پرُبہارموسم میں عظمت والی رات

0

عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ

شب قدر کو ‘‘قدر’’کیوں کہاجاتا ہے،حضرت عبداللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ اس رات میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک سال کی تقدیر اور اہم فیصلوںکا قلم دان فرشتوں کو سونپا جاتا ہے اس وجہ سے یہ لیلۃ القدر کہلاتی ہے ۔اس سلسلہ میں امام زہری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیںکہ ’’قدر‘‘ کے معنی ‘‘مرتبہ’’ کے ہیں چونکہ یہ رات باقی راتوں کے مقابلے میں شرف و مرتبہ کے لحاظ سے بلند ہے، اس لئے اسے لیلۃ القدر کہا جاتا ہے ۔ لفظ قدر تنگی کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ، اس معنی کے لحاظ سے اسے قدر والی کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس رات آسمان سے زمین پر اتنی کثرت کے ساتھ فرشتوں کا نزول ہوتا ہے کہ زمین تنگ ہوجاتی ہے (تفسیر الخازن)۔شب قدر کی عظمت ومنزلت،اس کی اہمیت وفضیلت بتلانے کے لئے اتناہی کافی ہے کہ اللہ تعالی نے اس کی شان میں قرآن مجید کی ایک مکمل سورت نازل فرمائی ہے۔حضرت کعب احبارؓفرماتے ہیں :اللہ تعالیٰ نے رات اور دن کی کچھ ساعتوں کو منتخب کرکے اُن میں سے فرض نمازیں بنائیں، اور دنوں کو منتخب کرکے اُن میںسے جمعہ بنایا ،مہینوںکو منتخب کرکے اُن میںسے رمضان کا مہینہ بنایا، راتوں کو منتخب کرکے اُن میںسے شبِ قدر بنائی اور جگہوں کو منتخب کرکے اُن میںسے مساجد بنائی(شعب الایمان:3363)۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا’’جو شخص شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے (عبادت کے لئے )کھڑا ہوا، اس کے پچھلے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں‘‘(بخاری ومسلم)۔

جتنی دیر جاگنے کا ارادہ ہے، اُس کے تین حصے کرلیے جائیں۔ ایک حصہ میں نوافل پڑھے ،ایک حصہ میں تلاوت کلام اللہ میں مشغول رہے اور ایک حصہ استغفار، درود شریف، دعا ء اور ذکر اللہ میں گزادے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے’’ جو کتاب آپ پر وحی کی گئی ہے آپ اُس کو پڑھا کیجیے، نمازکی پابندی رکھیے! بیشک نمازبے حیائی اور ناشائستہ کاموں سے روکتی ہے اور اللہ کی یاد بہت بڑی چیزہے‘‘(العنکبوت)

احادیث مبارکہ میں اس شب کو رمضان المبارک بالخصوص آخر ی عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرنے کی ترغیب وارد ہوئی ہے۔رحمتوں اور برکتوں کے اس باغ وبہارموسم میں کچھ ایسے حرماں نصیب اور خائب و خاسر لوگ بھی ہوتے ہیں جو اپنے گناہوں کی پاداش میں شبِ قدرجیسی عظیم اور بابرکت رات کی فضیلتوں کے حصول سے اور بالخصوص مغفرت ِ خداوندی سے محروم رہ جاتے ہیں۔ وہ کون لوگ ہیں ؟ حدیث میںاُن کی نشان دہی کی گئی ہے۔حضرت ابن عباس ؓسے نبی کریمؐ کا یہ اِرشاد مَروی ہے کہ شبِ قدر میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے فرشتے زمین پر اُترتے ہیں اور ساری رات عبادت میںمشغول لوگوں سے سلام و مصافحہ کرکے اُن کی دعاؤں پر آمین کہتے ہوئے رات گزار کر صبح جب واپسی کا وقت ہوتا ہے تو حضرت جبریل سے دریافت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے امّتِ محمدیہ کے مومنوں کے ساتھ اُن کی ضروریات کے پورا کرنے کے بارے میں کیا معاملہ فرمایا؟ حضرت جبریل فرماتے ہیں’’اللہ تعالیٰ نے اِس شبِ قدر میں ایمان والوں پر نظرِ رحمت فرمائی اور چار اَفراد کے علاوہ سب کے ساتھ درگذر اور مغفرت کا معاملہ فرمادیا‘‘۔یہ سُن کر حضرات صحابہ کرام نے سوال کیا کہ وہ کون افراد ہوں گے ؟تو آپؐ نے اِرشاد فرمایا:شراب کا عادی ، والدین کا نافرمان ،رشتہ قطع کرنے والااور کینہ پَروَر۔(شعب الایمان : 3421)۔

حضرت ابن عباس ؓسے نبی کریمؐ کا یہ اِرشاد مَروی ہے کہ شبِ قدر میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے فرشتے زمین پر اُترتے ہیں اور ساری رات عبادت میںمشغول لوگوں سے سلام و مصافحہ کرکے اُن کی دعاؤں پر آمین کہتے ہوئے رات گزار کر صبح جب واپسی کا وقت ہوتا ہے

(1)شراب کا عادی:شراب جس کو ”اُمّ الخبائث“یعنی تمام بُرائیوں کی جڑ کہا گیاہے ، قرآن کریم میںاللہ تعالیٰ نے اسے ”رِجْسٌ“ یعنی گندگی قرار دیا ہے۔یہی شراب متعددگناہوں کاسرچشمہ اور کئی ایک معاصی کامقدمہ ہے ۔ اِس گندگی اور نجاست کا عادی اِس رات کی مغفرت سے محروم رہتا ہے ۔
(2)والدین کا نافرمان:والدین کے ساتھ حُسنِ سلوک کی اتنی زیادہ اہمیت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میںکئی مقامات پر شرک سے منع کرتے ہوئے والدین کے ساتھ حُسنِ سلوک کی تعلیم و تاکید فرمائی ہے ۔ اِس سے اِس حکم کی اہمیت وعظمت کا کسی قدر اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بد بخت اور حِرماں نصیب شخص جس نے والدین کے ساتھ بدسلوکی کی ہو اور اُن کی آہیں اور بددُعائیں لی ہو ںایسا شخص اِس عظیم اور مُبارک رات مغفرتِ خداوندی سے محروم رہ جاتا ہے ۔
(3)قطع رحمی، یعنی رشتے داروں سے تعلق توڑنے والا:اللہ تعالیٰ نے انسان کے وجود کے ساتھ کچھ رشتے وابستہ کر رکھے ہیں جن کے ساتھ انسان کو حسنِ سلوک کی تعلیم دی گئی ہے جوشخص اُن کے حقوق کو پامال کرکے بدسلوکی کا مُرتکب ہوتا ہے وہ ”قاطعِ رحم“کہلاتا ہے ،جس کے لیے قرآن و حدیث کے اندر بڑی سخت وعیدیں اور عذاب بیان کیاگیاہے۔ اِس لئے اِس گناہ سے بہرصورت بچنے کی کوشش کرنی چاہیے ورنہ شبِ قدر جیسی عظیم رات میں بخشش سے محرومی ہوجاتی ہے ۔
(4)آپس میں بغض و کینہ رکھنے والا:دل میں کسی کی دشمنی کو لے کر اُس کو نقصان پہنچانے کے لئے کوشاں رہنا کینہ کہلاتا ہے جس کی قرآن و حدیث میں جگہ جگہ مذمت بیان کی گئی ہے ۔حدیث شریف کے مطابق ایسے شخص کی بھی اس مُبارک رات میں مغفرت نہیںہوتی۔اِس لئے مؤمن کو چاہیے کہ اپنے دل کو ہر طرح کی گندگی سے پاک رکھے ۔
مناسب ہے کہ جتنی دیر جاگنے کا ارادہ ہے، اُس کے تین حصے کرلیے جائیں۔ ایک حصہ میں نوافل پڑھے ،ایک حصہ میں تلاوت کلام اللہ میں مشغول رہے اور ایک حصہ استغفار، درود شریف، دعا ء اور ذکر اللہ میں گزادے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے’’ جو کتاب آپ پر وحی کی گئی ہے آپ اُس کو پڑھا کیجیے، نمازکی پابندی رکھیے! بیشک نمازبے حیائی اور ناشائستہ کاموں سے روکتی ہے اور اللہ کی یاد بہت بڑی چیزہے‘‘(العنکبوت)اس آیت کریمہ میں اِن ہی تین عبادتوں: نماز، تلاوتِ کلام اللہ اور ذکر اللہ کوایک جگہ جمع فرما دیا گیاہے ۔اللہ تعالی ہمیں شب قدر کی مقبول عبادت نصیب فرمائے ۔
nnn

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS