جی-7 کا سربراہ اجلاس

0

دنیا کے کسی بھی خطے میں اگر جنگ ہو رہی ہو یا جنگ ہونے کا خدشہ ہو تو کسی بڑے گروپ کی تشکیل یا اس کے سربراہ جلاس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے، اسی لیے اس بار جرمنی میں ہونے والے جی-7 کے سربراہ اجلاس کی زیادہ اہمیت ہے۔ خود اولاف شولتس کے لیے یہ اجلاس بے حد اہم ہے، وہ جرمنی کے چانسلر کی حیثیت سے پہلی بار جی-7 کے سربراہ اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں اور یہ اجلاس اس وقت ہو رہا ہے جب یوکرین کی جنگ نے دوسری عالمی جنگ کے بعد یوروپ کے لیے ایک بڑا مسئلہ پیدا کر دیا ہے، امریکہ کے لیے اس جنگ میں طویل عرصے تک روس کا پھنسے رہنا اور اس کی طاقت کم ہونا اچھا ہے مگر روس نے یوکرین پر اگر قبضہ کر لیا تو پھر وارسا پیکٹ کے دنوں جیسے حالات بن جائیں گے، مشرقی اور وسطی یوروپ کے ممالک خود بخود روس کے دائرۂ اثر میں آجائیں گے۔ جی-7 کا سربراہ اجلاس فومیوکیشیدا کے لیے بھی اہم ہے، جاپان کے وزیراعظم کی حیثیت سے وہ پہلی بار جی-7 کے سربراہ اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں، ان کے لیے یہ نظر انداز کرنا مشکل ہوگا کہ روس کی یوکرین کے خلاف جنگ نے چین کے لیے کچھ آسانیاں پیدا کر دی ہیں۔ اس موقع کا فائدہ اٹھاکر اگر وہ تائیوان پر حملہ کرتا ہے اور اگر امریکہ جوابی کارروائی کرتا ہے تو دوسری عالمی جنگ کے بعد یہ پہلا موقع ہوگا جب جاپان کو فوجی طاقت کے اظہار کے لیے تیار رہنا ہوگا، کیونکہ وہ بھی کواڈ کا حصہ ہے۔ اس کے علاوہ بحیرۂ شرقی چین میں جنوبی کوریا کی طرح اس کے علاقے پر بھی چین دعویٰ کرتا ہے۔
کنیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان، برطانیہ، امریکہ، یوروپی یونین جی-7 کے ممبر ہیں مگر اس کے 48 ویں سربراہ اجلاس میں ممبر ملکوں کے سربراہان کے علاوہ کئی ملکوں اور اداروں کے سربراہوںکو بھی مدعو کیا گیا ہے۔ اس اجلاس میں وطن عزیز ہندوستان کے علاوہ یوکرین، انڈونیشیا، ارجنٹائنا، جنوبی افریقہ، سینیگال کو مدعو کیا گیا ہے۔ یوکرین کو مدعو کرکے یہ اشارہ دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ امریکہ اور یوروپی ممالک اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ 26 جون کو جی-7 کے سربراہ اجلاس کے دوران برطانوی حکومت کی طرف سے یہ بات کہی گئی کہ ’برطانیہ، امریکہ، کنیڈا اور جاپان یوکرین میں جنگ سے لطف اندوز ہونے والے ماسکو کی صلاحیت پر حملہ کرنے کے لیے روسی سونے کی درآمد پر پابندی لگائیں گے۔‘ امریکہ کے صدر جو بائیڈن کی بھی تجویز ہے کہ ’جی-7 کے دیگرممالک جرمنی، فرانس اور اٹلی بھی یہ پابندیاں لگائیں گے۔‘ ان کے مطابق، ’روس سے سونے کی برآمدات کی مالیت اربوں ڈالر ہے اور جی-7 ممالک بیک وقت روسی سونے کی درآمد پر پابندی لگا دیں گے۔‘ 24 فروری، 2022 کو یوکرین کے خلاف روس کے جنگ چھیڑنے کے بعد سے امریکہ اور یوروپی ممالک اس کے بینکوں، سرکاری اور کاروباری اداروں پر مختلف طرح کی پابندیاں عائد کرچکے ہیں۔ اس کے باوجود ولادیمیر پوتن نے جنگ ختم کرنے کا اشارہ نہیں دیا ہے۔ غالباً وہ جاڑے کا انتظار کر رہے ہیں جب روسی گیس کی یوروپی ممالک کو زیادہ ضرورت محسوس ہوگی اور وہ اس وقت بھرپور قیمت وصول کرلیں گے۔ اسی لیے 26 جون کو یوکرین کے دارالحکومت کیف پر روس نے 4 کروز میزائل فائر کیے۔ ظاہر ہے، یہ اشارہ تھا کہ روس کو بدلتے حالات کا احساس ہے اور وہ جوابی کارروائی کے لیے تیار ہے۔
جی-7 کا سربراہ اجلاس ہمارے ملک کے لیے بھی اہم ہے، کیونکہ یوکرین جنگ کے بعد یہ پہلا سربراہ اجلاس ہے جس میں وزیراعظم مودی مدعو کیے گئے ہیں۔ یوکرین جنگ کے سلسلے میں امریکہ ہندوستان کا بھی وہی رول چاہتا ہے جو وہ یوروپی ممالک سے چاہتا ہے مگر ہمارے ملک کے لیے روس کی دوستی کو نظرانداز کرنا مشکل ہے۔ افغان جنگ ختم کرنے کے لیے ہوئے مذاکرات کے وقت امریکہ نے یہ خیال نہیں کیا تھا کہ افغانستان کی تعمیر نو میں ہندوستان کا کافی اہم رول ہے، اس خطے کا وہ سب سے بڑا عطیہ کنندہ ہے مگر روس نے افغانستان کے سلسلے میں اس کا رول سمجھا۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ جی-7 کے سربراہ اجلاس میں جانے سے قبل وزیراعظم نریندر مودی کی طرف سے جاری ایک آفیشیل بیان میں یہ بات بتائی گئی تھی کہ ’وہ جی-7 ملکوں اور مہمانوں کے ساتھ ماحولیات، توانائی، آب و ہوا، غذائی تحفظ، صحت، دہشت گردی، صنفی مساوات اور جمہوریت جیسے ایشوز پر گفتگو کریں گے۔‘اس سے یہ بات ناقابل فہم نہیں رہ جاتی کہ ہمارا ملک کن ایشوز کو اہم سمجھتا ہے، اس لیے جی-7 کا سربراہ اجلاس اس کے لیے ایک پلیٹ فارم ہے دنیا کے اہم ایشوز کی طرف توجہ دلانے کے لیے، نہ کہ کسی ملک کے خلاف صف بندی کا حصہ بننے کے لیے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS