سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ

0

مرکز کی مودی حکومت میں جس طرح احتساب اور جوابدہی کا تصوربدل چکا ہے، ٹھیک اسی طرح شفافیت اور غیر جانبداری جیسے اخلاقی اصول بھی طاق پررکھ دیے گئے ہیں۔ ہر وہ کام جس کا نتیجہ حکومت کے حق میں نکلے، وہ شفاف اور غیر جانبدارٹھہرتا ہے، چاہے اس میں کتنی ہی جانبداری اور غیرشفافیت کیوں نہ برتی گئی ہو، اس پر سوال اٹھانا مواخذہ کو دعوت دینا ہوتا ہے۔ بعض اوقات تو ایسا ہوتا ہے کہ حکومت صاف صاف کہہ دیتی ہے کہ عوام کوجاننے اور سوال کرنے کا بھی کوئی حق نہیں ہے۔ پی ایم کیئر فنڈ کی بھاری رقوم کی پردہ پوشی بھی اسی طرح کی گئی، اب انتخابی بانڈ کے ذریعہ سیاسی جماعتوں کو ملنے والے بھاری بھرکم عطیات کے سلسلے میں بھی یہی کہاجارہاہے کہ عوام کو فنڈنگ کے ذرائع جاننے کا کوئی حق نہیں ہے۔اس کیلئے قانون کی الگ الگ تفہیم کی جارہی ہے۔ حکومت کے اٹارنی جنرل رازداری کے بنیادی حق کی دلیل تراش رہے ہیں تو سالیسٹر جنرل عدالت کو انتخابی فنڈنگ میں کالے دھن کو ریگولیٹڈاسکیم کی جانب لے جاکرمعیشت کو مضبوط کرنے کے ست رنگے خواب دکھارہے ہیں۔
چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی قیادت میں پانچ ججوں کی بنچ کی انتخابی بانڈز سے متعلق کیس کی سماعت کے آج دوسرے دن بھی حکومت نے یہی سب دلیلیں دیں اور کہا کہ سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ کرنے والوں کی رازداری برقرار رکھنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ یاد رہے کہ 2017 سے 2022 کے درمیان اسٹیٹ بینک آف انڈیا نے 9 ہزار 208 کروڑ 23 لاکھ روپے کے انتخابی بانڈ فروخت کیے ہیں۔ اس میں سب سے زیادہ پیسہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو ملا ہے۔آج کی سماعت کے دوران عدالت نے اپنی پچھلی ہدایات کا حوالہ دیتے ہوئے سیاسی جماعتوں کو کہا کہ وہ30ستمبر 2023تک انتخابی بانڈز کے ذریعہ حاصل ہونے والی رقم کے بارے میں معلومات سیل بند لفافے میں الیکشن پینل کو جمع کرائیں۔ اس سے پہلے عدالت نے مرکزی حکومت سے کچھ سنجیدہ سوالات بھی پوچھے۔ سی جے آئی چندرچوڑ نے پوچھاکہ ایسا کیوں ہے کہ جو پارٹی اقتدار میں ہے، اسے سب سے زیادہ چندہ ملتا ہے؟حکومت کی جانب سے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ عطیہ کرنے والا ہمیشہ پارٹی کی موجودہ حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے چندہ دیتا ہے۔سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ اپوزیشن جماعتوں کو چندہ دینے والے لوگوں کا پتہ نہیں چل سکتا لیکن کم از کم تحقیقاتی ایجنسیاں ’اپوزیشن پارٹیوں کو چندہ دینے والوں‘ کا پتہ لگا سکتی ہیں۔
عدالت کا یہ سوال اور تبصرہ دراصل انتخابی بانڈز کی غیر شفافیت کے حوالے سے اپوزیشن اور عوام کے تحفظات اور خدشات کی نمائندگی کررہے ہیں۔ یہ مقدمہ بھی اسی بنیاد پر دائر کیاگیا ہے۔عرضی گزار غیر سرکاری تنظیموں ’کامن کاز‘ اور ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز (اے ڈی آر) کی دلیل ہے کہ یہ اسکیم ایک ’خفیہ فنڈنگ سسٹم ‘ ہے جس پر کسی ادارے کا کنٹرول نہیں ہے۔ اس اسکیم کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ غیرشفاف ہو گئی ہے۔ اسکیم کے خد وخال ایسے مرتب کیے گئے ہیں کہ اپوزیشن کو چندہ دینے والوں کی پوری تفصیلات حکومت کے پاس ہوں گی اوروہ اسے اپنے مفاد میں استعمال کرسکتی ہے جب کہ حکومتی جماعت کے عطیہ دہندگان کے بارے میں مکمل رازداری کا اہتمام کیاگیا ہے۔اس سے قبل سیاسی جماعتوں کو کسی فرد یا صنعتی گھرانے کی جانب سے جو بھی عطیات دیے جاتے تھے، اس کا انکشاف کرنا پڑتا تھا اور سیاسی جماعتوں کو یہ بھی بتانا پڑتا تھا کہ انہوں نے کس سے کتنا عطیہ وصول کیا۔ لیکن انتخابی بانڈز کو آر ٹی آئی کے دائرہ سے باہر رکھا گیا ہے اوربانڈ کے خریدار کی شناخت بھی پوشیدہ رکھی جاتی ہے۔سیاسی جماعت کو انتخابی بانڈز موصول ہونے کے 15 دنوں کے اندر اپنے اکاؤنٹ میں جمع کروانا ہوتے ہیں۔ بانڈ کوکیش کرانے والی پارٹی کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے کہ اسے بانڈ کہاں سے ملا ہے۔ دوسری طرف اسٹیٹ بینک آف انڈیا کو بھی یہ بتانے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا کہ اس سے کتنے بانڈز کس نے خریدے۔ اس پر آر بی آئی اور مرکزی الیکشن کمیشن دونوں پہلے ہی اعتراض درج کراچکے ہیںاور اب یہ معاملہ عدالت میںہے۔
حکومت انتخابی بانڈز کے سلسلے میں چاہے جتنی دلیلیں تراشے، جواز بتائے اور جاگتی آنکھوں کے ست رنگے خواب دکھائے مگر حقیقت یہ ہے کہ انتخابی بانڈزشفاف اور جمہوری فنڈنگ کے برخلاف کھلے طور پر رشوت ہیں جس کی وصولی کیلئے بی جے پی نے یہ ناٹک رچا ہے۔معروف وکیل پرشانت بھوشن نے بجا طور پر کہا ہے کہ یہ بانڈز صرف رشوت ہیں، جو حکومتی فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
شہریوں کو یہ جاننے کا حق ہے کہ کس پارٹی کے پاس پیسہ کہاں سے آیا۔ بھوشن نے کہا کہ مرکزی حکمراں جماعت کو کل عطیات کا 60 فیصد سے زیادہ ملا۔ اگر کسی شہری کو امیدواروں، ان کے اثاثوں، ان کی مجرمانہ تاریخ کے بارے میں جاننے کا حق ہے تو اسے یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ سیاسی جماعتوں کو کون فنڈنگ کر رہا ہے؟
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS