محمد حنیف خان
ملک میں امن و چین کے لیے فضا کا سازگار ہونا ضروری ہے،جس کی ذمہ داری بلاشبہ حکومت اور اس سے وابستہ لوگوں پر ہے۔اگر وہ اس سے آنکھ موند لیں تو یہ فضا نہ صرف ناسازگار ہوجائے گی بلکہ پورے معاشرے اور ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لگی۔افسوس کی بات یہ ہے کہ ذمہ دار افرادنے ملک میں ایک ایسے بیانیے کو رواج دے دیا ہے جو انسانی بستیوں کے لیے حد درجہ مضر ہے۔دراصل حکومت سے وابستہ افراد دو طرفہ وابستگی رکھتے ہیںمگر یکطرفہ عہد کی پاسداری پر مصر ہیں۔ایک طرف وہ ایک ایسی تنظیم سے وابستگی رکھتے ہیں جس کے اصول و نظریات دو دو چار کی طرح واضح ہیں،جس میں نہ تو کسی کو شک ہے اور نہ ہی ہونا چاہیے اگرچہ اس پر بھی ملمع سازی کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔دوسری طرف وہ حکومت سے چمٹے رہ کر اس تنظیم سے کیے گئے عہد کو پورا کرتے ہیں مگر دکھانے کی کوشش یہ کی جاتی ہے کہ وہ عوام اور ملک کی خدمت میں خود کو وقف کیے ہوئے ہیں جسے راشٹرواد کا نام دے کر اپنے افعال و اعمال کو ایک نیا بیانیہ دے رہے ہیں۔یہ ایک ایسی چالاکی بھرا قدم ہے جس کے توسط سے وہ ہر ایک کو زیر کرنے میں اب تک کامیاب بھی ہوئے ہیں لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ملک کی فضا میں امن و چین کی ہوا بہنے کے بجائے دلوں میں غبار کی آندھی چلنے لگی ہے۔دو طرفہ عہد کی وابستگی اور آزادی سے قبل بنائے گئے ہدف کے حصول کی کوششوں کی وجہ سے ملک کی سب سے بڑی اقلیت پر پوری طرح سے الگ تھلگ ہونے کا خطرہ منڈلانے لگا ہے۔ابھی تک وہ کسی طرح معاشرے میں اپنا وجود بنائے ہوئے تھے لیکن اب یہ حالات بھی بدلنے کی کوششیں شروع کردی گئی ہیں۔جو اس ملک اور یہاں کے عوام کے لیے حد درجہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
امریکی ہولوکاسٹ میموریل میوزیم (یو ایس ایچ ایم ایم)کی تین ماہ پرانی ایک رپورٹ دھیرے دھیرے سچ ثابت ہونے کی طرف بڑھ رہی ہے جس میں ہندوستان کو نسل کشی کی جانب بڑھنے والے ممالک میں دوسرے پائیدان پر رکھا گیا ہے۔رپورٹ میں اس کی وجہ مسلم مخالف جذبات کا فروغ بتایا گیا ہے۔تب سے لے کر ا ب تک ان جذبات کو مزید ابھارا ہی گیا ہے، ان کو سرد کرنے کی کسی طرح کی کوئی بھی کوشش نہیں کی گئی ہے۔خواہ وہ دھرم سنسد میں مسلمانوں کے خلاف عوام کو بھڑکانے اور ان کو ختم کرنے کی دھمکی ہو یا پھر اقلیتوں کے ساتھ اجتماعی مارپیٹ اور ان کی ماب لنچنگ کی کوششیں ہوں،حکومت اور میڈیا دونوں کی جانب سے خاموشی اور سرد مہری نے یہی ثابت کیا ہے۔ سیاسی سطح پر یہ ان کے لیے مفید ہے، اس لیے اس پر قدغن کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
جینو سائڈ واچ کے بانی پروفیسر گریگوری اسٹینٹن نے اپنی رپورٹ میں ہندوستان میں نسل کشی کا انتباہ دیتے ہوئے لکھا تھا کہ ہندوستان میں اس کا نشانہ مسلمان بن سکتے ہیں۔انہوں نے 14جنوری 2022کو یہ لکھا۔یہ وہی شخص ہیں جنہوں نے روانڈا میں ہوئی نسل کشی سے قبل اس سلسلے میں متنبہ کردیا تھا۔انہوں نے کہا ہے کہ ’’ 2002میں جب گجرات میں ہوئے فسادات میں ایک ہزار سے زائد مسلمان مارے گئے تھے تب سے ہندوستان میں نسل کشی کے اسباب والے واقعات پر جینو سائڈ واچ اپنی نظر رکھے ہوئے ہے۔اس وقت گجرات کے وزیراعلیٰ نریندر مودی تھے۔در اصل اس بات کے کئی سارے ثبوت ہیں کہ انہوں نے اس نسل کشی کو فروغ دیا تھا‘‘۔اسٹینٹن کے مطابق ’’مودی کی سیاسی زندگی مسلم مخالف اور اسلاموفوبک بیان بازی پر مبنی ہے‘‘۔دی کوئنٹ کے مطابق نسل کشی کوئی واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک نامیاتی عمل کے مطابق کی جاتی رہی ہے۔اس رپورٹ میں اسٹینٹن کے حوالے سے ہی اس وقت ہری دوار میں یتی نرسنگھا نند کی دھرم سنسد کے بارے میں لکھا گیا تھا کہ ہمیں لگتا ہے کہ ہری دوار میں ہوئی اس دھرم سنسد م کا مقصد نسل کشی کے لیے عوام کو اکسانا ہے۔اس رپورٹ کے تناظر میں اس کے بعد ملک میں رو نما ہوئے واقعات کا اگر جائزہ لیا جائے تو بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے کہ ملک کن خطوط پر جا رہا ہے۔
اس وقت ایک فلم کے ذریعہ ملک میں جو ماحول بنایا گیا ہے، معاشرے پر اس کے کیا اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ اخبارات،ٹی وی بحث و مباحثے اور سوشل میڈیا کا محور نہ صرف یہ فلم ہے بلکہ اس کے اثرات بھی ہر پلیٹ فارم پر دیکھنے کو مل رہے ہیں۔وزیراعظم کے ساتھ ہی مرکزی اور اور بی جے پی والی ریاستی حکومتوں کی پوری مشنری اس فلم کے پروموشن میں مصروف ہے۔سرکاری اہلکاروں کو فلم بینی کے لیے خاص طور پر چھٹیاں دینے کی خبریں بھی آئی ہیں، وزراء اپنے مصاحبین اور دیگر افراد کے ساتھ فلم دیکھنے جارہے ہیں، جسے کئی مقامات پر ٹیکس فری بھی کیا گیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس فلم کے پروموشن اور عوام کو اسے دکھانے کے لیے حکومت اور اس کی مشنری کو میدان میں آنے کی ضرورت کیوں پڑی ؟ ایسا اس فلم میں کیا ہے؟ بادی النظر میں اس فلم میں کشمیر سے کشمیری پنڈتوں کی ہجرت کو دکھایا گیا ہے کہ کس طرح کشمیر سے ان کو ہجرت پر مجبور کردیا گیا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ واقعہ 1989 میں رونما ہوا جس کے اصل اسباب و محرکات پر نظر ڈالنے اور اسے عکس بند کرنے کے بجائے فلم کو مسلمانوں کے خلاف ماحول بنانے کا ایک ذریعہ بنا لیا گیا۔سوشل سائٹوں پر اس فلم کے اثرات اس طور پر دیکھے جا سکتے ہیں کہ اس واقعہ کے لیے نہ صرف ہندوستان کے مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے اور ان سے نفرت دکھائی جا رہی ہے بلکہ یہ تک کہا جا رہا ہے کہ ہر ہندو کو یہ فلم ضرور دیکھنا چاہیے تاکہ اسے معلوم ہو کہ آئندہ اس کے ساتھ کیا ہو سکتا ہے؟آئندہ اس کے ساتھ کیا ہوسکتا ہے کا جو خوف ہے وہی مسلمانوں سے نفرت اور ان کی نسل کشی کی جانب اس معاشرے کو بڑھا رہا ہے جس کی پروفیسر گریگوری اسٹینٹن نے اپنی رپورٹ میں وضاحت کی تھی۔
اس فلم کے ہی یہ اثرات ہیں کہ مردار جانور کی ہڈی اور کھال بردار ایک گاڑی کے مسلم ڈرائیور اور اس کے ساتھیوں کو متھرا میں نفرت کی آگ میں جل رہے نوجوانوں نے ایک کمرے میں بند کرکے چمڑے کی بیلٹوں سے پٹائی کی۔ان نوجوانوں کو شک تھا کہ اس گاڑی میں گائے کا گوشت ہے۔پولیس نے خود اس سے انکار کیا ہے کہ اس گاڑی میں گائے کا گوشت تھا۔یہ واقعہ مین اسٹریم کے میڈیا میں بھی نہ آیا اور کسی نے اس پر کو ئی ڈبیٹ بھی نہیں کی لیکن جو واقعہ تیس برس قبل رونما ہوا تھا، اس پر ڈبیٹ ہو رہی ہیں کیوں کہ اس سے سیاسی زندگی کو تقویت مل رہی ہے اور 2024 میں ہونے والے عام انتخابات کی راہ ہموار ہورہی ہے۔ اس فلم کو سچ دکھائے جانے سے زیادہ آئندہ پارلیمانی الیکشن کی تیاری کے طور پر ہی دیکھا جانا چاہیے۔وزیراعظم نریندر مودی نے اس فلم کی تنقید کرنے والوں سے یہاں تک کہہ دیا کہ آزادیٔ اظہار کا رونا رونے والوں کو دوسری فلم بنا لینا چاہیے لیکن ’’پرزانیہ‘‘ سمیت متعدد ایسی فلمیں بنائی گئیں جو اقلیتوں اور شودروں پر ہونے والے مظالم کو بیان کرتی ہیں مگر انہیں فلم ہالوں میں دیکھنے اور دکھانے کی اجازت نہیں دی گئی۔اس لیے آزادیٔ اظہار کی بات بیکار ہے۔سچ یہ ہے کہ جس سے حکمرانوں /دوہری وابستگی رکھنے والوں کو فائدہ ملتا ہے، اس کو نہ صرف فروغ دیا جاتا ہے بلکہ حکومت اپنی مشنری اور طاقت کا استعمال کرکے ایک ایسا بیانیہ قائم کرتی ہے جو اس کو راشٹر واد سے جوڑ دیتی ہے لیکن اس راشٹر واد کو بھی بالکل الگ معنی اور مفاہیم میں استعمال کیا جاتا ہے۔راشٹر واد کے لفظی معنی یا اس کی تعبیر حب الوطنی اور محب وطن سے کی جا سکتی ہے لیکن اس حب الوطنی اور محب وطن کا ایک خاص نکتہ یہ ہے کہ خاص علائم سے محبت ہی راشٹرواد ہے۔یہ خاص علائم وہ ہیں جنہیں ملک کی سب سے بڑی تنظیم کے بانیوں نے اپنی متعدد کتب میں واضح کیا ہے اور بتایا ہے کہ راشٹرواد کیا ہے اور کسے کہتے ہیں۔
اشوک اور اکبر جیسے عظیم حکمراں اسی ملک کے تھے،ایک دن آیا جب ان کی حکومتیں اور نسلیں بھی نیست و نابود ہوگئیں لیکن ملک باقی ہے اور اس سے محبت کرنے والے باقی ہیں، اس لیے کسی فرد/حکومت یاتنظیم کو اس مغالطے میں نہیں رہنا چاہیے کہ وہ اپنے ایجنڈے نافذ کرکے ہمیشہ باقی رہ سکتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت کے موقف کے برعکس معاشرے کو آپسی محبت کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے، کیونکہ جب آگ لگتی ہے تو پڑوسی ہی اسے بجھانے آگے آتا ہے خواہ وہ ہندو ہو یا مسلم،اس لیے کسی خانے میں بٹنے کے بجائے ہمیں انسان بن کر اس ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنے کردار ادا کرتے رہنا چاہیے اور یہی سچا راشٹر واد اور ملک سے محبت ہے۔
[email protected]