تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ

0

خدشہ کے عین مطابق پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات ختم ہوتے ہی مہنگائی میں اضافہ کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ انتخابات کی وجہ سے گزشتہ چار مہینے سے قیمتیں کنٹرول میں تھیں لیکن ا ب چونکہ مہنگائی کی وجہ سے فوری طور پر کوئی سیاسی نقصان نہیں ہونے والا ہے، اس لیے حکومت نے تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ سے اس کا آغاز کردیاہے ۔بدھ تک مسلسل تیل کی قیمتوں میں اضافہ کے بعد کولکاتا میں پٹرول 106.34روپے اور ڈیزل 91.42روپے جب کہ ممبئی میں 111.67 روپے اور95.85روپے اور دہلی میں پٹرول97.01روپے اورڈیزل88.27 روپے میں فروخت ہو رہا ہے ۔جب کہ بڑے خریداروں یعنی ہول سیلرس کیلئے ڈیزل کی قیمتوں میں یکمشت فی لیٹر25روپے کا اضافہ کردیاگیا ہے ۔
روزانہ صبح 6 بجے قیمتوں میں اضافہ کرنے والی تیل کمپنیوں نے آج جمعرات کو اس میں وقفہ دیا ہے ۔ لیکن سابقہ روایت کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہنا آسان نہیں ہے کہ جمعہ، ہفتہ اوراس کے بعدآنے والے دنوں میں قیمتیں نہیں بڑھائی جائیں گی۔ پہلے سے ہی گرانی کا بار اٹھائے عوام اب تیل کی قیمتوں میں اضافہ کے اثرات کا بھی بوجھ اٹھانے پر مجبور ہیں ۔ روزمرہ کی بنیادی ضرورت کی چیزوں کے دام آسمان چھونے لگے ہیں۔ دودھ کی قیمتیں پہلے ہی بڑھائی جاچکی ہیں۔اب سبزیاں بھی مہنگی ہوکر عوام کی دسترس سے دور ہونے لگی ہیں ۔گھریلو ایل پی جی سیلنڈر میں ایک ساتھ50روپے کا اضافہ کردیاگیا ہے اور خدشہ یہ بھی ہے کہ یہ سلسلہ اگلے انتخابات تک جاری رہے گا ۔
انتخابی مہم کے دوارن مہنگائی کو قابو میں رکھنے کا بلندبانگ دعویٰ کرتے ہوئے حکومت اور حکمراں جماعت کے لیڈروں نے کہا تھاکہ روس اور یوکرین کی جنگ کی وجہ سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہونے والے اضافہ کا خردہ خریداروں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔سیاسی مکاری سے کام لیتے ہوئے عوام کو یہ اطمینان بھی دلایاگیاتھا کہ حکومت کسی بھی حال میں پٹرول، ڈیزل اور رسوئی گیس کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہونے دے گی۔ لیکن جیسے ہی انتخاب ختم ہوا اور ریاستوں میں حکومت سازی کی مشق شروع کی گئی، دام بڑھائے جانے لگے اور ہول سیل کی قیمتوں کا خردہ بازار پربھی اثرپڑنے لگا۔ یہ ہونا عین فطری اور معاشیات کا سیدھاسادہ اصول بھی ہے کہ اگر صنعتی اور ٹرانسپورٹ سرگرمیوں کیلئے مہنگا ڈیزل اور پٹرول خریدا جائے گا تو اس سے متعلق دوسرے کاروباربھی اثر انداز ہوں گے۔ مال برداری سے لے کر مسافروں کے کرایہ تک اور پیداوار سے لے کر تقسیم تک کی لاگت بڑھے گی اور نتیجہ میں قیمتوں میں اچھال آئے گا جس کا خمیازہ عام آدمی کو بھگتنا ہوگا۔
لیکن حکومت کو انتخاب ختم ہوتے ہی عام آدمی کی فکر بھی ختم ہوجاتی ہے اور معیشت کے تمام سوتوں کا رخ سرمایہ داروں کی جانب موڑ دیاجاتا ہے ۔ عوام کے بجائے سرمایہ داروں اور صنعت کاروں کے مفاد کی حفاظت ہونے لگتی ہے اور عوام کو اچھے دنوں کی آروزکا جھنجھناتھما دیاجاتا ہے ۔ کورونا وبا نے پہلے سے ہی بے روزگاری اور عوام کی معاشی اذیتوں کو بڑھارکھا ہے اس پر حکومت کی عوام دشمن پالیسیاں ان اذیتوں کو سوا کرنے کا کام کررہی ہیں ۔گزشتہ 8برسوں کے دورا ن حکومت کا کوئی ایسا فیصلہ نہیں ہوا ہے جس سے عام آدمی کو راحت ملے اوراس کی معاشی اور مالی اذیتوں کو ختم کیا جاسکے ۔اس کے برخلاف حکومت کی تمام پالیسیاں صنعتوں اور سرمایہ داروں کو مدنظر رکھ کر بنائی جارہی ہیں۔کورونا بحران کی آڑ میں جس طرح سے بڑے شعبوں میں نجکاری کی راہ ہموار کی گئی ہے ملکی تاریخ میں اس کی مثال ناپید ہے ۔ 24 مارچ 2020کی رات کو اچانک لگائے جانے والے لاک ڈائون کے اثرات سے عوام اب تک باہر نہیں نکل پائے ہیں۔ چھوٹے اور درمیانہ درجہ کی صنعتیں دم توڑ گئی ہیں، بہت سے ایسے کاروبار ہیں جو ٹھپ پڑے ہوئے ہیں۔ ایک ہی جھٹکے میں بے روزگار ہوجانے والے کروڑوں افراد آج بھی روزگار کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔اس پر بڑھتی مہنگائی نے عام آدمی کی ہمت پست کررکھی ہے۔ کورونا راحت پیکیج کا ڈھونگ رچاکر 20لاکھ کروڑ روپے کی خطیر رقم چند ایک سرمایہ کاروں میں تقسیم کردی گئی۔ نجکاری کے نام پر قدرتی اور قومی وسائل کو سرمایہ داروں کی جھولی میں ڈال دیاگیا۔مہنگائی پر قابو پانے اور عوام کیلئے راحت کا منصوبہ بنانے کے بجائے نیشنل مونیٹائزیشن پائپ لائن منصوبہ بناکر ریلوے سے لے کر دفاع تک اور شاہراہوں سے لے کر ایئرپورٹ تک کو نیلام کرنے کا سامان کردیاگیا۔
عوام کیلئے آج سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی اور بے روزگاری ہے۔ تیل کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ عوام کی اذیتوں میں اضافہ ہے جو پہلے سے ہی پریشان اور معاشی وحشتوں کے شکار ہیں۔عام آدمی کے ووٹوں سے بننے والی حکومت کو اپنی پالیسیوں اور فیصلوں میں عام آدمی کیلئے گنجائش نکالنی چاہیے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS