غزہ :میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں: شاہد زبیری

0

شاہد زبیری

اسرائیل اور امریکہ کی بر بریت اور سفاکی کو 23 دن گزر گئے ہیں دونوں ممالک نے فلسطین اور خاص طور پر غزہ میں چنگیز اور ہلاکو کی درندگی، وحشت اور سفاکی کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور جس سے انسانیت شرمسار نظر آتی ہے، تہذیب اپنا سر پیٹ رہی ہیں، انصاف کا جنازہ نکل گیا ہے۔غزہ کے معصوموں کی چیخیں، خواتین اور بزرگوں کی آہ بکا کسی کو سنائی نہیں دے رہی ہے۔پوری فلسطینی قوم چیخ چیخ کر پوچھ رہی ہے کہ ’ میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں/تمام شہر تو پہنے ہوئے ہیں دستانے۔‘ فلسطینی عوام گزشتہ75سال سے انتہائی کرب اور بے بسی کے حالت میں دنیا سے یہی سوال کررہے ہیں۔ دنیا کی طاقتیں صرف فلسطین ہی کو نہیں بلکہ پوری انسا نیت کو تباہی کی طرف دھکیل رہی ہیں ۔
امریکہ اور یوروپ کے بھرپور تعاون سے اسرائیل چھوٹے سے خطہ غزہ پر آسمان سے بموں کی بارش کررہاہے اور زمین پر بھی قہر ڈھا رہا ہے ، ہزاروں بچوں اور ہزاروں خواتین کے جسموں کے چیتھڑے اُڑا دئے گئے، ہزاروں کو زندہ در گور کردیا گیا، آبادیاں کی آبادیاں قبرستان میں تبدیل ہو گئیں، نہ گھر بچے نہ اسکول، نہ اسپتال اور نہ عبادتگاہیں۔ یو این او کا انسانی حقوق کا چارٹر اور انسانیت کے سارے پیمانوں کا جنازہ نکل گیا اور خود کو مہذب بتانے والے سارے کفن چور نکلے۔ یوکرین میں روس کی جارحیت اور وحشیانہ حملوں پر چیخ پکار کرنے والی حکومتوں کو لقوہ مار گیا ہے، غزہ کے مظالم پر سب نے لب سی رکھے ہیں اور غزہ کے مظلوموں کے خونِ ناحق پر اپنی مہر لگا دی ہے ان میں کوئی حکومت نہیں جو تاریخ کے اس گھنائونے جرم اور انسانیت کے قتل عام کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتی نظر آتی ہو۔ سعودی عرب اور ایران سمیت 56 مسلم ممالک کے غازی اور سورما صرف مذمت میں بیان دے رہے ہیں، روس اور چین نے بھی دھمکیوں سے آگے ابھی تک کچھ نہیں کیا، نہ جا نے ان کواور کتنی لاشیں گر نے کا انتظار ہے جبکہ وحشت بر بریت اور درندگی کا حال یہ ہے کہ فلسطین کے نمائندے ریا ض منصور اس کا ذکر کرتے ہوئے اپنے آپ پر قابو نہیں رکھ پائے اور یو این او میں دورانِ تقریر بلک بلک کر روپڑے۔انہوں نے انسانی ضمیر جگا نے کیلئے کہا کہ غزہ پٹی میں پورے کے پورے محلے تباہ کردئے گئے، خاندان کے خاندان ملیا میٹ کر دئے گئے۔ انہوں کہا کہ غزہ میں 3000بچوں اور 1700خواتین سمیت 7000 فلسطینیوں کو موت کی آغوش میں پہنچا دیا گیا ہے اور 600 سے زیادہ بچے ملبے تلے دبے پڑے ہیں ۔ہر طرف موت کا رقصاں ہے غزہ پٹی میں 14لاکھ سے زیادہ لوگوں کو اسرائیل نے بے گھر کر دیا ہے واپس جانے اور سر چھپانے کیلئے اب کوئی چھت ان کے سر پر نہیں بچی ہے۔ اسرائیل کی درندگی کا یہ عالم ہے کہ وہ اب انتہائی خطرناک اور خوفناک کیمیکل غزہ پٹی میں استعمال کررہا ہے ، لیکن مغربی ممالک کے بڑے ممالک اور امریکہ ہی نہیںوہا ں کا میڈیا بھی دنیا کی آنکھوںمیں دھول جھونک رہا ہے، اس میڈیا نے یو کرین پر روسی جارحانہ حملہ پر جو چیخ و پکار کی تھی اور اسرائیل پر 7اکتوبر کے حماس کے حملہ پر جو آہ بکا کی تھی وہ جائزتھی اس سے انکار نہیں، لیکن وہی میڈیا غزہ میںتاریخ انسانی کی اس ہولناکی اور سفاکیت پر وہ پردہ ڈالنے کی کوشش کررہا ہے اور اسرائیل کے مظالم اور درندگی کو چھپانا چا ہتا ہے ہم سمجھتے ہیں کہ یہ امریکہ اور اسرائیل کی حکومتوں کی ہدا یت پر کیا جارہا ہے، حال ہی میں امریکی صدر جوبائیڈن نے امریکیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکی عوام اسرائیل اور یو کرین کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے رہیں، اس لئے کہ 2 قوموں نے اسرائیل اور یو کرین پر تباہ کن حملہ کیا ہے جو بائیڈن کا یہ بیان ان کی سنگ دلی اور سفا کیت کا تو مظاہرہ ہے ہی اور مذکورہ بیان ان کی نسلی اور قومی عصبیت کا مظاہرہ کررہی ہے۔ اسی لئے انہوں نے امریکی عوام کے قومی اور نسلی جذبات کو ابھارنے کی کوشش کی ہے اور یہ صاف کردیا کہ غزہ کو بھی یوکرین کی طرح تباہ حال دیکھنے کی خواہش وہ دل میں پالے ہو ئے ہیں اور روسی جارحیت کا بدلہ فلسطینی عوام سے لینا چا ہتے ہیں۔ایسا لگنے لگا ہے کہ جو بائیڈن اور نیتن یاہو کی جوڑی ہٹلر اور مسولینی کے راستہ پر چل پڑی ہے ، امریکہ کے صدر کی حیثیت سے بائیڈن بے پناہ قوتوں کے مالک ہیں اور دنیا کو اپنے چا بک سے چلانا چا ہتے ہیں۔ اسرائیل تو محض ان کا ایک پیادہ ہے ۔بائیڈن کو جو چیز سب سے زیادہ پریشان کررہی ہے وہ عرب ممالک میں چین کا بڑھتا اثر نفوذ ہے جو وہ نہیں دیکھنا چا ہتے اس سے امریکہ کے معاشی مفادات کو خطرہ لاحق ہے جو بائیڈن غزہ کی پٹی میں محصور، مجبور، مقہور فلسطینیوں کی ہمدردی میں ایک طرف اسرائیل سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ غزہ کی پٹی میں رسد اور طبی امداد پہنچنے دے، دوسری جانب وہ اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کی کھل کر حمایت کررہے ہیں اوروہ اپنے عوام کو بھی اسرائیلی جا رحیت اور بربریت کا ساتھ دینے پر آمادہ کرنا چاہتے ہیں ان کی یہ ان کی منافقانہ اور معتصبانہ ذہنیت کا ثبوت ہے جس میں امریکی عوام کی اکثریت ان کے ساتھ نظر نہیں آرہی ہے۔ حتیٰ کہ امریکہ کے یہودیوں کا ایک طبقہ بھی ایسا ہے جو بائیڈن اور نیتن یاہو کا اس قتل عام میں ساتھ نہیں دینا چاہتا۔ غزہ کے لوگوں پر ڈھائے جا رہے اسرائیلی فوجوں اور نیتن یاہو کے قہر کے خلاف امریکی عوام سڑکوں پر ہے باقی مغربی ممالک کے عوام کی اکثریت بھی اپنی اپنی سرکاروں کی ہٹلر شاہی اور غزہ پٹی کے لوگوں پر جاری ان کی قہر سامانیوں کے ساتھ نہیں ہے اور احتجاج کررہی ہے ۔ بس یہی امید کی کرن ہے کہ ابھی انسانی ضمیر زندہ ہے، وہاں کی عوام دنیا کو اپنی سرکاروں کی عینک سے نہیں دیکھنا چا ہتی نسلِ انسانی کا خون خواہ وہ کہیں بھی گرے وہ اس کی مذمت کرتی ہے ۔ اقوامِ متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیوگوئتریس پہلے بھی فلسطین کے خلاف اسرائیلی جارحیت کی مذمت کر چکے ہیں اب پھر انہوں نے انتہائی دکھ اور درد بھرے انداز اور بے بسی کے عالم میں اپنے سوشل میڈیا پیغام میں کہا کہ تاریخ ہم سب کا فیصلہ کرے گی۔ انہوں نے انسانی ضمیر کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا کہ غزہ میں 20لاکھ انسانوں کو تباہی کا سامنا ہے جو ناقابل ِتصور تباہی ہے ۔
اب جبکہ 27 اکتو بر کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے غزہ میں جنگ بندی کیلئے پیش کی گئی قرارداد 120 ممالک کی حمایت سے پاس کر دی ہے ،لیکن نہیں معلوم اس پر عمل ہوگا کہ نہیں۔ ہندوستان سمیت 45ممالک نے حصہ نہیں لیا۔ حیرت ہے کہ ہندوستان آزاد فلسطین کا حامی ہے، لیکن ہندوستان نے اس کی ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ اس پرینکا گاندھی نے شدید نا راضگی جتائی اور کہا کہ انسانی اقدار کا تحفظ ہمارا اصول رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین میں جنگ بندی کے معاملہ میں خاموش رہ کر ہماری حکو مت نے غلط کیا ہے۔ این پی سی کے صدر شردپوار اور لالو نے بھی ہندوستانی سرکار کے اس رویہ کی شدید مذمت کی اور کہا کہ ہندوستان ہمیشہ فلسطین کاز کی حمایت کرتا رہا ہے اور کبھی بھی اسرائیل کی حمایت نہیں کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ جنگ بند ہونی چاہئے۔ آج بھی سچ ہے کہ ہندوستان میں ایک مخصوص ذہنیت کے طبقہ کے علاوہ باقی عوام اسرائیلی جارحیت اور بربریت کے خلاف ہے۔ امریکی اور مغربی ممالک کی سرکاروں کی اسرائیل کی سر پرستی اور اس کی درندگی کو ناپسند کرتی ہے اور سڑکوں پر اتر کر اس پر اپنے غصہ کا اظہار کرنا چاہتی ہے اس سے پہلے بھی ہندوستانی عوام کی اکثریت آزاد فلسطین کی حمایت اور اسرائیل کی جارحیت کی مخالفت اور مذمت کھل کر کرتی رہی ہے، لیکن ہماری بی جے پی کی مودی سرکار اور بی جے پی کی ریاستی سرکاروں کی طرف سے اسرائیلی جارحیت کے خلاف احتجاج کی اجازت نہیں ہے ۔ حال ہی میں کچھ ترقی پسند گروپوں نے دہلی کے جنتر منتر پر اس کے خلاف پُرامن مظاہرہ کیا تو دہلی پولیس نے مظاہرہ کرنے والوں کو حراست میں لے لیا یہ اور بات کہ ہمارا مین اسٹریم میڈیا جس کو آج کل گودی میڈیا کے نام سے جانا جاتا ہے وہ اسرائیل کے مظالم کی تائید کررہا ہے۔ اس کے نمائندے اسرائیل کے بارڈر پر جا کر اسرائیلی فوجوں کے ساتھ کھڑے ہوکر لائیو رپورٹنگ کے ذریعہ مظلوم فلسطینیوں کو ظالم اور قاتل ثابت کرنے پر تلے ہیں ۔ کاش اس کرہ ارض کو ایک زمین اور اس پر بسنے والوں کوایک کنبہ اور ان کے مستقبل کو ایک مانا جائے تو شاید آگ و خون اور قتل و غارت گری کا یہ ہولناک کھیل بند ہو اور دنیا میں امن وآشتی پھیلے ۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS