بلی بائی: تعلیم یافتہ مسلم خواتین کے افکار پر نکیل ڈالنے کی کوشش

0

عبدالماجد نظامی
ہندوستان کا ریکارڈ خواتین یا بچیوں کے تحفظ کے سلسلہ میں قابل ستائش کبھی نہیں رہا ہے۔ رحم مادر سے ہی ان کے قتل کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ جو پیدا ہوجاتی ہیں ان کے ساتھ ان کے اپنے گھر میبلی بائی: تعلیم یافتہ مسلم خواتین کے افکار پر نکیل ڈالنے کی کوشش ں ہی جنس کی بنیاد پر بھیدبھاؤ اول دن سے شروع ہوجاتا ہے، معاملہ خواہ تعلیم و صحت کا ہو یا زندگی کے دیگر میدانوں میں ترقی و تعاون کا، بچیوں کے ساتھ دوہرا معیار برتا جانا عام بات ہے جس کی وجہ سے سماج میں زبردست عدم توازن پیدا ہوچکا ہے۔ مختلف سرویز میں کئی ریاستوں کے اندر مردوں کے مقابلہ میں خواتین کی تعداد حیرت انگیز حد تک کم پائی گئی ہے جس کے سنگین نتائج سامنے آتے رہتے ہیں۔ سسرال والوں کی جانب سے بہوؤں پر لڑکے پیدا کرنے کا اس قدر نفسیاتی دباؤ ہوتا ہے کہ اس کا اندازہ صرف ایک عورت ہی کرسکتی ہے۔ لڑکی کی پیدائش پر کئی گھروں میں ماتم کا ماحول سا تیار ہوجاتا ہے گویا وہ خوشیوں اور رحمت کا ذریعہ نہیں کوئی زحمت ہو۔ یہ بیٹی جیسی اس عظیم نعمت کی شدید ناقدری ہے جس کو اللہ پاک نے نہایت باعث برکت و رحمت بنایا ہے۔ لڑکیوں کے ساتھ اس غیر انسانی بھیدبھاؤ میں ہر طبقہ کے لوگ شامل ہیں۔ شادی کے بعد بھی جہیز کے مطالبہ کے نام پر انہیں زد و کوب کیا جاتا ہے اور کئی موقعوں پر بے رحمی کے ساتھ انہیں نذر آتش بھی کر دیا جاتا ہے۔ گویا گھر بار سے لے کر اسکول و کالج اور کام کی جگہوں تک ہر مقام پر خواتین کو بڑی قیمت چکانی پڑتی ہے اور انہیں سماج میں اپنی جگہ بنانے کے لیے بڑی جرأت و ہمت اور صبر و استقامت کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔
ایسے سماجی پس منظر میں اگر نفرت کی سیاست کا پہلو بھی شامل ہوجائے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ خواتین کے لیے سماج میں ایک باوقار شہری کے طور پر زندگی گزار پانا کس قدر دشوار ہو جائے گا۔ ہم ماضی میں اس ملک کے سیاست دانوں کی زبانی خواتین کے خلاف غیرمہذب تبصرے اور بھونڈے بیانات سیکڑوں دفعہ سن چکے ہیں۔ ان میں وہ خواتین بھی شامل ہیں جو سیاست میں اپنا مقام بنا چکی ہوتی ہیں۔ جدید ہندوستان کی تاریخ میں مایاوتی اور ممتابنرجی کے ساتھ جو بدسلوکیاں ہوئی ہیں وہ ہمارے سامنے ہیں۔ ہمارے ملک کی سیاست میں خواتین کی نمائندگی کو ہر سطح پر گھٹانے کی جو کوشش لگاتار جاری رہتی ہے، اس کی زندہ مثال یہ ہے کہ ابھی تک پارلیمنٹ میں انہیں33فیصد نمائندگی حاصل نہیں ہوپائی ہے۔ زندگی کے دیگر میدانوں میں ان کے ساتھ جو سوتیلا برتاؤ روا رکھا جاتا ہے وہ اس پر مستزاد ہے۔اب آتے ہیں حالیہ فرقہ پرست نفرت کی اس انتہا کی طرف جس نے خواتین کی مجموعی صورتحال میں بھی فرقہ ڈھونڈ نکالا اور سوشل ایپ کے ذریعہ مسلم خواتین کو ہدف توہین بنایا۔ بجاطورپر کہاجا سکتاہے کہ شاہین باغ تحریک میں قومی میڈیا کی طرف سے مسلم عورتوں کو500روپے میں بیچنے کی تشہیر کا اثر ہے ’بلی بائی‘۔ عورتوں کو ہدف بنا کر کمیونٹی کو نچلی سطح تک بدنام کرنے کی سوشل میڈیا کی سازش ہے یہ ’بلی بائی‘۔ دھرم سنسد میں مسلمانوں کے خلاف جہاد کے اعلان کے بعد اس طرح کی نقلی آن لائن نیلامی کا سیدھا مطلب ہے ملک کو سول وار کی طرف دھکیلنا، جس کا اشارہ لال کرشن اڈوانی نے بھی دیا تھا۔
مسلم خواتین کے ساتھ جس بدسلوکی اور بدتہذیبی بلکہ گھناؤنے پن کا برتاؤ سلّی ڈیلس اور بلی بائی کے ذریعہ کیا گیا ہے، اس سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ ہندوستانی معاشرہ خواتین کے تئیں عمومی طور پر اور اقلیتی طبقہ کی خواتین کے تئیں خصوصی طور پر نہایت بے رحم اور بدتمیز واقع ہوا ہے۔ سلی ڈیلس اور بلی بائی سے قبل اترپردیش کے حالیہ وزیراعلیٰ کا مسلم خواتین کے بارے میں جو نفرت انگیز بیان ماضی میں آچکا ہے، اس سے ہر مہذب شخص کا سر شرم سے جھک جائے گا۔ اس تاریخی پس منظر کے پیش نظر یہ بالکل تعجب کی بات نہیں ہے کہ بلی بائی سے قبل سلی ڈیلس معاملہ میں ان مشتبہ ملزموں کو گرفتار کرنے کی سنجیدہ کوشش اترپردیش اور دہلی پولیس نے نہیں دکھائی، جنہوں نے تقریباً سو مسلم خواتین کی نقلی آن لائن نیلامی جیسے بیہودہ اور مجرمانہ عمل کا ارتکاب کیا تھا۔ اگر نوئیڈا اور دہلی پولیس نے سلی ڈیلس معاملہ کو حل کرنے میں ممبئی پولیس کی طرح اپنی پیشہ ورانہ صلاحیت اور ذمہ داری کا ثبوت دیا ہوتا اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا ہوتا تو آج بلی بائی کی شکل میں دوسری بار مسلم خواتین کو اس ذہنی عذاب سے نہیں گزرنا پڑتا، جس کا سامنا انہیں اس نئے سال کے آغاز کے پہلے دن ہی کرنا پڑا۔ مسلم خواتین کے ساتھ جو گھناؤنا اور قابل مذمت برتاؤ کیا جا رہا ہے، وہ محض کم عمر نوجوانوں کی شرارت کا حصہ نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے ایک خاص قسم کی آئیڈیالوجی کارفرما ہے جسے سیاسی پشت پناہی حاصل ہے۔ دراصل مسلم خواتین نے سی اے اے مخالف ملک گیر پرامن اور جمہوری عوامی تحریک کو جس طرح کھڑا کیا تھا اور پوری کامیابی کے ساتھ اس کو کئی مہینوں تک چلایا تھا، اس سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ مسلم خواتین میں اس کی پوری صلاحیت موجود ہے کہ وہ اپنے دستوری حقوق کی بحالی کی خاطر تحریک چلائیں اور دنیا بھر کی توجہ اپنی جانب مبذول کرلیں۔ جب وہ بولیں تو دنیا کے صحافی، تجزیہ نگار اور دانشوران ان کی دلیلوں کو غور سے سنیں اور ان پر اپنی آراء پیش کریں۔ یہ بات قابل فکر ہے کہ آخر انہی مسلم خواتین کو نشانہ کیوں بنایا گیا جو اپنے بے لاگ تبصروں اور بیباک فکر و نظر کے لیے معروف ہیں؟ دراصل مسلم مخالف نظریہ کے حامل عناصر نے یہ محسوس کر لیا ہے کہ اگر ان مسلم خواتین کو خاموش نہیں کیا جا سکا تو پھر ہندوستان میں مسلم اقلیت کو ان کی حد میں رکھ پانا مشکل ہوگا۔ انہیں مسلم خواتین کی قوت استدلال اور ان کی سیاسی و سماجی سوجھ بوجھ سے خوف آتا ہے اور اسی لیے انہیں ذلیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ دوسری مسلم خواتین بھی ڈر جائیں اور مسلم اقلیت کے خلاف روا رکھے جانے والے ظلم و ناانصافی اور غیر انسانی برتاؤ کے خلاف اپنی آواز اٹھانا بند کر دیں۔ شاہین باغ تحریک کے موقع پر بھی ہم ایسی اوچھی حرکتوں کا مشاہدہ کرچکے ہیں۔ جن تین نوجوانوں کی گرفتاریاں عمل میں آئی ہیں، ان سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کی عمومی فضا ملک بھر میں قائم کرنے کا کتنا گہرا اثر پڑا ہے کہ کم عمر نوجوان اپنے مستقبل کو بہتر بنانے کا خاکہ تیار کرنے کے بجائے مسلم اقلیت کی تباہی کا پلان بنانے میں مصروف ہوگئے ہیں۔ یہ ہندوستان کی بقاء کے لیے شدید خطرہ ہے اور پورے ملک کے ماحول کو بگاڑنے اور خانہ جنگی کا ماحول پیدا کرنے جیسا سنگین جرم ہے جس کے لیے انہیں قرار واقعی سزا دی جانی چاہیے۔ جو لوگ ایسے مبینہ ملزموں کے ساتھ رواداری کی وکالت کر رہے ہیں وہ در اصل جرم کی نوعیت اور اس کی سنگینی سے بالکل نابلد ہیں۔
(مضمون نگار راشٹریہ سہارا اردو کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS