انتقامی کارروائی یا معصوموں کا قتل

0

حماس-اسرائیل جنگ وقت کے ساتھ خطرناک ہوتی جارہی ہے اور بہت بڑے انسانی بحران کی صورت اختیارکرتی جارہی ہے۔ اقوام متحدہ کے ساتھ دنیاکے کئی ممالک کوشش توکررہے ہیں کہ کسی طرح جنگ بندی ہوجائے ، کیونکہ نقصان صرف اسرائیل ، فلسطین اور حماس کو ہی نہیں ہورہاہے، بلکہ عالمی معیشت کو بھی کسی نہ کسی حیثیت سے نقصان پہنچ رہاہے ، جس کی بات کوئی نہیں کررہا ہے۔ در اصل جنگ جس وقت شروع ہوئی تھی ، اس وقت کسی نے اسے روکنے کی کوشش نہیں کی، بلکہ کچھ ممالک نے تو آگ میں گھی ڈالنے کا کام کیا، جس کی وجہ سے ا س میں اورشدت آگئی ۔اب حالت یہ ہے کہ نہ تو اسرائیل جنگ بند کرنے کو تیارہے اور نہ حماس۔ دونوں ہی اپنے وجود کی لڑائی لڑرہے ہیں ، جس کاانجام کیا ہوگا، کسی کو پتہ نہیں۔ انتقام کی آگ دونوں طرف اس قدرلگی ہوئی ہے کہ اسے جلدی بجھا پانا ممکن نہیں تو مشکل ضرورہے ، بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ کم از کم مغربی ممالک کو جنگ بند کرانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اسی لئے مغربی ممالک جنگ بندی کے تعلق سے نہ تو کوئی اپیل کررہے ہیں اور نہ ہی بات چیت یا میٹنگ کررہے ہیں۔بین الاقوامی ادارے اقوام متحدہ میں جو بھی قرار داد پیش کی گئی ، وہ منظور نہیں ہوسکی۔ ایک طرح سے جنگ میں اس کی بے بسی اورلاچاری ایک بارپھر دنیا کے سامنے آگئی۔ فی الحال دنیاکے سامنے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ جنگ کیسے بندہو اور اس کی پہل کون کرے۔ دنیاکاکوئی بھی ملک ایسا نہیں ہے، جہاں جنگ کے خلاف عوامی احتجاج، مظاہرے اورمارچ نہ ہورہے ہوں۔ بڑے بڑے مظاہرے ہورہے ہیں، حتی کہ اسرائیل اور فلسطین میں بھی مظاہرے ہورہے ہیں، لیکن مظاہروں کے نعرے صدا بصحرا ثابت ہورہے ہیں۔ حکومت کے درودیوار سے ٹکراکر واپس آرہے ہیں۔ وہاں کی حکومتوں پر ان کا کوئی اثر ظاہرنہیں ہورہا ہے۔وہ جنگ بندی کے تعلق سے معنی خیز خاموشی اختیارکئے ہوئی ہیں۔اسرائیل اورحماس کی لڑائی ہورہی ہے اور دنیاکی حکومتیں صرف تماشہ دیکھ رہی ہیں۔شاید وہ بڑی تباہی کا انتظار کررہی ہیں ، ورنہ بڑے ممالک کی طرف سے جنگ بندی کیلئے ایک بھی آواز تو اٹھتی ۔ کہنا تو نہیں چاہئے ، لیکن ایسا لگتاہے کہ دنیا جنگ سے لطف اندوز ہورہی ہے ۔
غلطی کس کی ہے اورکس کو دفاع کا حق ہے یا حملے کرنے کاجواز ہے ، ان سب پر بحث شروع میں کی جاسکتی تھی اورکی گئی ، لیکن اب تو بڑاسوال یہ ہے کہ غلطی اوردفاع کے نام پر اور کتنے ہزار معصوموں کا خون بہانا خود کو ’مہذب‘ کہنے والی موجودہ دنیا کیلئے جائز ہے ، کیونکہ اب تو صاف صاف نظر آرہاہے کہ نہ توانتقامی کارروائی ہورہی ہے اورنہ جنگ ہورہی ہے۔ صرف معصوم بچوں، خواتین اورمعمر لوگوں کو ماراجارہاہے ، جن کی کوئی غلطی نہیں ہے۔آخر دنیا 3ہزار سے زیادہ بچوں اورایک ہزار سے زیادہ خواتین کے قتل کا جوازکیا پیش کرسکتی ہے؟ کیایہی کہ حماس نے حملہ کیا تھا؟اگر یہ فرض بھی کرلیا جائے کہ اسرائیل حماس سے بدلہ لے رہاہے اور حماس اسرائیلی حکومت اورفوجیوں سے ، تو اسرائیل نے حماس کے کتنے لوگوں کو مارا؟ اسی طرح حماس نے اسرائیلی حکومت اوراسرائیلی فوج کے کتنے اہلکاروں سے انتقام لیا۔ 100کی فہرست بھی دونوں نہیں پیش کرسکتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں خون کی پیاس صرف عام لوگوں ، معصوم بچوں اورخواتین کے قتل سے بجھارہے ہیں ۔ایسانہیں ہے کہ اس حقیقت سے دنیا لاعلم ہے، تقریباً روزانہ ہی مہلوکین، زخمیوںیہاں تک کہ پناہ گزینوں کے اعدادوشمار آتے رہتے ہیں۔بھوکے پیاسے لوگوں اورطبی ضروریات کی بھی رپورٹیں آتی رہتی ہیں ۔ سبھی کو پتہ ہے کہ دونوں طرف سے کوئی بھی حملہ ہوتاہے ، اس میں نشانے پر اکا دکا ہی مطلوبہ دشمن آتاہے ، جن کو جنگ کے 3ہفتے بعد بھی انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے۔ صرف عام لوگ مارے جاتے ہیں یا زخمی ہوتے ہیں ۔
دنیا جانتی ہے کہ جنگ اگر جاری رہی تو اس کادائرہ بڑھ بھی سکتاہے ، پھربھی بے حسی کا مظاہرہ سمجھ سے باہر ہے۔جس طرح اسرائیل جنگ کے تعلق سے اپنے خطرناک عزائم کو ظاہر کررہا ہے، بلکہ اعلان کررہاہے۔اس سے مستقبل میں مذکورہ خطہ میں امن قائم کرنا نہایت ہی مشکل ہوگا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جنگ کے تباہ کن اثرات اورخطرات پر سنجیدگی سے غور کیا جائے،پورے خطے کی سیکورٹی کو خطرے میں ڈالنے سے بچایاجائے۔بار بار کشیدگی ، انتقامی کارروائی اورجنگ سے بچنے کیلئے ہمیشہ کیلئے فلسطین کے مسئلہ کو حل کردیا جائے ، ورنہ جب تک مسئلہ حل نہیں ہوگا ، مستقبل میں بھی جنگ کے امکانات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS