ٹھوس اقدامات کی ضرورت

0

وطن عزیز ہندوستان میں کورونا کے تیور ڈھیلے پڑتے نظر نہیں آ رہے ہیں۔ کل بھی متاثرین کی تعداد چار لاکھ سے زیادہ تھی۔ متاثرین کی مجموعی تعداد ایک کروڑ سے زیادہ ہو چکی ہے۔ روزانہ سب سے زیادہ اموات اپنے وطن میں ہی ہو رہی ہیں۔ اس کے باوجود ایسا نظر نہیں آتا کہ آکسیجن کی کمی کا مسئلہ حل کر لیا گیا ہے، جزوقتی نئے اسپتال بنانے کی تیاری جنگی پیمانے پر کی جا رہی ہے،سبھی پارٹیاں انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے ٹھوس اقدامات کر رہی ہیں۔ ایک سے زیادہ لیڈران پچھلے کئی برس سے ریاستوں کے وزیراعلیٰ ہیں۔ مثلاً: بہار میں نتیش کمار اور مدھیہ پردیش میں شیو اج سنگھ چوہان کو وزیراعلیٰ رہتے ہوئے ایک دہائی سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے مگر وہاں کے حالات کیا ہیں؟ بہار سے خبر یہ آتی ہے کہ خدابخش اوریئنٹل لائبریری کے ایک حصے کو توڑ کر ایک ایلی ویٹیڈ سڑک ادھر سے گزاری جائے گی تاکہ پٹنہ میڈیکل کالج کو 5462 بیڈ کا ہندوستان کا سب سے بڑااسپتال بنایا جائے تو وہاں تک آنے جانے میں آسانی ہو مگر یہ تو مستقبل کی باتیں ہیں۔ موجودہ صورت حال کیا ہے؟ وہ لوگ جو جانتے ہیں کہ ایک دن مر جانا ہے، خوف انہیں مرنے کا نہیں ہے، خوف انہیں یہ ہے کہ طبیعت خراب ہو گئی تو علاج کہاں سے کرائیں گے، مہنگا علاج کرانے کے لیے روپے کہاں سے لائیں گے، آکسیجن کا انتظام خود ہی کرنا ہوگا تو کہاں سے کریں گے؟ مگر حکومتوں کو یہ کون سمجھائے کہ بھوج کے وقت کونہرانہیں روپا جاتا۔تیاری پہلے سے کی جاتی ہے۔ 2020 میں حکومتوں کے لیے یہ کہنے کا جواز تھا کہ انہیں تیاری کا موقع نہیں ملا، ورنہ حالات وہ سنبھال ہی لیتے۔ ایک سال بعد وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ انہیں تیاری کا موقع نہیں ملا، کیونکہ یہ بات شروع سے کہی جا رہی ہے کہ کورونا آتو گیا ہے مگر جائے گا اتنی جلدی نہیں۔ اسے جانے میں وقت لگے گا،اس سے نمٹنے کی تیاری کیے بغیر اس پر قابو پانا ممکن نہیں لیکن حالت یہ ہے کہ 30 اپریل کو بہار کے چیف سکریٹری ارون کمار سنگھ کی پٹنہ کے پرائیویٹ اسپتال میں کورونا کی وجہ سے موت ہو گئی۔ اگر پٹنہ کے پاس اچھے سرکاری اسپتال ہوتے تو ارون کمار کو پرائیویٹ اسپتال میں کیوں جانا پڑتا؟ وہ علاج کے لیے گئے۔ ان کے گھر والوں کو کسی حد تک یہ اطمینان ہوگا کہ انہیں طبی سہولتیں ملیں لیکن غریب آدمی علاج کے لیے کہاں جائے گا؟ پرائیوٹ اسپتالوں میں علاج کرانے کے لائق اس کے پاس رقم ہے نہیں اور کتنے سرکاری اسپتال اس لائق ہیں کہ وہاں بڑی تعداد میں مریض اطمینان بخش علاج کرا سکتے ہیں، کسی طرح کی پریشانی انہیں نہیں ہوگی؟
مصیبت کے وقت لیڈر کی پرکھ ہوتی ہے اور یہ دیکھا جاتا ہے کہ سسٹم کتنا مستحکم ہے۔ بیشتر لیڈروں نے ابھی تک یہی دکھایا ہے کہ ان کے لیے لوگوں کی اہمیت تو ہے مگر انتخابات میں بھیڑ جٹانے کے لیے اور اس بھیڑ کو اپنے حق میں ووٹوں میںبدلنے کے لیے ۔ وہ جیتنے کے بعد سسٹم کی خامیوں کے لیے جواب دہ بننے کے لیے تیار نہیں ہوتے، ان کا انداز ایسا ہوتا ہے جیسے وہ الگ ہیں اور سسٹم الگ ہے۔ ایسی صورت میں ہمارے کورٹس بالخصوص ہائی کورٹس حالات پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ روز ہی کسی نہ کسی ہائی کورٹ سے کسی حکومت کی سرزنش کرنے یا کسی کمی پر ناراضگی کا اظہار کرنے والی خبر آجاتی ہے۔ اس سے لوگوں کو کسی حد تک اطمینان ہوتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ کب تک اطمینان ہوگا؟ ہائی کورٹوں کو اگر کوئی بات غلط نظر آتی ہے تو اس پر مسلسل سنوائی کرکے فیصلہ کیوں نہیں سناتے تاکہ ایک نظیر قائم ہو اور ذمہ دار لوگوں کو یہ احساس ہو کہ عدالت ان کی سرزنش ہی نہیں کرے گی، انہیں سزا بھی دے گی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ذمہ دار اداروں نے اگر واضح مؤقف اختیار نہ کیا تو پھر لوگوں کا اعتماد ان پر سے ہی نہیں ہٹے گا، جمہوری نظام پر سے بھی ہٹ جائے گا۔ ایسی صورت حال نہیں آنے دینا چاہیے مگر افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ ملک اسی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ لوگ کسی لیڈر سے مدد مانگنے کے بجائے اپنے ہی کسی ساتھی سے مددکے لیے کہتے ہیں اور مدد کرنے والے دل کھول کر مدد کر رہے ہیں، بلاتفریق مذہب و ملت مدد کر رہے ہیں، یہ دیکھے بغیر مدد کر رہے ہیں کہ ضرورت مند کا تعلق کس خطے، کس مذہب، کس ذات سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شر پسند عناصر بار بار کوشش کر رہے ہیں مگر ہر بار حالات کو مذہبی منافرت کا رنگ دینے کی کوشش ناکام ہو رہی ہے۔ یہ بات امید بندھاتی ہے کہ ہندوستان کے لوگ کورونا سے ضرور خود کو بچانے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہیں مگر حالات انہیں مذہبی تعصب کو چھوڑنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ آنے والے وقت میں مذہبی سیاست کی گنجائش کافی کم ہو جائے تو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS