کساد بازاری سے دیوالیہ پن کی جانب

0

تباہ کن وبا کورونا کے بعد معاشی بحالی کے جو خوش نما امکانات ظاہر کیے گئے تھے، ان کا اب بھی دور دور تک پتہ نہیں ہے اور اس کی جگہ ایک دوسرے تباہ کن معاشی بحران نے لے لی ہے اور ہمیں کشاں کشاں دیوالیہ پن کی جانب لیے چلاجارہاہے۔افراط زر میں مسلسل اضافہ سے روپے کی قدر میں گراوٹ کا تسلسل برقرار ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ مہنگائی بھی اپناحجم بڑھاتی جارہی ہے۔ اس سنگین اور تباہ کن صورتحال سے نمٹنا جن اداروں اور مقتدر ہستیوں کی ذمہ داری تھی، ان کا ایجنڈہ بھی بدل گیا ہے۔ عوام کی دشواری، دکھ، درد، تکلیف کا سد باب کرنے کے بجائے ان پر مہنگائی کے تازیانے برسائے جارہے ہیں۔ آج بدھ کے دن تیل کمپنیوں نے گھریلو استعمال والی رسوئی گیس کی قیمتوںمیں 50روپے فی سلنڈر کا ظالمانہ اضافہ کردیا ہے۔ پہلے کی طرح ہی آج بھی اس اضافہ کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی تاہم یہ ضرور کہاگیا ہے کہ قیمتوں میںا ضافہ کا اطلاق آج سے ہی ہوگا۔اس فیصلے کے بعد اب کولکاتا میں 14.2کلو گرام وزن کا رسوئی گیس والا ایک سلنڈر1079روپے، دہلی میں 1053 روپے، ممبئی میں 1053 روپے اور چنئی میں 1068.50 روپے کا ہوگیا ہے۔اس سے صرف دو مہینے قبل مئی میں دوبار قیمتوں میں اضافہ کیاگیاتھا،7 مئی کو 50 روپے اور 19 مئی کو 3 روپے فی سلنڈر کا اضافہ کیا گیا تھا۔ اس طرح گھریلو استعمال میںآنے والی رسوئی گیس کا سلنڈر 2 ماہ میں 103 روپے مہنگا ہو گیا ہے۔یہی صورتحال5کلو گرام والے سلنڈر کے ساتھ بھی ہے، اس کی قیمت میں بھی 18 روپے فی سلنڈر کا اضافہ کیاگیا ہے۔گزشتہ ایک سال کے دوران رسوئی گیس کی قیمتوں میںکم و بیش 30فیصد یعنی 250روپے سے300روپے تک کا اضافہ کرکے گھریلو گیس سلنڈر کی قیمتوں نے نیا ریکارڈ قائم کر دیا ہے۔
ایل پی جی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے کروڑوں خاندانوں کا بجٹ متاثر ہو رہا ہے۔ایک انداز ے کے مطابق ہندوستان میں 70فیصد سے زیادہ گھرانے کھانا پکانے کیلئے بطور ایندھن رسوئی گیس کا استعمال کرتے ہیں، اس لیے قیمتوں میں اضافے سے کم از کم 70 فیصد یعنی تقریباً 30 کروڑ خاندان متاثر ہیں۔اس کے علاوہ بھی ہزاروں خاندان ایسے ہیں جنہوں نے اجولا اسکیم کے تحت ایل پی جی اور چولہے لیے ہیں لیکن مہنگائی کی وجہ سے اس کااستعمال نہیں کرپارہے ہیں۔
تیل کمپنیاں اس اضافہ کی وجہ تو نہیں بتارہی ہیں لیکن ان پر کنٹرول نہ رکھنے کا دعویٰ کرنے والی مرکزکی مودی حکومت تیل کمپنیوں کے بچائو میں سب سے آگے آگے ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ روس- یوکرین جنگ کی وجہ سے عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے اور رسوئی گیس چونکہ خام تیل کی ہی ذیلی پیداوار ہے، اس لیے اس میں اضافہ مجبوری ہے۔
تھوڑی دیر کیلئے اضافہ کی و جہ عالمی صورتحال اور روس- یوکرین جنگ کو مان بھی لیاجائے تو اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتا ہے کہ بے سمت معاشی پالیسی کی وجہ سے افراط زر میں ہونے والا بے تحاشا اضافہ اور عالمی منڈی میں روپیہ کی روز افزوں گرتی قدراس مقام پر لے آئی ہے کہ ہندوستان کے لوگوں کو اپنے گھر کا چولہاروشن رکھنے کیلئے بہت کچھ رہن رکھنا پڑرہاہے۔ جولائی 2021 میں ایک امریکی ڈالر کے مقابلے میںہندوستانی روپیہ 75 کی قدر کے آس پاس تھا لیکن اب یہ 79 کا ہندسہ عبور کر چکا ہے۔ تاریخ میں اس سے پہلے کبھی روپیہ ڈالر کے مقابلے میں اتنا کمزور نہیں ہوا۔ اس کا اثر خام تیل کی قیمت اور پھر ایل پی جی کی قیمتوں پر بھی پڑ رہا ہے۔اس اضافہ سے براہ راست گھریلو بجٹ متاثر ہورہاہے۔ قیمتیں بڑھ رہی ہیں اور معیارزندگی میں گراوٹ آ رہی ہے۔کھانے پینے اور پکانے پر اضافی خرچ کی وجہ سے لوگ کھانے پینے میں کمی کرنے لگتے ہیں جس سے ان کی صحت متاثر ہوتی ہے۔
ریزروبینک آف انڈیا افراط زر کے جن کو بوتل میں بند کرنے کی مسلسل کوششیں کررہاہے، کسی سنگین معاشی گراوٹ کے بغیر افراط زر کی شدت ختم کرنے کیلئے ہر تین مہینہ پر ریپو ریٹ اور ریورس ریپو ریٹ میں اضافہ بھی کیاجارہاہے، اس کے باوجود اگر صورتحال نہیں سنبھل رہی ہے توکہیں نہ کہیں کوئی ٹیڑھ موجود ہے اور ’ صاف نیت‘ کا دعویٰ بھی محض ریاکاری ہے۔اپنی کوتاہ بینی، کم عقلی اور بے سمتی کا ملبہ عالمی منڈی اورروس- یوکرین جنگ پر ڈال کر عوام کو مہنگائی اور سرمایہ دارانہ استبدادکے حوالے کردینے کا رویہ ملک کو کساد بازاری سے دیوالیہ پن کی جانب لے جائے گاجس کا کشتہ ستم ہمارا پڑوس بنا ہوا ہے۔ بہتر ہے کہ مہنگائی کے خلاف جنگ میں مرکزی حکومت اپنی نیت صاف رکھے اور حکومتوں کو گرانے، منہدم کرنے اور حزب اختلاف کو سزایاب کرنے کا خرچ عوام سے وصول نہ کرے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS