ناکام قاہرہ امن اجلاس: اسد مرزا

0

اسد مرزا

’مصر نے مغربی ایشیا میں جاری تنازع میں فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے اور غزہ میں جاری انسانی بحران کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرنے کے لیے قاہرہ امن سربراہی اجلاس کی میزبانی کی، لیکن اس کا نتیجہ جیسا کہ امید کی جارہی تھی کچھ زیادہ خوش آئند نہیں رہا اور نہ ہی اس میں کوئی حکمت عملی وضع کی گئی۔‘
قاہرہ امن اجلاس، مصر کی میزبانی میں اور مصر کے دارالحکومت قاہرہ کے مشرق میں نئے انتظامی دارالحکومت میں منعقد ہوا، جس کی صدارت مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے کی۔اس میں تقریباً ہر عرب ملک اور اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیوگوئتریس نے شرکت کی، جنہوں نے ’اس خوفناک ڈراؤنے خواب کو ختم کرنے‘ کے لیے کارروائی کا مطالبہ کیا، تین فوری اہداف کے ذریعے: غزہ کی پٹی میں محصور شہریوں کو بلا روک ٹوک انسانی امداد، فوری اور غیر مشروط رہائی اور تنازع کو بڑھنے سے روکنے کے لیے تشدد پر قابو پانے کی کوششوں کا عزم ظاہر کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ تنازع صرف دو ریاستی حل سے ہی حل ہو سکتا ہے، ایک اسرائیلیوں کے لیے اور دوسرا فلسطینیوں کے لیے۔ جیسا کہ امید کی جارہی تھی، سمٹ میں اسرائیل کی نمائندگی نہیں ہوئی، کیونکہ وہ خود کو جارح نہیں بلکہ مظلوم کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہے۔ اگر ہم سربراہی اجلاس میں کی گئی تقریروں کا تجزیہ کریں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ ان کے ذریعے خطے میں بڑھتے ہوئے غصے کی عکاسی کی گئی، حتیٰ کہ اسرائیل کے ساتھ قریبی تعلقات رکھنے والے ممالک میں بھی جو اکثر ثالث کے طور پر اسرائیل کے لیے کام کرتے ہیں،انھوں نے بھی اسرائیل کے خلاف آواز بلند کی، لیکن یہ آوازیں بظاہر نقارخانے میں طوطی کی طرح ہی رہیں۔
20 اکتوبر کو اسرائیلی وزیر دفاع Yoav Gallant نے ایک تین مرحلوں پر مشتمل ایک فوجی منصوبہ پیش کیا جس میں فضائی حملے اور زمینی حملے شامل تھے۔لیکن اس سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ اسرائیل کس طرح چھپ کر اور احتیاط کے ساتھ غزہ کے علاقے میں فلسطینی شہریوں جن میں بچے اور عورتیں بھی شامل ہیں، ان پر حملہ کرنا چاہتا ہے اور حماس کے حملے کے 20 دن بعد یعنی 25 اکتوبر کی رات کو اس نے پہلی مرتبہ زمینی جنگ کے لیے کچھ کارروائیاں شروع کیں جن کا اصل مقصد کم سے کم اسرائیلی فوجیوں کے مارے جانے کو یقینی بنانا تھا۔اگر ہم تاریخ کا جائزہ لیں تو ہمیں ایسے بہت سے شواہد مل جائیں گے کہ یہ قوم آپ کی پشت سے ہی حملہ کرتی ہے، کبھی سامنے آکر سینہ بہ سینہ لڑنے کی اس میں جرأت نہیں ہے۔
دوسری طرف یوروپی ممالک جو اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں، وہ عجیب طور پر فلسطینیوں کے زندہ رہنے کے حق، اپنے دفاع کے حق اور مادر وطن کے حق اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے کو مکمل طور پر فراموش کردیتے ہیں۔ مزیدبرآںاجلاس میں شامل وزرا ء کی تقاریر نے اجلاس کے میزبان سمیت یہ بات بالکل واضح ہوگئی کہ ہر عرب ملک فلسطینیوں کی اپنی سرزمین میں بڑی تعداد میں آمد کے بارے میں تشویش رکھتا ہے، کیونکہ اس عمل سے اسے خدشہ ہے کہ دوسری چیزوں کے علاوہ، فلسطینی ریاست کی امیدوں کو شدید نقصان پہنچے گا۔ مصر کو خدشہ ہے کہ بڑے پیمانے پر اخراج سے عسکریت پسندوں کو سینائی میں لانے کا خطرہ ہو سکتا ہے، جہاں سے وہ اسرائیل پر حملے شروع کر سکتے ہیں، جس سے اسرائیل کے ساتھ اس کے امن معاہدے کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔اسی طرح اردن کے شاہ عبداللہ دوم نے، جن کا ملک اسرائیل کے ساتھ سفارتی روابط رکھتا ہے، فلسطینیوں کی جبری بے گھری کو ’غیر واضح طور پر مسترد‘کرنے کا اعلان کیا ہے۔ بین الاقوامی قانون کے مطابق یہ جنگی جرم ہے اور ہم سب کے لیے سرخ لکیر ہے۔لیکن انہوں نے فلسطینی کاز کی حمایت میں کوئی ٹھوس بیان دینے سے گریز کیا۔مجموعی طور پر جو بیان بازیاں مختلف عرب ممالک فلسطین اور اس کے عوام کے حق میں کررہے ہیں وہ محض کھوکھلی باتوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ انھیں کی پشت پناہی کی وجہ سے اسرائیل کی دفاعی سازو سامان کی تجارت دن بہ دن وسعت پا رہی ہے۔ اسٹاک ہوم کے SIPRI انسٹی ٹیوٹ کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال اسرائیل کے دفاعی برآمدات کا 25فیصد حصہ ان عرب ممالک نے خریدا تھا۔ یعنی کہ ایک طریقے سے یہ عرب ممالک اسرائیلی حکومت اور اس کی کمپنیوںکو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ کیونکہ انھیں مختلف مغربی ممالک سے یہ جتایا جاتا ہے کہ انھیں ایک دوسرے سے خطرہ ہے۔ اگر یہی تمام عرب ممالک اس بات کا اعلان کردیں کہ جب تک مسئلہ فلسطین کا کوئی مثبت حل نہیں نکلتا ہے یا دوبارہ سے فلسطینی مملکت قائم نہیں ہوتی ہے تب تک وہ اسرائیل سے اسلحہ نہیں خریدیں گے تو دیکھئے پھر اس کا کیا اثر ہوتا ہے۔
دوسری جانب اس عالمی مسئلے کا اثر ہندوستان میں بھی دیکھنے کو مل رہا ہے اور جس طریقے سے ملک کی دائیں بازو کی طاقتیں اسرائیل کے حق میں اپنی حمایت کا اعلان کررہی ہیں وہ نہ صرف فلسطینی کاز کے خلاف ہے بلکہ خود حکومت ہند کے دیرینہ اور موجودہ موقف کے بھی برخلاف ہے۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ ہوسکتی ہے کہ ذہنی طور پر ان دائیں بازو کی طاقتوں اور اسرائیلی حکومت کی سوچ میں بہت یکسانیت پائی جاتی ہے اور دونوں کا مشترکہ دشمن عام مسلمان ہیں۔ جہاں بات مسلمانوں کی ہورہی ہے تو ایک بات اور قابلِ ذکر ہے کہ مختلف غیر سرکاری اورملی تنظیمیں فلسطینیوں کی مدد کے نام پر عام افراد سے مالی اور مادی مدد کرنے کی اپیل کررہی ہیں۔ تو یہاں ایک بات بہت واضح ہوجائے گی کہ جس طریقے سے اسرائیل نے فلسطینی علاقوں کو ہر طرف سے گھیرا ہوا ہے تو اس پس منظر میں کوئی بھی تنظیم اتنا اثر و رسوخ نہیں رکھتی ہے کہ وہ کسی بھی طریقے کی مالی و مادی امداد فلسطینی عوام یا فلسطینی حکومت تک پہنچا سکے۔اس لیے ہمیں ہوش سے کام لیتے ہوئے اپنی امداد اقوامِ متحدہ کی مختلف ایجنسیوں جیسے کہ UNRWA اور یونیسف جیسی تنظیموں کو پہنچانی چاہئے، جس سے ہمیں یہ یقین رہے کہ یہ امداد ضرورت مندوں تک پہنچ سکے گی۔ ساتھ ہی آپ یہ بھی جان لیں کہ آپ جو مالی امداد ملکی یا غیر ملکی غیر سرکاری تنظیموں کو دیتے ہیں وہ اس میں سے 32 فیصد اپنے تنظیمی اخراجات کے لیے اپنے پاس رکھ لیتی ہیں یعنی کہ آپ کے ایک روپے میں سے صرف 68 پیسے یا اس سے بھی کم مستحق افراد تک پہنچ سکتے ہیں۔تو اپنی امداد کو ان تنظیموں کو دیں جو یقینی طور پر آپ کے پیسے کو مستحق لوگوں تک پہنچا سکیں۔اس کے علاوہ ہمیں بہت ہی احتیاط کے ساتھ مغربی اور صہیونی انفارمیشن پروپیگنڈے کا بھی سامنا کرنا ہے، جس طریقے سے مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمس پر فلسطینیوں کے حق میں بات کرنے والوں کو ٹرول کیا جارہا ہے اس کا ہمیں مثبت طریقے سے صحیح معلومات کے ذریعے جواب دینا چاہیے۔کیا آپ کو معلوم ہے کہ 1974 سے لے کر 2023 تک امریکہ میں فلسطینی مسئلے کے حل کے لیے اقوام متحدہ میں پیش کی گئی 36قراردادوں کوویٹو یا نامنظور کیا ہے۔جس سے کہ امریکہ کا اصلی چہرہ بالکل واضح ہوجاتا ہے۔ اسی درمیان جس طریقے سے امریکہ نے اپنے دو جنگی بحری جہاز مغربی ایشیا کے مختلف علاقائی سمندروں میں بھیجے ہیں ان کے جواب میں چین نے اپنے 5 جنگی بحری جہاز ان علاقوں میں بھیج دیے ہیں اور اگر یہ دونوں ممالک سرکردہ طور پر کوئی بھی جنگی اقدام لیتے ہیں تو اس کا منفی اثر نہ صرف خطے بلکہ عالمی امن پر بھی بہت دورتک پڑے گا۔اس لیے کوشش یہی کی جانی چاہیے کہ خاص طور سے امریکہ کو اور مختلف مغربی ممالک کو کہ وہ فلسطینی عوام کے حق میں اپنے موجودہ موقف میں تبدیلی لائیں اور اس مسئلے کو ثالثی کے ذریعے حتمی طور پر حل کیا جائے تو یہ سب کے لیے بہتر رہے گا اور اس کے ذریعے عالمی امن کو قائم کرنے میں بھی وسعت حاصل ہوسکتی ہے۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS