آزادی کے75برسوں بعد بھی ہندوستان میں قانون کی حکمرانی کا وہ تصور پیدا نہیں ہوپایا ہے جس سے کسی معاشرہ میں نظم و ضبط اور امن و امان قائم رکھاجاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ عوام قانون سے نابلد اور بالکل ہی بے شعور ہیں بلکہ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ قانون کے نفاذ میں یکساں رویہ اپنانے کے بجائے حکومتوں نے اپنی سیاسی بالا دستی قائم رکھنے کیلئے ان کہے طور پر جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے اصول کو ہی فروغ دیاہے ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لاٹھی کی طاقت رکھنے والے قانون سے بالاتر ہوگئے ۔مجرموں اور قانون شکنی کرنے والوںکی حوصلہ افزائی نے صورتحال کو یہاں تک پہنچا دیا ہے کہ ’ موقع پر انصاف‘ فراہم کرنے میں بھی اب عار محسوس نہیں کی جاتی ہے اور لاٹھی کی طاقت رکھنے والا یہ گرو ہ عین قانون کی ناک کے نیچے اپنے سے کمزورافراد کو نہ صرف پیٹ پیٹ کر مار ڈالتا ہے بلکہ زندہ جلاڈالنے کو بھی عین قانون سمجھنے لگا ہے ۔ستم ظریفی تو یہ بھی ہے کہ جن کے ذمہ قانون نافذ کرنا ہے، وہ خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہتے ہیں ۔
جھارکھنڈ کے سم ڈیگا میں انسان نما وحشیوں کی جس بھیڑ نے سنجو پردھان نام کے نوجوان کوپیڑ کاٹنے کے ’جرم‘ میں گھر سے باہر نکال کر مارا پیٹا اوراسے زندہ جلا ڈالاتھا، آج اس کی بیوہ نے الزام لگایا ہے کہ یہ سارا واقعہ پولیس کی موجودگی میں پیش آیا اور پولیس خاموش تماشائی بنی کھڑی رہی، اس نے نہ تو اس کے شوہر کو بچانے کی کوئی کوشش کی اور نہ ہی بعد میں بھیڑ کو اکسانے اوراشتعال دلانے والوں کو فوری طور پر گرفتار ہی کیا۔مقتول کی بیوہ سپنا دیوی کاکہنا ہے کہ 500 سے زیادہ لوگوں نے سنجو پردھان کو پتھروں اور لاٹھیوں سے پیٹ پیٹ کر زخمی کیا اور پھراسے زندہ جلا دیا۔سپنا کا کہنا ہے کہ واقعہ کے دن پولیس پہلے سے ہی گاؤں میں موجود تھی۔ پولیس کی موجودگی میں ہی ہجومی تشددکا یہ شرم ناک واقعہ ہوا اوروہ پولیس والوں کے سامنے منتیں کرتی رہی لیکن کسی پولیس والے نے اس کی مدد نہیں کی۔
جھارکھنڈ میں ہجومی تشدد کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے، اس سے قبل بھی کئی ایسے شرم ناک واقعات پیش آچکے ہیں اور پولیس انتظامیہ پر لاپروائی کے بھی سنگین الزامات لگتے رہے ہیں ۔ اسی جھارکھنڈ میںدو سال قبل تبریز انصاری نام کا ایک نوجوان بھی ہجوم کی بھینٹ چڑھ چکا ہے ۔ تبریز انصاری کو ہجوم نے چوری کی سزا دینے اور’ جے شری رام ‘ اور ’جے ہنومان‘ کاورد نہ کرنے کے ’ جرم‘ میں موقع پر ہی انصاف فراہم کرنے کیلئے ایک کھمبے سے باندھ کر بری طرح زدو کوب کیاتھا اور اتنا پیٹا تھا کہ زخموں کی تاب نہ لاکر اس نے دم توڑ دیا تھا۔ اس کے بعد بھی کئی ایک واقعات پیش آئے جس کے بعد جھارکھنڈ کی حکومت سرگرم ہوئی اور اس نے انسدادہجومی تشدد قانون بنانے کاڈول ڈالا۔ریاست کی قانون ساز اسمبلی میںدسمبر2021 کے آخری دنوں میں بل بھی پیش کیاگیا جو بھارتیہ جنتاپارٹی کی مخالفت کے باوجود پاس ہوگیا، اب وہ قانون کی شکل میں نافذ ہونے کا منتظر ہے۔
ہجومی تشدد صرف اکیلے جھارکھنڈ کا ہی مسئلہ نہیں ہے بلکہ ملک کی کئی ریاستوں میں ایسے سنگین واقعات مسلسل پیش آرہے ہیں جن سے قانو ن کی حکمرانی پر سوال اٹھ رہے ہیں ۔ گزشتہ چند سالوں میں تو ان واقعات کی تیز رفتاری نے سماجی اور معاشی طور پر استحصال زدہ طبقوں اور پسماندہ طبقوں میں خوف کا ماحول پیدا کر دیا ہے۔حیرت کی بات تو یہ بھی ہے کہ2015سے نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو(این سی آربی) نے ہجومی تشدد کے معاملات سے متعلق کوئی ڈیٹا بھی مرتب نہیں کیا ہے لیکن اس حوالے سے مختلف آزاد اور رضاکار تنظیموں کے جمع کردہ اعدادوشمار انتہائی دلخراش حالات کا اشارہ دیتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود حکومتیں اس کی روک تھام کیلئے سخت قدم اٹھانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی ہیں، جس سے مجبور ہوکرہی سپریم کورٹ نے ہجومی تشدد کو ’خوفناک فعل‘ قرار دیتے ہوئے مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتوں کو قانون بنانے کی ہدایت دی تھی۔ زیادہ تر ریاستوں نے تو اس پر کوئی توجہ ہی نہیں دی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ مرکزی حکومت نے بھی اس سلسلے میںاب تک کوئی پہل نہیں کی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہجومی تشدد کے ان واقعات میں مسلسل اضافہ ہورہاہے ۔
یہ صورتحال ملک میں امن و امان اور قانون کی حکمرانی کیلئے سنگین چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے اور اس سے نمٹنا حکومت کی پہلی اور بنیادی ترجیح ہونی چاہیے۔ ہندوستان کے آئین کی دفعہ21ہر شخص کو جینے کا حق دیتی ہے اور یہ حق جتنا لاٹھی کی طاقت رکھنے والوں کا ہے، اتنا ہی کمزوروں اور بے نوالوگوں کا بھی ہے۔ اس حق کا تحفظ کرنا حکومت کابنیادی فرض ہے۔ سیاسی مصلحتوں کی آڑ میں اس فرض سے چشم پوشی لوگوں میں عدم تحفظ اور خوف کا احساس پیدا کرے گی جومعاشر ہ میں بدنظمی اور انارکی کا سبب بنے گا۔اس صورت حال کو فقط ’قانون سازی ‘، ’قانون کا یکساں نفاذ ‘ اور ’قانون کی حکمرانی ‘سے ہی قابو میں کیاجاسکتا ہے ۔
[email protected]
ہجومی تشدد
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS