جنگلات کو بچانا ہوگا

0

چندرشیکھر تیواری

زمین پر موجودہ قدرتی وسائل میں جنگلات کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔ فطرت کے آب و ہوا کے ضابطے میں جنگلات کا کردار سب سے اوپر رہتا ہے۔ جنگلات سے جہاں بارش ہوتی ہے، وہیں ایک اچھا جنگل کا علاقہ زیرزمین پانی کی سطح بڑھانے میں مددگار ہوتا ہے۔ جنگلات میں گرنے والی سوکھی پتیاں سڑھنے کے بعد زمین کو زرخیز بناتی ہیں۔ مختلف نباتات، جڑی بوٹیوں اور چرند،پرند کو پناہ جنگلات میں ہی ملتی ہے۔ جنگلات کا تنوع اور ہریالی قدرتی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں۔ اس سے جنگلات کی سیاحت کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔ کل ملاک کر کہا جاسکتا ہے کہ جہاں جنگلات ماحولیات کی اہم بنیاد ہوتے ہیں، وہیں یہ انسانی معاش کے اہم ذرائع بھی ہیں۔ کھانا بنانے کے لیے ایندھن کی لکڑی سے لے کر کھیتی و مویشی پروری کے لیے چارہ-پتّی و متعدد اشیا کی دستیابی جنگلوں سے ہی ہوتی ہے۔
عام طور پر ہمارے ملک میں 200سینٹی میٹر سے زیادہ بارش والے علاقوں میں سدابہار چوڑی پتی والے جنگل اور سو سے 200سینٹی میٹر بارش والے حصوں میں مانسونی جنگلات پائے جاتے ہیں۔ ان جنگلات میں روزووڈ، ساگون، چیڑ و سال کے درخت پائے جاتے ہیں۔ جن جنگلات میں 50سے 100سینٹی میٹر بارش ہوتی ہے، وہ خشک جنگل کہے جاتے ہیں اور ان میں ببول، کھیجڑا جیسی کانٹے دار نسل کے درخت پائے جاتے ہیں۔ 50سینٹی میٹر سے کم بارش والے علاقوں میں اکثر نیم صحرائی جنگلات پائے جاتے ہیں۔ ہندوستان کے کل جنگلاتی علاقوں میں 93فیصد ٹروپیکل فاریسٹ اور 87فیصد سمندری جنگل پائے جاتے ہیں۔ اس میں سے 95.7فیصد جنگل ریاستی حکومتوں، 2.8فیصد کارپوریشن اور باقی ڈیڑھ فیصد پرائیویٹ اداروں کے ماتحت آتے ہیں۔
اعدادوشمار کے مطابق ہندوستان میں کل زمینی رقبہ کا 8لاکھ 7ہزار 276مربع کلومیٹر یعنی 24.56فیصد حصہ جنگلات و درختوں سے ڈھکا ہوا ہے۔ جب کہ حقیقت میں یہ جنگلاتی علاقہ اس سے کہیں کم بیٹھتا ہے۔ ہندوستانی جنگلاتی سروے کے2019کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ ہندوستان میں جنگل کا احاطہ 7لاکھ12ہزار249مربع کلومیٹر ہے جو کل جغرافیائی زمینی رقبہ کا 21.67فیصد ہے۔ ہندوستان کی ریاستوں میں جنگلات کی حالت دیکھیں تو ان کی تقسیم یکساں طور پر نظر نہیں آتی۔ اس کے اصل میں کئی اسباب ہیں۔ راجستھان، پنجاب، ہریانہ اور گجرات جیسے علاقوں میں قلیل بارش ہونے کے سبب جنگلاتی علاقہ بہت کم ہے۔ ہریانہ و پنجاب میں زراعتی اراضی کی توسیع کے لیے جنگلوں کا صفایا کرنے سے وہاں جنگلاتی علاقوں میں کمی آگئی۔ مغربی بنگال، اترپردیش و بہار میں بھی یہی حالت ہے۔ کم بارش، کھڑی بنجرڈھلوان اور برف کے حصہ کی زیادتی کے سبب جموں و کشمیر میں بھی کم جنگلات پائے جاتے ہیں۔ مہاراشٹر، کرناٹک، تلنگانہ، آندھرا پردیش اور تمل ناڈو کا زیادہ تر حصہ زیادہ بارش میں آتا ہے، اس لیے یہاں بھی جنگلات کی کمی ہے۔ آندھراپردیش اور تمل ناڈو کے سمندری ساحلی علاقوں میں جن علاقوں میں تیز بارش ہوتی ہے، وہاں جنگلوں کو صاف کرکے کھیتی کی زمین تیار کرلی گئی ہے۔ تیز بارش، اعلیٰ جغرافیائی حالت اور دیگر قدرتی حالات کے سبب ہمالیائی اور Middle plateauوالی ریاستوں جیسے میزورم، ناگالینڈ، اروناچل پردیش، منی پور، میگھالیہ، اتراکھنڈ، سکم، تریپورہ، آسام، ہماچل پردیش اور مدھیہ پردیش و اڈیشہ میں جنگلات کا فیصد ملک کی دیگر ریاستوں کے مقابلہ زیادہ ملتا ہے۔

ملک میں جنگلاتی علاقوں میں توسیع کرنے اور موجودہ جنگلوں کی ترقی، تحفظ اور توسیع کی سمت میں کچھ طریقوں پر غور کیا جانا اہم ثابت ہوسکتا ہے۔ اس کے لیے ملک و ریاستوں کی حکومتوں کو جنگلاتی علاقہ کی کم سے کم حد مقرر کرنے اور ہدف حاصل کرنے کے لیے کارگر منصوبے بناکر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

جنگلات کا مقامی کمیونٹی سے ہمیشہ سے قریبی تعلق رہا ہے۔ دیکھا جائے تو دیہی معیشت کی اہم بنیاد کاشتکاری و مویشی پروری راست طور پر جنگلات سے ہی وابستہ ہیں۔ جنگلات سے دیہی باشندوں کو مویشیوں کے لیے چارہ حاصل ہوتا ہے۔ پتوں کی بچھاون سے کھیتوں کو کھاد ملتی ہے۔ گیس کی سہولت گاؤوں میں پہنچنے کے بعد بھی کئی کنبے کھانا بنانے میں آج بھی لکڑی کا استعمال کرتے ہیں۔ جنگلاتی پیداوار سے ہر سال ریاستوں کو بڑی مقدار میں ریونیو ملتا ہے۔ عمارتی لکڑی، لیسا، ویروجا، جلانے والی لکڑی، جنگلاتی اراضی و ندی کے کناروں میں موجود ذیلی معدنیات کے علاقہ، جنگلی جڑی بوٹیاں و گھاس وغیرہ ریونیو حاصل کرنے کے بہت بڑے ذرائع ہیں۔ دیہی و آدی واسی کمیونٹی کی اکثریت کا معاش جنگلوں پر ہی انحصار کرتا ہے۔ جنگلوں سے جہاں انہیں اپنے روزمرہ کے کھانے پینے کے لیے مختلف سبزیاں و پھل وغیرہ حاصل ہوتے ہیں، وہیں دوسری طرف جنگلوں سے ملنے والی مصنوعات جیسے شہد، گوند، بیروجا، تیندو پتا اور جلانے والی لکڑی کو اکٹھا کرنے کے کام یا ان کی فروخت وغیرہ سے مقامی دیہی عوام کو آمدنی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ دیہی سطح پر چلائے جانے والے متعدد دستکاری، چمڑے کی مصنوعات، مٹی کے برتن بنانے جیسی تمام کاٹیج انڈسٹریز واضح طور پر جنگلات پر ہی انحصار کرتی ہیں۔ ساتھ ہی جنگلات کی لکڑی سے سہولتیں و فرنیچر انڈسٹری سے بھی کئی لوگوں کو روزگار حاصل ہوا ہے۔ ہماچل واتراکھنڈ میں چیڑ کے جنگلات ہر سال ہزاروں کی تعداد میں مزدوروں کو روزگار مہیا کرتے ہیں۔ پہاڑی کاشتکاری نظام میں بانج(جسے انگریزی میں اوک کہا جاتا ہے) کے جنگلوں کا اہم کردار رہتا ہے۔ اس کی ہری پتیاں مویشیوں کے لیے متناسب چارہ مہیا کرتی ہیں۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ اس کی سوکھی پتیاں مویشیوں کے بچھاون کے لیے استعمال میں لائی جاتی ہیں جو بعد میں اچھی قدرتی کھاد بن کر کھیتی کی پیداوار بڑھانے میں اپنا تعاون دیتی ہیں۔ بانج کی لکڑی سے دیگر لکڑی کے ایندھن کے موازنہ میں زیادہ مقدار میں ہیٹ اور توانائی ملتی ہے۔ دیہی کاشتکار بانج کی لکڑی کا استعمال کھیتی کے کام میں آنے والے مختلف اوزاروں کو بنانے کے لیے بھی کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ جنگلوں میں پائی جانے والی حیاتیاتی تنوع، چرند و پرند کی نسلیں و قدرتی خوبصورتی جنگلات کی سیاحت و ماحولیاتی سیاحت کے لیے مناسب مواقع مہیا کرتی ہے۔ جنگلاتی علاقوں میں سیاحت بڑھنے سے مقامی لوگوں کو روزگار بھی ملتا ہے۔ سیاحت کے نظریہ سے ہندوستان میں نیشنل پارکوں کا اہم تعاون ہے۔ پورے ہندوستان میں اس وقت 100سے زائد نیشنل پارک، وائلڈ لائف سینچوری اینڈ کنزرویشن ریزرو علاقے ہیں جن میں ہر سال ہزاروں کی تعداد میں ملکی و غیرملکی سیاح آتے ہیں۔ اتراکھنڈ کے جم کاربٹ نیشنل پارک کی مثال لیں تو یہاں سال2017-18میں تقریباً ڈھائی لاکھ سیاح آئے تھے اور اس سے حکومت کو خاصا ریونیو حاصل ہوا۔
ملک میں جنگلاتی علاقوں میں توسیع کرنے اور موجودہ جنگلوں کی ترقی، تحفظ اور توسیع کی سمت میں کچھ طریقوں پر غور کیا جانا اہم ثابت ہوسکتا ہے۔ اس کے لیے ملک و ریاستوں کی حکومتوں کو جنگلاتی علاقہ کی کم سے کم حد مقرر کرنے اور ہدف حاصل کرنے کے لیے کارگر منصوبے بناکر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک میں عوام کے دلوں میں جنگلات کے تئیں خصوصی دلچسپی پیدا کرنے اور ان میں جنگلات کے تئیں سائنسی نظریہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ہی فاریسٹ ورکرس کو وقت وقت پر ٹریننگ دیے جانے، جنگلات کی پیداوار اور جنگلات کے استعمال کی تکنیکی نالج سے متعلق ریسرچ ورک کو بڑھاوا دینے وغیرہ سے بھی جنگلاتی علاقوں میں توسیع کی کوششیں کی جاسکتی ہیں۔ کئی مقامات پر بیکار پڑی و کاشتکاری کے لیے بیکار اراضی میں درخت لگائے جاسکتے ہیں۔ جنگلاتی علاقہ کی اس اراضی پر جہاں اب جنگل نہیں ہیں، ان مقامات پر بھی جنگل لگائے جاسکتے ہیں۔ ون ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، فاریسٹ ڈپارٹمنٹ، فاریسٹ کارپوریشن، ہندوستانی جنگلاتی سروے، ریموٹ، سینسنگ سینٹر وغیرہ اداروں کے ذریعہ سے جنگلوں کی جانچ پڑتال، ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کے تحت مستقل مطالعہ کا کام بھی مؤثر ثابت ہوسکتا ہے۔ یہی نہیں مقامی رضاکارانہ تنظیموں کے ذریعہ دیہی سطح پر جنگلوں کو آگ سے بچانے میں اجتماعی شراکت داری کی کوشش، جنگلوں کے تحفظ اور ڈیولپمنٹ کے لیے کیے جانے والے نئے تجرباتی کام بھی لوگوں میں ایک نیا نظریہ پیدا کرسکتے ہیں۔
(بشکریہ: جن ستّا)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS