گورنر کا خط اور بنگال حکومت

0

مغربی بنگال اسمبلی انتخاب میں ہونے والی کراری ہاراور بڑے بولے پن کی ذلت آمیز ٹیس بی جے پی کو کسی کروٹ چین لینے نہیں دے رہی ہے۔ ریاست میں نظم و نسق کے حوالے سے نت نئے فسانے تراشے جارہے ہیں ‘ تل کو تاڑ اور رائی کو پربت بنانے کا کھیل زوروں پر ہے ۔ کوشش یہ ہے کہ نئی حکومت اپنے ترقیاتی ایجنڈہ پر کام کرنے کی بجائے سیاسی نوراکشتی میں الجھ کر رہ جائے۔ بی جے پی کی اس کوشش کو ریاست کے گورنر جگدیپ دھن کھڑ بھی اپنی سطح سے تقویت پہنچارہے ہیں ۔ اسمبلی انتخاب کے نتائج آنے کے بعد سے گورنر کا رویہ کسی آئینی سربراہ کی بجائے حزب اختلاف کے رہنما کا ہوگیا ہے ۔ مسلسل کئی دنوں سے وہ ایسے بیانات دے رہے ہیں جن کی توقع کسی ریاست کے گورنر سے نہیں کی جاسکتی ہے ۔اس سلسلہ کو طول دیتے ہوئے گزشتہ دنوں انہوں نے وزیراعلیٰ ممتابنرجی کو ایک سخت خط لکھا۔ خط میں ریاست کی پولیس اور انتظامیہ سے اپنی سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریاست کے نظم و نسق پر سوال اٹھائے اورکہا کہ مغربی بنگال میں حالات پہلے کبھی اتنے خراب نہیں تھے ۔ گورنر نے اپنے اس خط میں تیسری بار ریاست کی کمان سنبھالنے والی وزیراعلیٰ ممتابنرجی سے سوال کیا ہے کہ وہ انتخاب کے بعد ہونے والے مبینہ تشدد پر خاموش کیوں ہیں؟ مغربی بنگال میں آزادی کے بعد حالات اتنے خراب نہیں ہوئے جتنے کہ فی الوقت ہیں۔ ریاست کی خواتین میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوگیا ہے۔ ‘ حزب اختلا ف کے لوگوں کو تشدد کا سامنا ہے ۔ ان سب معاملات پر انہوں (گورنر) نے توجہ دلائی اس کے باوجود حالات بے قابو ہوتے جارہے ہیں۔ ان سب معاملات پر آپ (وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی) کی خاموشی حیرت انگیز ہے ۔ گورنر نے اپنے خط میں یاس طوفان کے متاثرین کا مسئلہ بھی اٹھایا ۔
خط لکھنے کے بعد شاید وہ بھول گئے وہ نہ توتشدداور یاس طوفان متاثر ہیں اورنہ ہی انسانی حقوق کے کارکن اور نہ ہی حزب اختلاف کے رہنما ‘ وہ مغربی بنگال کے گورنر اور ریاست میں آئینی سربراہ ہیںبا وجود اس کے ا نہوں نے اپنا خط سوشل میڈیا پر بھی پوسٹ کردیا اور پھر اس کے بعد دہلی پروازکرگئے ۔ ہندوستان کی جمہوری تاریخ میں غالباً یہ پہلا ایسا واقعہ ہے جب کسی ریاست کا گورنر اپنے دفتر ی کام کاج اور خط و کتابت کو سیاسی کارکن کی طرح عام کیاہو۔ اس خط کا ردعمل وہی ہوا جو ہونا چاہئے تھا۔ریاستی حکومت نے اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ گورنر کاخط حقائق سے پرے جانبداری پر مبنی ہے ۔ ریاست کی وزیراعلیٰ کو گورنر کی جانب سے خط لکھنے کے بعد اسے گورنر کی ہی جانب سے عام کردیاجانا، خط و کتابت کے اخلاقیات کے منافی اور اصولوں کی خلاف ورزی ہے ۔ خط میں یک طرفہ حقائق بیان کرکے حکومت کو بدنام کرنے کی کو شش کی گئی ہے۔گورنر نے تشدد کے جن واقعات کوحکومت کے سر ڈالنے کی کوشش کی ہے وہ سارے ہی واقعات انتخاب کے دوران پیش آئے تھے اور اس کے لئے ذمہ دار الیکشن کمیشن ہے کیوں کہ کمیشن کی نگرانی میں ہی لااینڈ آرڈر کا نظام تھا۔جب کہ ممتا بنرجی کے ذریعہ تیسری مرتبہ کیلئے اقتدار سنبھالنے کے بعد حالات کو قابو کرنے، سماج دشمن عناصر کو کنٹرول کرنے کے لئے حکومت نے سخت کارروائی کی ہے۔
جگدیپ دھن کھڑ کو ریاست میں گورنر کی حیثیت سے تقریباً 2 سال گزرچکے ہیں ۔ راج بھون میں قدم رنجہ فرماتے ہی انہوں نے کہاتھا کہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ مرکز کے نامزد گورنر کے اختیارات کیاہوتے ہیں ‘ ان اختیار ات کی آئینی حد کیا ہے ۔ گورنر اور ریاست کے وزیراعلیٰ کے مابین کس طرح کا تعلق ہوتا ہے ،لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ان دو برسوں میں انہوں نے خود ہی آئینی حدود کو بارہا فراموش کیا اورا یسا رویہ اپنا یا جس کی توقع کسی آئینی سربراہ سے نہیں کی جاسکتی ہے ۔گورنر جگدیپ دھن کھڑ نے درجنوں پریس کانفرنس کیں اور حکومتی اقدامات پر کھل کر نکتہ چینی کے ساتھ ساتھ ریاستی کابینہ کے مختلف ارکان اور سرکاری انتظامیہ کے اعلیٰ حکام پر براہ راست حملہ کیا ۔ کئی بار انہوں نے وزیراعلیٰ کوخط لکھا‘ایس ایم ایس بھیجااور یہ ساری باتیں وہ میڈیا میں دیتے رہے اور یک طرفہ حقائق بیان کرکے ریاستی حکومت کی راہ میں کانٹے بچھاتے رہے ۔خاص طور سے اسمبلی انتخابات کے بعدا نہوں نے جو رویہ اختیار کیا ہے وہ آئینی حدود اور اختیار ات سے ماورا ہے ۔حالیہ دنوں نے انہوں نے بھارتیہ جنتاپارٹی کے اراکین اسمبلی کے ساتھ مل کر باقاعدہ حکومت کے خلاف پریس کانفرنس بھی کی۔
وفاقی نظام میں گورنر کا یہ قدم کسی بھی ریاست کے وزیراعلیٰ کو کسی بھی حال میں قبول نہیں ہوگا۔گورنر آئینی سربراہ کی بجائے مرکز میں حکمران سیاسی پارٹی کے عزائم کی تکمیل کیلئے سرگرم ہوجائے تو یہ صورتحال آئین کی سراسرتوہین ہو تی ہے ۔بنگال انتخاب ہارنے کے بعد اب بی جے پی ریاست کے گورنر کو اپنے سیاسی کارندے کے طور پر استعمال کررہی ہے اور گورنر بھی اپنے اس کردار سے خوش ہیں ۔ ان حالات میں ترنمول کانگریس کی رکن پارلیمنٹ مہوا مترا کی درخواست کہ گورنردہلی سے لوٹ کر واپس بنگال نہ آئیں کو غلط نہیں کہاجاسکتا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS