صبیح احمد
ہند-پاک رشتہ اک معمہ ہے ’سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔ ‘ا س کی گتھی جتنی سلجھانے کی کوشش کی جاتی ہے وہ اور بھی الجھ کر رہ جاتی ہے۔ ابھی حال ہی میں تجارتی روابط کی بحالی کے حوالے سے مثبت پیش رفت ہونے والی تھی کہ اچانک ہی ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا گیا۔ پاکستان کے نئے وزیر خزانہ حماد اظہر نے عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنی پہلی پریس کانفرنس میں یہ اعلان کر کے خطہ کے لوگوں کو ایک خوش کن اطلاع دی کہ پاکستان نے ہندوستان سے 5 لاکھ ٹن چینی اور کاٹن درآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس خبر سے ایسا لگ رہا تھا کہ شاید ایک بار پھر حکمراں خطہ کے مسائل کو حل کر کے امن کو ایک اور موقع دینا چاہتے ہیں اور یہ اس سلسلے میں پہلا قدم ثابت ہو سکتا ہے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ابھی اس خبر کی سیاہی بھی خشک نہ ہونے پائی تھی کہ فیصلہ اچانک تبدیل ہو گیا۔ حکومت پاکستان کی جانب سے فیصلہ آیا کہ ہندوستان کے ساتھ موجودہ حالات میں تجارتی تعلقات بحال نہیں کیے جائیں گے۔ یہ فیصلہ وزیر اعظم عمران خان کے زیر صدارت ہندوستان سے تجارتی روابط بحال کرنے سے متعلق مشاورتی اجلاس میں کیا گیا۔ اس سے قبل رواں ہفتہ وفاقی کابینہ نے وزارت تجارت کی تجویز پر اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کی ہمسایہ ملک ہندوستان سے کپاس اور چینی درآمد کرنے کی سفارش پر فیصلہ مؤخر کر دیا تھا۔ ای سی سی پاکستان کی کابینہ کی معاشی امور کے لیے بنائی گئی ذیلی کمیٹی ہے جس نے ہندوستان کے ساتھ بعض اشیا کی درآمد کی منظوری دی تھی۔ اس پورے معاملے کے حوالے سے مختلف حلقوں کی جانب سے تکنیکی طرح طرح کے جواز پیش کیے جا رہے ہیں۔ بہرحال حکومتی سطح پر فیصلہ سازی کا یہ طریق کار بہت انوکھا ہے۔ متعلقہ شراکت داروں اور وزارتوں سے مشاورت کے بغیر اتنا بڑا فیصلہ کیا گیا ہو اور پھر اسے 24 گھنٹے میں واپس لے لیا گیا ہو، ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ ملک کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی لائے بغیر اس قسم کے فیصلے نہیں لیے جاتے کیونکہ اس قسم کے فیصلے پالیسی فیصلے تصور کیے جاتے ہیں۔ اس قسم کے فیصلے بعض اوقات عوامی رد عمل کا جائزہ لینے کے لیے بھی کیے جاتے ہیں، تاہم یہ غور و فکر اور متعلقہ حلقوں سے مشاورت کے بغیر نہیں ہوتا۔
دونوں ملکوں کے صنعت کار جی جان سے چاہتے ہیں کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان اچھے تعلقات ہوں اور ان تعلقات کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان تجارت بحال ہو۔ لیکن ان جذبات اور ضروریات کی کس کو فکر ہے؟ بہرحال ابھی حال ہی میںپاکستان میں حکومتی فیصلوں کا راتوں رات 360 ڈگری پر بدل جانا یہ ثابت کرتا ہے کہ خطہ کی سیاسی بھٹی اب بھی اتنی گرم ہے کہ عوامی مفادات اس کی تپش قطعی برداشت نہیں کر سکتے۔
اگست 2019 میں ہندوستان کی جانب سے کشمیر کی آئینی حیثیت کو تبدیل کیے جانے کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تجارت معطل ہے۔ اس سے قبل پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تجارتی عمل جاری تھا اور دونوں ممالک 2 زمینی راستوں یعنی لاہور میں واگھہ اور پاکستان مقبوضہ کشمیر کے ذریعہ اشیا کی تجارت کرتے رہے ہیں۔ ہندوستان نے فروری 2019 میں پلوامہ حملے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے پاکستان سے پسندیدہ ملک کا درجہ واپس لے لیا تھا اور 200 فیصد درآمداتی ڈیوٹی عائد کردی تھی۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2018 میں ہندوستان کو پاکستان کی برآمدات کا محض 2 فیصد جبکہ اسی عرصہ میں ہندوستان کی پاکستان کو برآمدات کا حجم محض 3 فیصد رہا۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان اور ہندوستان کے درمیان دو طرفہ تجارت کا حجم 342 ارب روپے ہے جس میں سے پاکستان کی برآمدات کا حجم 56 ارب روپے کے آس پاس ہے۔ ہندوستان سے پاکستان میں سب سے زیادہ برآمد ہونے والی اشیا میں سبزیاں، کپاس، نامیاتی کیمیکل اور پلاسٹک وغیرہ شامل ہے۔ پاکستان سے ہندوستان آنے والی اشیا میں زیادہ حصہ تازہ پھلوں، سیمنٹ، پٹرولیم مصنوعات، معدنیات اور چمڑے کا ہے۔
یہ ایک عام سی بات ہے کہ کوئی بھی ملک کسی دوسرے ملک سے اپنی ضرورت کے مطابق ہی درآمدات و برآمدات کرتا ہے۔ اور جب ہندوستان اور پاکستان کا معاملہ ہو اور وہ بھی موجودہ حالات میں، تو ایسے فیصلے بہت سوچ سمجھ کر اور ناگزیر صورتحال میں ہی کیے جاسکتے ہیں۔ ا س لیے اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ پاکستان نے اپنی ضرورت کے مطابق ہی ہندوستان سے تجارتی روابط بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہوگا۔ اپنی پریس کانفرنس میں حماد اظہر نے یہ واضح بھی کر دیا تھا کہ چینی کی قیمتوں میں اضافہ کے پیش نظر پوری دنیا سے درآمد کی اجازت دی گئی لیکن باقی دنیا میں بھی چینی کی قیمتیں زیادہ ہیں جس کی وجہ سے درآمد ممکن نہیں ہے اور امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ رمضان میں چینی کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے جس کے پیش نظر اقتصادی رابطہ کمیٹی نے ہندوستان سے چینی درآمد کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔ البتہ ہندوستان میں چینی کی قیمت پاکستان کے مقابلے کافی کم ہے تو اسی لیے نجی شعبے کے لیے ہندوستان سے 5 لاکھ ٹن تک چینی کی تجارت کھولنے کا فیصلہ کیا گیا تاکہ یہاں سپلائی کی صورت حال بہتر ہوسکے اور جو معمولی کمی ہے، وہ پوری ہوجائے۔ انہوں نے کپاس کی درآمد کے حوالے سے بھی کہا تھاکہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں کے لیے ہندوستان سے تجارت بحال کی گئی ہے۔
اب یہ کہا جا رہا ہے کہ جب تک ہندوستان کشمیر کی حیثیت بحال نہیں کرتا اس وقت تک ہندوستان کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا ممکن نہیں۔ پاکستانی حکومت کے ایک اہم وفاقی وزیر فواد چودھری نے حالانکہ یوٹرن کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ ہندوستان سے چینی اور کاٹن منگوانے کا اقتصادی رابطہ کمیٹی کا فیصلہ ماہرین اقتصادیات کا تھا لیکن کابینہ میں سیاسی لوگوں کی نمائندگی تھی جنہوں نے اس فیصلے کو ملکی مفاد میں مؤخر کر دیا ہے۔ اس بیان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ خطہ کے عوام کی امنگوں اور جذبات کو کس طرح سیاسی بھٹی کی نذر کر دیا جاتا ہے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا ایک ویڈیو بیان میں کہنا تھا کہ یہ تاثر ابھر رہا تھا کہ ہندوستان کے ساتھ تعلقات معمول پر آگئے ہیں اور اسی لیے تجارت بھی کھول دی گئی ہے، یہی وجہ ہے کہ وفاقی کابینہ نے اتفاق کیا ہے کہ جب تک ہندوستان کشمیر سے متعلق اپنے 5 اگست کے اقدامات واپس نہیں لیتا، اس وقت تک اس کے ساتھ تعلقات معمول پر نہیں لائے جاسکتے۔
انہیں کون سمجھائے کہ دنیا کے کئی ممالک کے آپس میں تعلقات کشیدہ ہوتے ہیں لیکن جنگوں کے دوران بھی تجارت برقرار رہتی ہے۔ اس لیے خطہ کے دونوں اہم ترین ملکوں کو اپنے عوام کے مفاد کے پیش نظر تجارت کا سلسلہ جاری رکھنا چاہیے۔ یہ بات درست ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کے سیاسی تعلقات میں جو خلا آیا ہے، وہ اتنی جلدی دور نہیں ہو سکتا اور دونوں ممالک کے درمیان مکمل تجارت کی بحالی فوری طور پر ممکن نہیں لیکن کچھ نہ کچھ رابطہ، تجارت اور تعلق بہرحال برقرار رہنا چاہیے۔ اس طرح کی تجارت سے خطہ کی معیشت کو فائدہ پہنچتا ہے۔ روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوتے ہیں۔ خطہ کی ترقی کے لیے مقامی ممالک میں تجارت بہت زیادہ ضروری ہے۔ جب سے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تعلقات کشیدہ ہوئے ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان تجارت معطل ہوئی ہے، اس وقت سے تاجروں کا کہنا ہے کہ ضروری اشیا کی تجارت برقرار رکھی جائے۔ دونوں ملکوں کے صنعت کار جی جان سے چاہتے ہیں کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان اچھے تعلقات ہوں اور ان تعلقات کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان تجارت بحال ہو۔ لیکن ان جذبات اور ضروریات کی کس کو فکر ہے؟ بہرحال ابھی حال ہی میںپاکستان میں حکومتی فیصلوں کا راتوں رات 360 ڈگری پر بدل جانا یہ ثابت کرتا ہے کہ خطہ کی سیاسی بھٹی اب بھی اتنی گرم ہے کہ عوامی مفادات اس کی تپش قطعی برداشت نہیں کر سکتے۔
[email protected]