ہندوستانی معاشرے کی روحانی قدروں کا تحفظ ضروری

0

ڈاکٹر ظفردارک قاسمی

اس وقت ہمارے ارد گرد جو کچھ وقوع پذیر ہورہا ہے، اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سماجی سطح پر بہت کچھ ٹھیک ٹھاک نہیں ہے۔ جو مسائل یا تحدیات آج ہندوستانی معاشرے کے سامنے ہیں ان میں بنیادی طور پر یکسانیت و انسانیت اور ہمدردی و مساوات یا دوسرے لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ قومی ہم آہنگی کا فقدان ہے۔ جب کہ تجربات و مشاہدات سے یہ بات مسلم ہے کہ معاشروں کی بقا اور ان کی فکری و روحانی تعمیر وترقی میں توافق کی روایت یا باہمی میل جول کی بالادستی کا اہم کردار رہا ہے۔ ہندوستانی سماج کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ یہ ملک صوفیوں، سنتوں اور روحانی پیشواؤں کا مرکز ومسکن رہا ہے۔ انہوں نے ہر آ ن ملک کی یکجائیت اور مرکزیت کو مدنظر رکھا ہے۔ ان کا فلسفہ انسانیت کا فروغ اور نفرت کا خاتمہ تھا۔ آ ج کا جو رویہ یا چلن ہے اس نے ہندوستان کی صرف سیکولر، جمہوری قدروں کو ہی مخدوش نہیں کیاہے، بلکہ بہت حد تک یہاں کی روحانی تہذیب اور اس کی افادیت کو بھی مجروح کرڈالا ہے۔ ہندوستان کی سر زمین وہ سر زمین ہے جس کی عظمت و فضل پر بہت سے سیاحوں نے نیک خواہشات اور پاکیزہ جذبات کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے یہاں کی باہمی اخوت کو بہت سراہا ہے۔ ان تمام حقائق و شواہد کی روشنی میں یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ملک کی عظمت اور اس کا امتیاز یہ ہے کہ یہاں ہر طرح سے باہم اقوام و طبقات کے رشتوں کو مضبوط کرنے کی ضرورت پر زوردیا جائے۔ دنیا کی کوئی بھی تہذیب ہو یا کوئی بھی معاشرہ، ہر ایک کا اپنا اپنا نظریہ، مزاج اور رجحان ہوتا ہے۔

جب سماج سے مساوات و مواخات اور یکجائیت و مرکزیت کا نظام اٹھ جائے تو یقین جانئے اس معاشرے کی روحانیت پوری طرح مفقود ہوچکی ہے۔ اب ہم کو ملک کی تعمیر وترقی اور عوامی فلاح وبہبود کے فروغ کے لیے ایسے اقدامات اٹھانے ہوں گے جو ہندوستانی معاشرے کی روحانی وعرفانی قدروں کو جلا بخش سکیں۔ بھائی چارگی اور دوستانہ مراسم کو بحال کرنے میں معین و مددگار ثابت ہوں۔ انہی قوموں اور معاشروں کا اقبال بلند ہوتا ہے جن کے اندر انسانیت کی عظمت و تقدس اور اس کے روحانی شعاعیں جھلملاتی رہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ہرباشعور اور زندہ قوم، اپنی تہذیب و تمدن کو اپنے لیے مایہ افتخار سمجھتی ہے، اس کے نزدیک ثقافت سے بڑھ کر کوئی اجتماعی دولت نہیں ہوتی، اس لیے قدیم زمانے ہی سے تہذیب و ثقافت کی نشرواشاعت کا سلسلہ قائم ہے، ہر قوم نے اپنے تمدن کو دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کی ہے، فرق یہ ہے کہ کسی نے امن کی راہ اختیار کی تو کسی نے پرتشدد طریقے سے یہ کام انجام دیا۔چنانچہ قدیم مصری تاریخ میں بھی یہ بات ملتی ہے کہ اس زمانے کی مصری تہذیب ہی دیگر اقوام کے لیے نمونہ سمجھی جاتی تھی، بقیہ تہذیبیں اپنے اپنے علاقوں تک محدود تھیں یا ان کا ٹمٹماتا ہواچراغ بجھا چاہتا تھا، مصری تہذیب کے بعد یہ مقام و مرتبہ کنعانی ثقافت کو حاصل ہوا، قدیم ہندوستان کی ثقافت کوبھی یہ مرکزیت حاصل رہ چکی ہے۔ چین کا تمدن بھی اپنے زمانے میں لوگوں کے لیے باعثِ تقلید بنا ہے، سکندراعظم کی فتوحات کے ساتھ یونانی تہذیب نے دنیا کے مختلف علاقوں میں اپنے جھنڈے گاڑے ہیں اور اس کو مغرب سے لے کر مشرق تک مرکزی تہذیب ہونے کا شرف حاصل رہا ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود ہم یہ بات بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ہندوستانی تہذیب میں وسعت و کشادگی اور تحمل و برداشت کی پوری صلاحیت موجود ہے۔ چنانچہ ہماری تہذیب کا مجموعی نظریہ یا مزاج یہی ہے کہ یہاں تمام ادیان کے لوگ باہم مل جل کر رہیں، رواداری اور توازن و اعتدال کے ساتھ زندگی گزاریں۔سماجی سطح پر کسی کے ساتھ کوئی بھی بھیدبھاؤ یا افتراق وانتشار نہ کیا جائے، ایک دوسرے کا خیال رکھیں، انہی اقدار کو بحال کرکے ہم ہندوستان کی روحانیت کو برقرار رکھ پائیں گے۔ جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہندوستانی معاشرے اور یہاں کے کلچر میں بہت سی باتیں ایسی پائی جاتی ہیں جو ہندوؤں اور مسلمانوں میں یکساں ہیں۔ ماہرین ثقافت اور سیاحوں نے نہایت وضاحت کے ساتھ لکھا ہے کہ جب مسلمان ہندوستان میں وارد ہوئے تو بہت سے اطوار اور طریقے مسلمانوں نے ہندوستانی تہذیب کے یعنی ہندوؤں کے اختیار کرلیے، اسی طرح مسلم تہذیب کا اثر بھی ہندوستانی معاشرے پر خاصا پڑا ہے۔ جیسا کہ ڈاکٹر تاراچند اور دیگر مصنّفین و مفکرین نے ان چیزوں کا تذکرہ اپنی تصنیفات وتالیفات میں کیا ہے۔ ان روایات کے تذکرے سے یہ بتانا مقصود ہے کہ ہمارے ملک کی ایک تصویر ہمیں ماضی میں ملتی ہے جس میں بھائی چارہ، اخوت و محبت اور اتحاد و اتفاق اور یگانگت کا عام رواج تھا، نہ مذہب کی کوئی قید تھی اور نہ رنگ و نسل کا امتیاز پایا جاتا تھا۔ گویا جہاں عید کی سویاں ہندو اور مسلم سب مل کر کھاتے تھے تو وہیں دیوالی جیسا تہوار بھی سب مل کر مناتے تھے۔ سماج میں ہر طرف خوشیاں اور محبتیں نظر آتی تھیں۔ ایک دوسرے کو دعائیں دیتے تھے۔ مگر ملک کی موجودہ تصویر تشویشناک حد تک خراب ہوچکی ہے۔ نہ صرف رکھ رکھاؤ ، سماجی رابطوں اور ہم آ ہنگی کی گنجائش ختم ہوئی ہے بلکہ اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ ملک کا سیکولر اور جمہوری نظام تک چرمرا گیا ہے۔ ہندوستانی معاشرے کی موجودہ تصویر سے ایسا لگتا ہے کہ اب اکابر کا تعمیر کردہ ہندوستانی معاشرہ بکھر رہا ہے۔ ہمیں کسی سے کوئی شکایت یا پرخاش ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہم اس کو کسی کمیونٹی پر تھوپ کر ملک کی ساجھی وراثت کو کچلنے کا کام کریں۔ بجاطور پر ہندوستانی معاشرے کے امتیاز و خصوصیات کو ہم سب مل کر بچائیں گے تبھی ایک اچھے سماج کی تشکیل عمل میں آ سکے گی۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم اس وقت علمی وفکری زوال و پسماندگی کا شکار ہیں۔ ہمیں ساری توجہ اپنے افکار اور نقطہ نظر کی ترویج و اشاعت پر مرکوز کرنی ہے۔ نہ بے وقت اور غیر ضروری جارحانہ یا متشدادنہ طریق کار اختیار کرنا چاہیے اور نہ معذرت خواہانہ رویہ کو اپنے اوپر غالب آنے دینا چاہیے۔ آ ج ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنے معتقدات، افکار و نظریات، اصول و آدرش اور اخلاقی اقدار کو بہت اعتماد و سنجیدگی کے ساتھ دنیا کے سامنے رکھیں۔ یہ تاثر عملی طور پر رفع کرنا ہوگا کہ اسلام جدید علوم کا مخالف ہے۔ تہذیبی اور ثقافتی طورپر بھی ہمیں ہرمفید کا اخذ واکتساب کرنا چاہیے اور ہر مضر سے اجتناب کرنا چاہیے۔ سب سے پہلے اپنے ملک و ماحول اور معاشروں کو اپنی تہذیب کا نمونہ بنانے کی ضرورت ہے۔ اخلاقی طور پر ایسی بلندی اختیار کرنی چاہیے جسے ہمارے مخالفین بھی مانیں۔ کسی بھی قوم یا کسی بھی ملک کی عظمت و تقدس اور شان وشوکت کا غلغلہ اسی وقت تک رہتا ہے جب تک کہ اس کے اندر انسانی حقوق اور عوامی فلاح وبہبود کا نظریہ فروغ پائے، باہم محبت و مودت پائی جاتی ہو۔ جب سماج سے مساوات و مواخات اور یکجائیت و مرکزیت کا نظام اٹھ جائے تو یقین جانئے اس معاشرے کی روحانیت پوری طرح مفقود ہوچکی ہے۔ اب ہم کو ملک کی تعمیر وترقی اور عوامی فلاح وبہبود کے فروغ کے لیے ایسے اقدامات اٹھانے ہوں گے جو ہندوستانی معاشرے کی روحانی وعرفانی قدروں کو جلا بخش سکیں۔ بھائی چارگی اور دوستانہ مراسم کو بحال کرنے میں معین و مددگار ثابت ہوں۔ انہی قوموں اور معاشروں کا اقبال بلند ہوتا ہے جن کے اندر انسانیت کی عظمت و تقدس اور اس کے روحانی شعاعیں جھلملاتی رہیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS