“طلسمات غزل” ایک مطالعہ

0

” *طلسمات غزل” ایک مطالعہ

 

ڈاکٹر ایم عارف_ کالی باغ بتیا_ بہار_ انڈیا،ایشیا_

رابطہ 7250283933

ادب اور ادیب جو کر گزرتاہے_ اس پر نہ صحافت کی نظر جاتی ہے_ نہ پولس سمجھ پاتی ہے_نہ قانون اس تہہ تک پہنچ پاتی ہے اور نہ ہی حکومت کچھ کرپاتی ہے_ یہ صرف اور صرف ادب ہے جو اس تہہ تک پہنچنے میں جذبات واحساسات کا سہارا لیتا ہے_اور اپنے ماحول ومعاشرہ اور سماج کا اظہار ہی نہیں بلکہ انسانی دلوں کا اظہار بھی کر ڈالتاہے_ وہ صرف انسانی دلوں کا اظہار نہیں کرتا بلکہ مردہ ضمیر کو زندہ کرتا ہے_درد بھرے انسان کا آنسو

پو نچھتا ہے_ سماج سے بے حسی کو دور کرتا ہے_بے وفا کو باوفا بناتا ہے_دل میں نفرت کی جگہ محبت کو جنم دیتاہے_کل کی بات کو آ ج ہی کرنے پر اکساتا ہے_

اور آج کی بات کبھی کل پہ نہ ٹالی جائےسکھاتا ہے_

جب سے ادب حقیقی معنی میں اپنی ادبیت سے دور ہوکر رجحان،نظریہ،تحریک اور تنظیم میں الجھتا یا پھنستا چلاگیا_ادب ادب سے دور ہوتا گیا_

زیر نظر کتاب ” طلسمات غزل” جس کا خالق شاد مراد آ بادی ہیں_ اصل نام ارشاد احمد ہے_تخلص شاد ہے_ جگر مراد آ بادی کے شہر سے وابستہ ہیں_ اس لئے شاد مرادآ بادی ہے_ تاریخ پیدائش 20 جولائی 1944عہ ہے_جائے پیدائش قصبہ سیو بارہ،ضلع بجنور ‘ یو-پی ہے_تعلیم انگریزی ادب سے گریجویٹ ہیں _ شکسپیئر،ملٹن،کیٹس،اور ورڈس ورتھ وغیرہ کےشیدا ہیں_پہلی کتاب” طلسمات غزل” کے خالق ہیں_جس کا گیٹ اپ جاذب نظر ہے_ تحریریں صاف ستھری ہیں_ کل صفحات 200 ہیں_سال اشاعت 2022 ہے_ براؤن بک پبلی کیشینز نئی دہلی کی اشاعت ہے_ ڈاکٹر تجلی نقوی کا “قطعہ تاریخ “شاعر شاد مرادابادی کی شاعری کا تعارف یوں کراتا ہے کہ

عہ موجزن جس میں کرشمات غزل ہیں

معتبر جس میں کمالات غزل ہیں

اصل میں ہے شاعری کا شاہکار

شاد لکھے جو طلسمات غزل ہیں_

اور شاد مراد آبادی اپنی شاعری کے متعلق یوں اظہار کرتے ہیں عہ

ہیں طلسمات غزل ہاں بس طلسمات غزل

شاد کی غزلوں میں ہے اس کے سوا کیا اور کچھ

شاد ہو جاتا ہے دل سن کے تمہاری باتیں

جانے کیا شئے ہے جو لفظوں میں ملا دیتے ہو_

اس تعارف مبین کے بعد صاحب کتاب کی تعارف میں کچھ تحرپر کرنا غیرضروری محسوس ہو تا ہے ۔ البتہ مجموعہ کلام” طلسمات غزل” پر کچھ لکھا جاسکتا ہے_ ان کی شاعری کیا ہے؟ گردش حالات ،اپنے مسائل،اپنا ماحول ومعاشرہ اور اپنے احساسات

،جذبات وتجربات اور حا لات حاضرہ پر تبصرہ ہی تبصرہ_جس میں اج کا انسان” طلسمات غزل” میں مل جائے گا_ شاد مراد آبادی کی ” طلسمات غزل” اس وقت میرے ہاتھ میں ہے_

ان غزلوں میں محبوب سے باتیں ہیں_ عورتوں کےحسن وجمال کی تعریفیں بھی_ عشق ومحبت کا ذکر بھی ہے_اور محبوب سے چھیڑ چھاڑ بھی_محبوب محبوبہ ،معشوق معشوقہ،وفا بے وفا، ہجر وفراق کی تڑپ،جذبات ومحسوسات،تجربات ومشاہدات، بےچینی و بےقراری،وصال ومحبوب کی تمنا، یاس وامیدیں مختلف روپ کو دیکھا اور دکھایا ہے_ اور سنجیدگی کے ساتھ شعوری اور غیر شعوری طور پر اپنے کلام میں خود اعتمادی کے ساتھ پیش کیا ہے_نمونہ کے طور پر چند اشعار ملاحظہ ہو_ عہ

سچ کہوں تو عشق میں پہلے مزہ تھا اور کچھ

اب تو ہے کچھ اور پہلے تھا زمانہ اور کچھ

وہ تو ہم نے ہی محبت کو نبھائے رکھا

بارہا اس سے جدائی کے بھی حالات بنے

تو روٹھ جائے مجھ سے تو حق ہے ترامگر

جب میں مناؤں جان مری مان جائیو_

دل کیا لگے گا بزم میں آ خر تیرے بغیر

کچھ دیر کے لئے ہی سہی آ تو جائیو_

غزل کے ان اشعار کو دیکھیں اور غزل کی تعریف کاجائزہ لیں_عہ

جب چھیڑتے ہوں حسن کے جلوے ہی ساز عشق

کیسے رہے جہاں میں کوئی بے نیاز عشق

اس سے زیادہ کیا ہو بھلا عشق کا جواز

ہر ہر ادا ہے حسن کی خود اک جواز عشق

اے حسن تجھ کو عشق نے بخشا ہے مرتبہ

سمجھا کہاں ہے تونے مگر امتیاز عشق

محفل میں حسن ناز نے کر ہی دیا وہ فاش

اب تک بھی منکشف نہ ہوا تھا جو راز عشق

غزل عشقیہ اور رعنائی شاعری ہے_لیکن یہ عشق حقیقی بھی ہوسکتاہےاور مجازی بھی_ خدا سے بھی ہو سکتا ہے اور محبوب سے بھی_ کسی عقیدے سے بھی ہوسکتا ہے اور کسی ملک سے بھی_مسئلہ نظارے کا نہیں نظر کا ہے_یہ عشق جسم کا ہو یا روح کا،حقیقی ہویا مجازی،چند قطروں سے عشق ہویا تہذیب کے افکار سےاور جذبات کے طوفان سے _

عہ پردہ حسن اٹھاؤ تو غزل ہوتی ہے

کچھ تبسم کی ادا ہوتو غزل ہوتی ہے_

اور کسی شاعر نے یوں کہا عہ

عشق ہی عشق ہے جہاں دیکھو

سارے عالم میں پھر رہا ہے عشق

موجودہ حالات کے پس منظر میں درج ذیل اشعار کس قدر حقیقت کی عکاسی کررہے ہیں_ عہ

تعلیم کا بھی سوچ پہ کوئی اثر نہیں

ہم تو سمجھ رہے تھے بدلنے لگے ہیں لوگ

کوئی کہیں بھی حق کا اگر پاسدار ہے

اس کے خلاف آ گ اگلنے لگے ہیں لوگ

ہوتے نہیں پڑوس میں سب من پسند لوگ

رکھتے ہیں اختلاف بھی آ پس میں چند لوگ

ہمارے ملک کے جاہل سیاست دا ں معاذ اللہ

ہواؤں تک میں کردیتے ہیں اب یہ لوگ ڈر پیدا

یوں تو پہلے بھی زمانہ کوئی ایساں تو نہ تھا

کوئی بھی شخص مگر اتنا پریشاں تو نہ تھا

اس طرح شاد مرادآ بادی کے کلام کا مطالعہ اس بات کا شاہد ہے کہ” طلسمات غزل” کا موضوع ومواد صرف عشق وعاشقی تک محدود نہیں بلکہ آج کے موجودہ سماج میں پھیلے ہوئے فرسودہ روایات،

رستوں کی زبوں حالی،شکست وریخت،خلفشار وانتشار،نا انصافی،بے کرداری،حق تلفی جیسے موضوعات پر بڑی فنکاری اور سادگی کے ساتھ اپنے تجربات و احساسات کو شدت جذبات اور حق گوئی کے ساتھ معاشرہ کی مختلف کیفیات کی ترجمانی کی ہے__

میرے چہرے پہ رہے ہونگے کبھی غم کے نقوش

میرے لہجے میں مراغم کبھی عریاں تو نہ تھا

پیری میں نہیں کام مگر اوروں کی ہے فکر

آ زاد ہوں میں پھر بھی تو آ زاد نہیں ہوں

مطمئین دل ہی نہ ہو جن سے تمہارا اے شاد

ایسی فرسودہ رسومات نبھاتے کیوں ہو_

زندگی بھر زندگی کو زندگی کرتے رہے

زندگی جینے کی خاطر ہر نفس مرتے رہے_

جب جستجو ئے شوق میں حد سے گزر گے

کچھ لوگ زندگی میں بڑے کام کرگئے

جینے کے لئے روز ہی مرنا ہوگا

یہ کام تو ہر حال میں کرنا ہوگا

انسانی قدروں کے زوال اور عصری تقاضوں کے صورت حال کی دلیل ان اشعار میں دیکھئےعہ

سانچے میں اب تو وقت کے ڈھلنے لگے ہیں لوگ

سچ کو نگل کے جھوٹ اگلنے لگے ہیں لوگ

قول وعمل میں دیکھئے کتنا تضاد ہے

اپنی زبان سے ہی پھسلنے لگے ہیں لوگ

بہت ہی دکھ ہوا ہمیں یہ بستیو ں میں دیکھ کر

فقط وہ تنگ حال تھے جو لوگ بااصول تھے

شاد مرادا آ بادی کے بیشتر خیالات درد وغم،رنج والم،

مصائب و آلام کے ارد گرد گھومتے ہیں_درد وغم میں رنگے ہوئے کچھ اشعار بطور مثال ملاحظہ ہو_عہ

غم ہی غم ہیں تو غم کا غم کیوں ہو

لذت عشق اپنی کم کیوں ہو

ہے اگر خوف تمہیں آج بھی رسوائی کا

محفل غیر میں پھر مجھ کو بلاتے کیوں

درد ،غم،تڑپ،آنسو

عشق میں نہیں کیا کچھ

کیا غم عشق کی توہین نہیں

اشک آ نکھوں سے بہاتے رہنا

اے غم محبت جا ہم کو شاد رہنے دے

آج سے سمجھ لینا ہم تجھے بھلا بیٹھے

جو زخم دے گئ ہے کہ ناسور بن گئے

دیکھا ہے ایسا درد بھی ہم نے بہار کا

جو غم چھپے ہیں دل میں مجھے ان کاغم نہیں

صدمہ ہے صرف مجھ کو غم آ شکار کا

جب چھڑی بات خوشی اور غم کی

میرا دل غم کا طرف دار ہوا

عشق میں شاد رہے یوں تومگر

غم کادریا نہ کبھی پار ہوا

اب مجھے غم کاغم نہیں ہوتا

غم کی حد سے نکل گیا ہوں میں

مارتی ہے مجھے خوشی تیری

غم کبھی درد سر نہیں ہوتے

اج خود غم ہی بنا غم کا مداوا آ خر

اب تو ہر غم ہی خوشی کا سا مزا دیتا ہے

غم تو نے دیا مجھ کو پھر بھی ہے دعا میری

تجھ پر نہ کبھی غم کا سایہ بھی خدا ڈالے

شاد مرادا آ بادی کی شاعری میں ہمیں غم کی ایسی زیریں لہریں ملتی ہیں جن کے سوتے غم، غم ذات،غم عشق، غم فراق اور غم دوراں ہر ایک سے پھوٹتے ہیں_ جو ایک شاعرانہ احساس ہی نہیں بلکہ زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہے_ شاد مرادآبادی غزل کے شاعرہیں _ ذوق ادب بالیدہ ہے_ وسعت نظر وسیع ہے_مضامین کے موضوعات بین الاقوامی ہیں_ آپ دنیائے شاعری میں کسی تعارف کے محتاج نہیں۔

مختصر یہ کہ شاد مراد آ بادی کے “طلسمات غزل” ہجر وصال کے معاملے میں منفرد کیفیات کی ترجمانی ہے_ ان کی شاعری میں انسانیت کا پیغام بھی ہے_

_عہ

شاد ہو جاتا ہے دل سن کے تمہاری باتیں

جانے کیا شئے ہے جو لفظوں میں ملا دیتے ہو

ختم شد _ The end

Dr M arif

Kali bagh ,Bettiah

West Champaran, Bihar, India

Mob,7250283933

Emil eid,mohammad arif alam 2018@gmail com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS