ہندوستان میں آزادیٔ صحافت

0

محمد فاروق اعظمی

ایک طرف اردو دنیا اردو صحافت کے 200سال کی تکمیل کا جشن منارہی ہے تو دوسری جانب اقوام متحدہ نے 3مئی کو آزادیٔ صحافت کا عالمی دن بھی منایا۔ہر چند کہ اس سال 2022 میں عالمی یوم صحافت کیلئے اقوام متحدہ کی تھیم ’ میڈیا انڈر ڈیجیٹل سیج‘ یعنی ’ ڈیجیٹل محاصرے میں میڈیا‘ طے کی گئی ہے لیکن اس عالمی دن کی نسبت سے دنیا بھر میں صحافت، اظہار رائے کی آزادی، میڈیا کا کردار، عوام پراس کے اثرات اور میڈیا کے ساتھ مختلف ممالک کے سلوک کا بھی جائزہ لیا گیا۔ اس موقع سے ’رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز‘نے ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس بھی جاری کیا ہے جس میں دنیا کے مختلف ممالک میں صحافت اور میڈیا کی درجہ بندی کی گئی ہے۔اس درجہ بندی میں ہندوستان 2022 میں 180 ممالک میں سے150 ویں نمبر پر ہے جب کہ گزشتہ سال2021میںہندوستان 142ویں مقام پر تھا۔ 2016 میں 133ویںنمبر پر تھا، اس کے بعد سے ہندوستان کی درجہ بندی میں لگاتارگراوٹ آرہی ہے۔ اس گراوٹ کی وجہ ’ صحافیوں کے خلاف تشدد‘ اور’ سیاسی طور پر متعصب میڈیا‘ میں اضافہ بتایاگیا ہے۔اس کے ساتھ ہی ہندوستان کو میڈیا والوں کیلئے دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک بتایاگیا ہے جہاںصحافیوں کو ہر قسم کے جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔یہ بھی کہاگیا ہے کہ ہندوستان میں صحافیوں کو پولیس تشدد، سیاسی کارکنوں کی طرف سے زدوکوب اور شرپسند اور جرائم پیشہ گروہوںاور بدعنوان سرکاری اہلکاروں کی طرف سے مہلک انتقام کا بھی سامنا رہتا ہے۔پریس فریڈم انڈیکس میں 8پوائنٹ مزید نیچے چلے جانے کا مطلب یہ ہے کہ ہندوستان میںمیڈیا کا مطلوب آزادانہ کردار مزید کم ہوگیا ہے۔میڈیا کا کمزور ہوتا یہ کردار ہندوستان میں جمہوریت کیلئے سنگین خطرہ کااشارہ ہے۔
اس سال کی تھیم میں مختلف ممالک میں اظہار خیال اور میڈیا کی آزادی کو بھی موضوع بحث بنایاگیا ہے۔ آزادی اظہار، صحافیوں کی حفاظت، معلومات تک رسائی اور رازداری پر ڈیجیٹل دور کے اثرات اور ان سب کیلئے درپیش چیلنج کے ساتھ ہی ملکوں کی ترقی، خوشحالی اور جمہوریت کیلئے صحافت و میڈیا کی آزادای کو پیمانہ بناکر میڈیا کی مسلمہ حیثیت دنیا کے سامنے لانے کی کوشش کی گئی ہے۔ نیز سوشل میڈیا، صحافیوںاور مین اسٹریم میڈیا کارکنوں پرحکومتوں کے حملے اورصحافیوں کی آواز دبانے کی کوشش کو بھی اس عنوان میں شامل کرکے اقوام متحدہ نے فی زمانہ میڈیا کی اصل حقیقت و حیثیت کے جائزہ کا بھی موقع فراہم کیاہے۔
ایک صحت مند اور مضبوط جمہوریت کیلئے ایک مضبوط اپوزیشن کے ساتھ ساتھ آزاد میڈیابھی ضروری ہے۔ جمہوری سیاسی نظام میں میڈیا کے کردار کی اہمیت کا اندازہ اسی سے لگایاجاسکتا ہے کہ اسے جمہوریت کاچوتھا ستون کہاگیا ہے لیکن اس کا کام جمہوریت کے باقی تین ستون عاملہ، عدلیہ اور مقننہ سے کہیں زیادہ اہم ہے۔میڈیا اپنے اصل کردار میں ان تینوں ستون عاملہ، عدلیہ اور مقننہ پر نظر رکھنے کاکام کرتاہے بلکہ ان کی کارکردگی کا جائزہ لے کر عوام کو حقیقت حال سے آگاہ کرتا ہے۔حکومت کی پالیسیوں اور پروگراموں پر تبصروں اور تنقید کے ذریعے عوام کے سامنے حقیقت پیش کرتا ہے۔ اہم پالیسیوں کے مفہوم کی وضاحت کرتا ہے۔ جمہوریت کی ریڑھ سمجھی جانے والی رائے عامہ کی تشکیل بھی میڈیا ہی کرتا ہے۔ قومی اوربین الاقوامی معاملات پربحث و مباحث، بے لاگ تبصرے اور تنقید کے ذریعہ حکومتوں کو چوکنا رکھتا ہے اور کسی بھی غلط کام کے نتائج سے خبردار کرتا ہے۔ آج کی معاشی اور ثقافتی عالمگیریت کا سہرابھی اسی آزاد میڈیا کے سر ہے جس نے اپنی رسائی سے دنیا کو ایک خاندان بنانے اور سمجھنے کے تصور کو فروغ دینے میں اہم ترین کردا ر ادا کیا ہے اور لوگوں کو قومی حدود عبو ر کرکے ایک دوسرے سے ذہنی طور پر جڑنے میں مدد دی ہے۔ لیکن ہندوستان میں میڈیا کا یہ اصل کردار آج ختم ہوتانظرآرہا ہے۔ آزادیٔ صحافت بدترین زوال کا شکار ہوگئی ہے، میڈیا اپنے فرائض کی بجاآوری اور حکومت کے کام کاج پر تنقیدو تبصرے کے بجائے حکومت کے ترجمان کا فرض نبھا رہا ہے۔ صحیح معلومات سے محروم رکھ کر عوام کو غلط اطلاعات اور من گھڑت مسائل سے گمراہ کیا جارہا ہے۔ بغیر کسی معلومات کی جانچ پڑتال کے میڈیا کی طرف سے جھوٹ اور سچ کی آویزش سے ایسا مواد پیش کیاجارہاہے جو قصہ کہانی سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے ہیں۔میڈیا کے اس بگاڑ میں ٹیلی ویژن چینل سب سے پیش پیش ہیں۔ پہلے یہ ٹی وی چینل جادوٹونا، ناگ ناگن کی کہانی اور بابائو ں کے قصے سنایاکرتے تھے پھر جرائم، کرکٹ، سٹے بازی، سنیما او ر ڈرامے ان کا مرغوب بن گئے۔اب یہ ٹیلی ویژن چینل توہین آمیززبان، گمراہ کن خبروں اور اشتعال انگیز عنوانات سے مسلمانوں کی کردار کشی کے ساتھ ساتھ جوہری ہتھیاروں کے استعمال اور دنیا کے خاتمے کے خطرات سے عوام کو خوف زدہ کرنے میں لگے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کی ساکھ ختم ہورہی ہے، لوگوں کا اعتبار اٹھ گیا ہے اور لوگ میڈیا کو بازاری اور پالتو کہنے لگے ہیں۔
جمہوریت اس کے اہم ترین ستون کی اس بدترین زوا ل کی ذمہ دار صرف حکومت ہی نہیں بلکہ خود میڈیا بھی ہے جس نے حکمرانوں، سیاسی جماعتوں اور لیڈروں کے یہاں خود کو گروی رکھ دیا ہے اور عوام کے بجائے حکومت کا ترجمان بن بیٹھا ہے۔حالیہ اسمبلی انتخاب کے دوران میڈیا نے جو شرمناک کردار ادا کیا اس نے اس کی رہی سہی ساکھ بھی ختم کردی۔ وزیراعظم اور بی جے پی کے وزرائے اعلیٰ کے سامنے صحافیوں کو سرنگوں ہوتے دیکھاگیا۔ اترپردیش اسمبلی انتخاب میں ایک میڈیا ہائوس کی ’ کوریج بس‘ کو وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے خود ہری جھنڈی دکھاکر یہ بتادیا کہ میڈیا جمہوریت کا ستون نہیں بلکہ بی جے پی اور حکومت کے گھر کی لونڈی بن چکا ہے۔مدھیہ پردیش میں سوشل میڈیا سے وابستہ صحافیوں کو ننگا کرکے پولیس نے بھی یہی پیغام دیا ہے کہ اظہار رائے اور میڈیا کی آزادی کا مطلب صرف اور صرف حکومت اور سیاست دانوں کی ترجمانی ہے، اس کے علاوہ میڈیا کو برداشت نہیں کیاجائے گا۔ پریس فریڈم انڈیکس اور کم ہوتی جمہوریت ان کیلئے کوئی معنی نہیں رکھتی اور نہ یہ اعدادوشمار ان کی انتخابی حکمت عملی میں رکاوٹ بنیں گے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS