کیا مہنگائی حقیقتاً کم ہوئی ہے؟

0

وزارت تجارت و صنعت نے یہ مژدہ سنایاہے کہ تھوک مہنگائی کی شرح کم ہوگئی ہے اور بازاروں میں غذائی اجناس پہلے کے مقابلے کم قیمت پر دستیاب ہیں۔ہندوستان کا تھوک قیمت اشاریہ (ڈبلیوپی آئی)پر مبنی افراط زر کی شرح مسلسل چھٹے مہینے صفر سے نیچے رہی۔ ستمبر 2022 میں تھوک قیمت کے اشاریہ پر مبنی افراط زر 10.55 فیصد رہی تھی۔ ہول سیل پرائس انڈیکس میں سالانہ بنیادوں پر جاری کمی کی وجہ اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں تیزی سے کمی ہے۔ گزشتہ دو مہینوں میں دوہرے ہندسوں میں رہنے کے بعد ستمبر میں اشیائے خوردونوش کی افراط زر کم ہوکر 3.35 فیصد ہوگئی۔ اگست میں یہ 10.60 فیصد تھی۔ سبزیوں کی مہنگائی میں کمی ہوئی اور یہ منفی 15 فیصد رہی جبکہ اگست میں یہ 48.39 فیصد تھی۔ کچھ اسی طرح کی باتیں قومی شماریاتی دفتر (این ایس او) نے بھی ایک ہفتہ قبل کہی تھیں۔ این ایس او کی طرف سے گزشتہ ہفتے جاری کردہ اعداد و شمار میں کہاگیاتھا کہ خردہ افراط زر ستمبر میں سالانہ بنیادوں پر 5.02 فیصد کی تین ماہ کی کم ترین سطح پر آ گئی ہے۔ اس کی بڑی وجہ سبزیوں اور ایندھن کی کم قیمتیں تھیں۔ اشیائے خوردونوش کی افراط زر اگست میں 9.94 فیصد سے کم ہو کر ستمبر میں 6.56 فیصد رہ گئی۔ ٹماٹر اور پیاز جیسی سبزیوں کی قیمتوں میں زبردست بہتری آئی ہے۔ خوردنی تیل کی قیمتیں بھی تیزی سے گریں اور 14 فیصد سے زیادہ کم ہوگئی ہیں۔یہ بھی کہاگیا ہے کہ افراط زر کی شرح میں کمی آر بی آئی کی توقعات کے مطابق ہے۔اس ماہ کے شروع میں ریزرو بینک آف انڈیا نے 2023-24کیلئے تھوک قیمت کے اشاریہ پر مبنی افراط زر کا تخمینہ 5.4 فیصد لگایا ہے۔ مرکزی بینک نے رواں ماہ مانیٹری پالیسی کے جائزے میں مسلسل چوتھی بار کلیدی پالیسی ریٹ کو برقرار رکھا تھا۔ ریزرو بینک نے خردہ افراط زر کو چار فیصد تک لانے کا ہدف مقرر کیا ہے۔
فرقہ واریت، سیاسی انتقام اور طاقت کی حکمرانی کے درمیان اضطراب، بے چینی، پریشانی، نفسی نفسی،مہنگائی اور بے روزگاری کے شدید حبس میں گھرے ہندوستانیوں کیلئے یہ خبر ہواکے خوشگوارا ور مشک بو جھونکے سے کم نہیں ہے۔لیکن ایک عرصہ کے بعد مہنگائی کے محاذ پر آنے والی اس اچھی خبرسے لوگ راحت کی سانس لیں، اس سے پہلے یہ جان لینا بھی ضروری ہے کہ کیا اس خبر میں بتائی جانے والی باتوں کا زمینی حقیقت سے بھی کوئی تعلق ہے ؟اعدادوشمار، ڈیٹا، تجزیے ، جائزے ، اشارے سب یہ بتارہے ہیں کہ تھوک اور خردہ دونوں بازاروں میں مہنگائی کم ہوئی ہے۔ اشیائے خوردو نوش کی قیمتیں اتنی کم ہوگئی ہیں کہ لوگ اپنے دسترخوان پر ایک کے بجائے دو دو اور تین تین سبزیوں کا لطف اٹھاسکتے ہیں۔لیکن سچائی تو یہ ہے کہ کاغذوں پر درج اعدادوشمار کا بازار کے عمومی ریٹ سے کوئی تعلق نہیں۔ آج کولکاتا میں پرول اور بھنڈی 80روپے، بند گوبھی 60روپے فی کلو گرام ،پتوں والی گوبھی ایک عدد 50روپے کی شرح سے فروخت ہورہی ہے۔ آلو 30 روپے کلو گرام اور پیاز 40روپے فی کلو گرام خریدنے پر لوگ مجبور ہیں۔کچھ یہی صورت موٹے غذائی اجناس کی بھی ہے، چاول ، دال حتیٰ کہ مصالحہ جات بھی خریدارکی رسائی سے دور ہیں۔
ہاں یہ ممکن ہے کہ تھوک بازار میںسامانوں کی قیمت کم ہوئی ہوتاکہ بازار میں نئے ذخیرہ کی جگہ نکالی جاسکے کیوں کہ اگلے ماہ خریف کی فصلوں کی کٹائی ہونی ہے اور ان کی نکاسی اور ذخیرہ کیلئے بازار میںجگہ کی ضرورت پڑتی ہے۔ لیکن خردہ مہنگائی اپنی جگہ برقرار ہے، عام آدمی کو اس میں ایک پیسہ بھی کمی کا تجربہ نہیں ہورہاہے۔کچھ عرصہ پہلے مہنگائی کیلئے کورونا وائرس ، پھر روس- یوکرین جنگ کا بہانہ بنایاجاتاتھا، اب فلسطین پر اسرائیلی حملہ کو مہنگائی کا جواز بتایاجارہاہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مودی حکومت نے حالیہ مہینوں میں مالیاتی پالیسی میں اصلاحات کی کوشش کی ہے جس میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں کمی اور چاول اور چینی کی برآمدات پر پابندیاں شامل ہیں لیکن مہنگائی 7 فیصد سے نیچے لانے میں اسے کامیابی نہیں مل سکی۔کئی حالیہ بین الاقوامی اندازوں کے مطابق افراط زر میں اضافہ اور بگڑتے مالی حالات کی وجہ سے ہندوستان میں مہنگائی پورے سال 7 فیصد رہنے کا اندازہ ظاہر کیا جاچکا ہے۔ان سب کے درمیان وزارت تجارت و صنعت اوراین ایس او کے اعداد و شمارپر یقین کرنا مشکل ہے۔بازار میں موجود مہنگائی کی صورتحال کے مدنظر تو یہ صریحاً دھوکہ، جھوٹ اور فریب محسوس ہورہے ہیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS