پولنگ کا کم ہوتا رجحان

0

لوک سبھا انتخابات میں کون ہاف ہوگا اورکون صاف ہوگا،کس کی بھاری اکثریت سے جیت ہوگی اورکس کو شکست فاش ہوگی، سیاسی پارٹیاں دعوے خواہ کچھ کریں، یہ تو طویل 7مراحل کے انتخابات کے بعد 4جون کو ووٹوں کی گنتی کے دن ہی پتہ چلے گا۔فی الحال19اپریل کو ملک کی 21ریاستوں اورمرکز کے زیر انتظام علاقوںکی 102سیٹوں کیلئے ہوئی پہلے مرحلہ کی پولنگ کے دوران پچھلے انتخابات کے مقابلہ میں کم ووٹ پڑنے سے جہاں سیاسی پارٹیوں کی دھڑکنیں بڑھ گئی ہیں ، وہیں سیاسی مبصرین کو بھی اندازہ لگانے میں پریشانی ہورہی ہے ۔ کم پولنگ کا رجحان ایک دوسیٹوں پر نہیں، بلکہ تقریباً تمام سیٹوں پر رہا۔ ایسالگ رہا ہے کہ جیسے انتخابات کے تئیں رائے دہندگان میں بھی دلچسپی کم ہے ، یا اپنے مسائل کے حل کے سلسلہ میں وہ سیاسی پارٹیوں سے مایوس نظر آرہے ہیں۔ ناگالینڈ کے 6اضلاع میں تو ایک بھی ووٹ نہیں ڈالاگیا۔وہاں کے 4لاکھ ووٹروں کے ساتھ ساتھ 20 ممبران اسمبلی نے بھی انتخابات کا بائیکاٹ کیا ۔ راجستھان میں 25 مقامات پرملک کے دیگر حصوں میں بھی بائیکاٹ کی خبریں ہیں۔ بائیکاٹ کی وجہ اس کے علاوہ اورکچھ نہیں تھی کہ ان کے مطالبات پورے نہیں کئے جارہے ہیں اوروہ مایوس ہوچکے ہیں،جس کے بعد انہوں نے انتخابات کے بائیکاٹ جیسے بڑے قدم اٹھائے۔اس وقت ملک میں انتخابات کا ماحول ہے۔ سیاسی پارٹیوں ، لیڈروں اور کارکنوں میں جتنا جوش وخروش پایا جارہاہے اوربڑے بڑے لیڈران ایک ایک دن میںالگ الگ ریاستوں کے 3-3اور 4-4شہروں میں انتخابی جلسے، ریلیاں اورروڈ شو کررہے ہیں، تو رائے دہندگان میں اتنی ہی خاموشی چھائی ہوئی ہے ۔لوگوں کا جھکائو کس طرف ہے ، کچھ پتہ نہیں چل رہا ہے۔کیا اپنے لوگ خوش فہمی میں ووٹ نہیں ڈال رہے ہیں یاعام لوگوں کی ووٹ دینے میں دلچسپی کم ہے ۔ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ یہ صورت حال اس وقت ہے ،جب پورے ملک میں ووٹنگ کا وقت بڑھاکر صبح 7بجے سے شام 6بجے تک 9گھنٹے کردیا گیا ہے ، جس سے پولنگ کاتناسب بڑھنا چاہئے ، لیکن اس میں کمی آرہی ہے ، جو تشویش کی بات ہے ۔سیاسی پارٹیوں، لیڈروں، سرکاروں اورالیکشن کمیشن کو اس طرف سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے، کیونکہ اب لوگ ووٹ دینے کی اپیلوں پر کم توجہ دے رہے ہیں۔
لوک سبھا انتخابات کے پہلے مرحلہ میں جہاں لکشدیپ میں سب سے زیادہ 83.9فیصد پولنگ ہوئی تووہیں بہارکے نوادہ میں اس کے نصف 43.8فیصد پولنگ ہوئی، جوبہت زیادہ کا فرق ہے ۔ اسباب بیان کرکے یا تاویل کرکے اس فرق کوکم نہیں کیا جاسکتا۔کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ گرمی کی وجہ سے رائے دہندگان پولنگ مراکز پر نہیں پہنچ سکے۔یہ تاویل خودکی تسلی کیلئے ہوسکتی ہے ۔ پولنگ مراکز پہلے کی طرح اب دور دور نہیں ہوتے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ گرمی میں یہ پہلا الیکشن نہیں ہو رہاہے۔اگر پچھلے عام انتخابات سے موازنہ کیا جائے تو اسی نوادہ میں 2014 میں52.2اور 2019میں 49.7فیصد ووٹ پڑے تھے ۔اس وقت بھی گرمی کا موسم تھا۔ پولنگ کے رجحان میںمسلسل گراوٹ آنا نہ تو ملک ، نہ جمہوریت اورنہ لوگوں کے حق میں صحیح ہے ۔اس بار کم ووٹنگ والے حلقوں میں صرف نوادہ ہی نہیں ، بلکہ الموڑہ ، کرولی -دھولپور،گیا، گڑھوال ، جموئی ، اورنگ آباد ،جھنجھنو، ٹہری گڑھوال اوربھرت پور بھی شامل ہیں۔جن حلقوں میں پولنگ 70فیصدسے زیادہ ہوئی، وہاںبھی سابقہ انتخابات کے مقابلہ میں کم پولنگ ہوئی ہے ۔اس لئے اطمینان کی بات کہیں نہیں ہے ۔پولنگ کے رجحان میں کمی ہرجگہ نظر آرہی ہے ، جس کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے ۔جمہوریت میں عوام کے پاس فیصلہ کا سب سے بڑا حق ووٹ کی صورت میں ہے ، اگر وہ اس کا بھی ٹھیک سے استعمال کرنا تودور استعمال ہی نہیں کرتے ہیں، تو لمحہ فکریہ ہے۔پہلے مرحلہ میں مجموعی طور پرپولنگ 60فیصد سے اوپر تو پہنچ گئی، جو پچھلے انتخابات میں 70فیصد تھی اورسبھی جانتے ہیں کہ پولنگ کم ہوتی ہے تو عوامی رجحان کا پتہ نہیں چلتا۔کس کو ووٹ پڑے اورکس کو نہیں پڑے ، اس کا اندازہ لگانا سبھی کیلئے مشکل ہوتاہے ۔پولنگ کا تناسب بڑھنے اور کم ہونے سے نتائج پر کتنا اثر پڑتا ہے ، ماضی کا ریکارڈ بھی کچھ ایسا رہا ہے کہ کسی نتیجہ پر پہنچنا مشکل ہے ۔شاید اسی لئے سیاسی مبصرین خاموش ہیں ۔ انتخابی سروے پر بھی پابندی ہے ۔اس لئے ہوا کے رخ کا پتہ نہیں لگایاجاسکتا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS