پہلے مرحلہ کی پولنگ میں گراوٹ ،ووٹروں کی مایوسی کا نتیجہ : شاہد زبیری

0
https://newsable.asianetnews.com/

شاہد زبیری
ملک 21اہم ریاستوں کی پہلے مرحلہ کی کچھ سیٹوں پراور کچھ ریاستوں کی تمام سیٹوں پر پولنگ ختم ہو چکی ہے اس مرحلہ کے رجحان کا باقی 6مرحلوں کی پولنگ پر کتنا اثر انداز ہو گا، ابھی سب کی نظریں اس پر ٹکی ہیں۔ پہلے مرحلہ کی پولنگ میں بی جے پی اور انڈیا الائنس میں سیدھا مقابلہ نظر آیا۔مغربی بنگال منی پور میں تشدد اور امپھال میں اے وی ایم کے نذرآتش کئے جا نے اور چھتیس گڑھ میں پولنگ بوتھ کے قریب دھماکہ میں ایک سی آر پی ایف جوان کی شہادت اور ناگا لینڈ کے 6 اضلاع میں الیکشن با ئیکاٹ کے نتیجہ میں پولنگ صفر رہنے کے علاوہ انتخابی عمل مجموعی طور پر پر امن رہا، حتی کی جموں کشمیر جیسی حساس ریاست سے بھی کسی ناخوشگوار واقعہ کی اطلاع نہیں تھی۔ یوپی جیسی ملک کی بڑی ریاست کے مغربی یوپی کی 8اہم سیٹوں کی اگر بات کی جائے تو یہاں بھی کم و بیش یہی صورتِ حال دکھا ئی دی اور بی ایس پی سے جومسلم ووٹوں میں انتشار کا خدشہ تھا اس کالوک سبھا کے حلقوںمیں کہیں کہیں بوتھوں پریہ نظر آیا، عام طور پر مسلم ووٹ یکمشت انڈیا الائنس کے کھا تے میں گئے۔

اگر گزشتہ لوک سبھا کے انتخابات کا پولنگ فیصد سامنے رکھیں تو ووٹ پولنگ کا فیصد پہلے کے مقابلہ ایک دو نہیں 5.5 فیصد اور کچھ سفو لجسٹو کے تجزیہ کے مطابق تقریباًً 6فیصد کم رہا ۔ دستیاب اعدادو شمار کے مطابق 2009میں پولنگ فیصد 58تھی جو 2014میں بڑھ کر 66فیصد اور 2019میں69.9 او2024میں گھٹ کر مجموعی طور 65.3فیصد رہ گئی بنگال کو چھوڑ کر جہاں پہلے تین سیٹوں پر گزشتہ لوک سبھا انتخاب میں 66فیصدتھی جو بڑھ کر 77فیصد ہوگئی باقی ریاستوں جیسے یوپی میں 59فیصد سے گھٹ کر 57.77 فیصدپر آگئی، اترا کھنڈ کی سبھی 5سیٹوں پر 66فیصد سے گر کر 57.72 فیصدپر آگئی، ،چھتیس گڑھ میں 71فیصد تھی جہاں 63.41 فیصدرہ گئی، اروناچل میں 83فیصد تھی جو 65.79 فیصدہو گئی ،آسام میں 81فیصد تھی جو 71.64رہ گئی ،تشدد زدہ منی پور میں بھی82فیصدسے گھٹ کر 68.81 فیصد رہ گئی ہے،تمل ناڈو میں72 فیصدسے گھٹ کر 62.27 فیصدرہ گئی اور مہاراشٹر میں پولنگ فیصد کا تناسب 64فیصد تھا جو اب کم ہوکر 55.35 فیصد پر آگیا ۔ایسا ہی معاملہ بہار، راجستھان اور کچھ باقی ریاستوں کا ہے، جہاں پہلے مرحلے کی پولنگ کا عمل مکمل ہو چکا ہے ۔انتخابی اعدادو شمار کے ماہروں کی مانیں اگر یہی رجحان باقی6مراحل میں رہا تو مجموعی طور پر لوک سبھا کا پولنگ 2019کے مقابلہ کا فی گھٹ سکتا ہے ۔ اگر پہلے مرحلہ کی پولنگ میں ناگالینڈ کے 6 اضلاع میں پولنگ صفر رہا اور 4لاکھ ووٹروں نے ووٹ ہی نہیں ڈالے اور مجموعی پولنگ کا فیصد 5فیصد بھی کم ازکم مانیں تو اس کا مطلب ہے کہ 75سے 80لاکھ لوگ گھروں سے ہی نہیں نکلے تو اس سے ووٹروں کے رجحان کا اندازہ لگا یا جا سکتا ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ ووٹروں نے بی جے پی اور خاص کر وزیر اعظم نریندر مودی کی گارنٹی پر بھروسہ نہیں کیا جس کا بڑاشور ہے۔اس کے علاوہ انڈیا الائنس کے وعدوں پر بھی عام ووٹر نے کم بھروسہ جتا یا ہے ،پہلے مرحلہ کی پولنگ میں 5.5 یا 6فیصد کا گھٹنا آخر کس بات کی علامت کہی جا سکتی ہے ۔پہلے مرحلہ کی پولنگ میں تجزیہ نگاروں نے جہاں اس بات کا اعتراف کیا کہ بی جے پی کا بوتھ مینجمنٹ انڈیا الائنس کے مقابلہ بہت بہتر تھا انڈیا الائنس کی بوتھ مینجمنٹ کی کمزوری اس کیلئے خطرہ کا الارم ہے، اگر اس نے اس کمزوری کو باقی مراحل میں دور نہیں کیا تو دہلی فتح کرنے کے ارمان آنسوئوں میں بہہ سکتے ہیں ۔بی جے پی کی پشت پر سنگھ پریوار کا تھنک ٹینک ہے جو یقیناپولنگ فیصد کے خطرہ کے اسباب پر سر جوڑ کر بیٹھ گیا ہو گا ،اس کی طرف سے ہر ممکن کوشش ہوگی کہ باقی مراحل میں کی پولنگ فیصد میں اضافہ کیسے کیا جا ئے۔ ویسے بی جے پی کے 400پار کے نعرہ کے غبارہ کی ہوا تو نکلے گئی ہی ہے، لیکن پولنگ فیصد میں تخفیف اس کے عزائم کو دھول چٹا سکتی ہے۔تجزیہ نگاربھی بی جے پی کے دعویٰ کو حقیقت کے بر عکس مانتے ہیں۔

حقیقت ہے کہ ملک کے کسی بھی حصہ میں چلے جا ئیں عوام خاص طور پر نوجوانوں اور نوجوانوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان جو آئی اے ایس ،آئی پی ایس یاریلوے ،بینک ،فوج اور پولیس و دیگر سرکاری ملازمتوں کی تیار ی کرتے ہیں وہ کافی ناراض ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ حکومت چور دروازے سے اعلیٰ ملازمتوں پر اپنے نظریہ کے لوگوں کو بٹھا رہی ہے اور کسان و غریب کے بچے ان سرکاری ملازمتوں سے دور رکھے جا رہے ہیں ۔ ہندی میڈیم سے تعلیم حاصل کرنے والے چا ہتے ہیں کہ انگلش اور ہندی میڈیم کے مقابلہ جا تی مرکزی ملازمتوں کے امتحانات کی پالیسی میں یکسانیت لائی جا ئے تاکہ کسان اور غریب کے بچوںکے اڑنے کے سنہرے خوابوں کو بال و پر میسر آسکیں اور ان کی شب روز کی محنت ٹھکانے لگے ۔تعلیم یافتہ نوجوان میڈیا کے مائک پر صاف صاف بول رہے ہیں کہ مودی سرکار گنے چنے چند سرمایہ داروں کی تجوریاں بھر رہی ہے اور پبلک سیکٹر کو گجرات سے تعلق رکھنے والے سرمایہ داروں کے نجی ہاتھوں میں سونپ رہی ہے جیسے ریلوے، بینک ،تعلیم اور صحت وغیرہ جبکہ 80فیصد عوام کو 5 کلومفت راشن کی خیرات بانٹی جا رہی ہے اور ملک کی اکثریت کو روزگار اور آمدنی کے لحاظ سے اس قابل بننے کا موقع ہی نہیں دیا جا رہا ہے کہ وہ ماہانہ 5کلو اناج کی سرکاری خیرات کا محتاج بننے کی بجائے 5کلو اناج خریدنے کی استطاعت پیدا کرسکیں ۔ نوجوانوں کھل کر کہہ رہا ہے کہ کسی کی آستھا یا عقیدہ، پوجا پاٹھ اپنی جگہ، دھرم اور مذہب کی سیاست کی کاک ٹیل کا نشہ زیادہ دن تک نہیں رہتا۔

مودی سرکار کی دھرم اور مذہب کی سیاست اور ہندو مسلم کے نام پر تفریق سے ملک اور عوام کا بھلا ہونے والا نہیں ہے۔ نوجوانوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے 2014 اور 2019میں بی جے پی کو اس لئے ووٹ دیا تھا کہ شاید اس کی سرکار تعلیم یافتہ نوجوانوں کے بلند عزائم کی تکمیل کر سکے اور ان کو روزگار اور ملازمتوں کے بہتر مواقع مل سکیں، لیکن گزشتہ سالوں میں بی جے پی کی مودی سرکار نے کوئی کرشمہ نہیں دکھا یا اور نوجوانوں کے خوابوں کو پاش پاش کردیا، وہ صا ف صاف کہتے ہیں کہ 10سال کا حساب دینے کی بجا ئے مودی جی آج بھی دھرم اور ہندو مسلم کی سیاست کو بھنا نا چا ہتے ہیں اور ملک کی جی ڈی پی کے اضافہ اور معیشت کی تیز رفتار ی کا ڈھول پیٹ رہے ہیں اور اب پانچ سال کی بجا ئے 1947تک کے سپنے فروخت کررہے ہیں ان نوجوانوں میںوہ نوجوان بھی شامل ہیں ،جو کھل کر کہہ رہے ہیں کہ وہ اس مرتبہ بی جے پی کو ووٹ نہیں دیں گے اورانڈیا الائنس کے کھاتے میں اپنا ووٹ ڈالیں گے ۔ بے روز گاری اور مہنگائی کے علاوہ کسان بھی ناراض ہیں،کسان آج بھی سڑکوں پر ہیں ۔پنجاب میں ریل کی پٹریوںپر دھرنا دئے بیٹھے ہیں جن کی باتوںپر سرکار ذرا بھی کان نہیں دھر رہی ہے ۔یو پی میں بھی کسان ناراض چل رہے ہیں ۔

اس ناراضگی نے پہلے مرحلہ کے انتخابات میں جاٹ لینڈ کہلانے والے مغربی یو پی کی آٹھوں سیٹوں پر کتنا اثر ڈالا ہے ،ڈالا ہے یا نہیں؟ یہ نتائج کے بعد پتہ چلے گا، لیکن ان ہی مغربی یوپی کی لو سبھاسیٹ کیرانہ سے سماجوادی پارٹی کے ٹکٹ پر انڈیا الائنس کی اقراء حسن اور مظفر نگر سیٹ پر انڈیا ایلا ئنس کے امیدوار ہریندر ملک نے بی جے پی پر دھاندلی کے الزامات لگا ئے ہیں ،ہریندر ملک نے تو اس کی شکا یت الیکشن کمیشن سے تحریری طور پر کی ہے ۔جبکہ چیف الیکشن کمشنر اپنی پیٹھ آپ تھپتھپا رہے ہیںاور کہہ رہے ہیں کہ یہ پولنگ سے لطف اندوز ہو نے کا وقت ہے نہ کہ شک کر نے کا ۔ حیرت ہے کہ پولنگ فیصد کا مجموعی تناسب گھٹ رہاہے ایک ریاست کے 6اضلاع کے ووٹروں نے الیکشن کا ہی با ئیکاٹ کردیا، چیف الیکشن کمشنر پھر بھی لطف اُٹھانے کی نصیحت فرمارہے ہیں، ان کو باقی مراحل کی فکر کرنی چا ہئے ، شک وشبہ سے بالاتر صاف شفاف الیکشن کرانا چاہئے۔ووٹو ں کے فیصد کے تناسب میںکمی حقیقت میں الیکشن میں ہونے والی دھاندلی اور بے ایمانی اور سیاسی پارٹیوں کی وعدہ خلافی سے ووٹروں کے مایوسی اور دلبرداشتگی کا نتیجہ ہے ۔سیاسی پارٹیوں کو آئین اور جمہوریت کاپاس رکھتے ہوئے دھرم اور مذہب کی سیاست سے باز رہنا چاہئے سیکو لرزم کی پابندی کرنی چاہئے اور بنیادی مسا ئل پر توجہ دینی چا ہئے ۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS