کرنے کی قابلیت پیدا ہو جائے۔ پھر تبلیغ کا بیج ڈالا ڈال کر آبپاشی کرتی ہے تاکہ وہ پھل حاصل ہو جو اس باغبانی کا مقصودِ حقیقی ہے۔ ہم کو دنیا کی پوری تاریخ میں کسی ایسی تہذیب کا نشان نہیں ملتا جس کے قیام میں اس دونوں عنصر کا حصہ نہ ہو۔
مشہور و معروف مؤرخ مسٹر گبن جوزمانہ حال کے مؤرخوں میں سے بڑا مؤرخ ہے اور اس کی سند نہایت معتبر شمار کی جاتی ہے۔ مذہبی آزادی کے سلسلہ میں اپنی کتاب میں یہ لکھتا ہے:
’’مسلمانوں کی لڑائیوں کو ان کے پیغمبر نے مقدس قرار دیا تھا مگر آنحضرت ﷺ نے جو اپنی حیات میں مختلف نصیحتیں کیں اور نظیریں قائم کیں ان سے خلفائوں نے دوسرے مذہب کو آزادی دینے کی نصیحت پائی جس سے اسلام کے غیر مستندوں کی مخالفت رفع ہو جائے۔ ملک عرب حضرت محمدﷺ کے خدا کی عبادت گاہ اور اس کا مملوک تھا، مگر وہ دنیا کی قوموں کو محبت سے اور بہت کم رشک سے دیکھتا تھا، بہت سے دیوتائوں کو ماننے والے اور بت پرست جوان کو نہ مانتے تھے، شرعاً نیست ونابود کیے جا سکتے تھے۔ مگر انصاف کے فرائض سے نہایت عاقلانہ تدبیر اختیار کی گئی۔ ہندوستان کے مسلمان فتح مندوں نے بعض کام دوسرے مذہب کی آزادی کے برخلاف کرنے کے بعدبھی آباد ملک کے مندروں کو چھوڑ دیا ہے۔‘‘
اپنے لوگوں کی شہادتیں تو قبول کرتے ہی ہیں، لیکن اگر یہی شہادت کوئی دوسرے مذہب کا ماننے والا دے تو وہ یقینا لائق داد و تحسین ہوا کرتی ہے۔ اس مضمون کا اختتام ایک مشہور و معروف یورپی مؤرخ ڈاکٹر گستائولی بان کے خیالات پیش کر دیئے جائیں جو ایک عیسائی دانشور ہے اس نے جو کچھ اسلام کے سلسلے میں لکھا وہ عقیدت محبت کی بنیاد پر نہیں لکھتا بلکہ تحقیق و تنقید کو بنیاد بناتے ہوئے تمدن عرب میں لکھا ہے:
’’اعمال اسلام اپنے عہد پر اس درجہ مستحکم رہے اور انھوں نے اس رعایا کے ساتھ جو ہر روز شہنشاہ قسطنطنیہ کے عاملوں کے ہاتھوں میں انواع و اقسام کے مظالم سہا کرتی تھیں، اس طرح کا عمدہ برتائو کیا کہ سارے ملک نے بہ کشادہ پیشانی دینِ اسلام اور عربی زبان قبول کر لیا، میں بار بار کہتا ہوں کہ یہ وہ نتیجہ ہے جو ہر گز بزور شمشیر نہیں حاصل ہو سکتا۔‘‘
[email protected]