حالات جب خراب ہوتے ہیں تو سب سے زیادہ معیشت پر منفی اثرات پڑتے ہیں۔اس وقت دنیا کے حالات اوردنیا بھر کی معیشتوں کا یہی حال ہے۔ ہر ملک کی سرکار اوروہاں کے لوگ پریشان ہیں۔مسائل کو کم کرنے میں کوئی حربہ کارگر ثابت نہیں ہورہا ہے۔اگر وطن عزیز کی بات کریں تو یہاں بھی کچھ اچھے اشارے نہیں مل رہے ہیں۔ ریزروبینک آف انڈیا ہر ہفتہ پابندی سے زرمبادلہ کے ذخائر کی رپورٹ جاری کرتاہے۔تازہ رپورٹ 8جولائی کو ختم ہونے والے ہفتہ کے تعلق سے آئی ہے۔جس میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 8.062ارب ڈالرکم ہوکر580.252 ارب ڈالرہوگئے،جو 15ماہ کی کم ترین سطح ہے۔ اس سے قبل بھی یکم جولائی کو ختم ہونے والے ہفتے میںزرمبادلہ کے ذخائر 5.008 بلین ڈالر کم ہوکر 588.314 بلین ڈالر ہوگئے تھے۔ یعنی زرمبادلہ کے ذخائر میں گراوٹ کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ کچھ ایساہی حال سونے کے ذخائر کا ہے، اس میں بھی کمی آرہی ہے۔جو کافی تشویش ناک صورت حال ہے۔سب سے بڑی بات یہ ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی ایسے وقت آرہی ہے، جب ملک کی کرنسی روپیہ میں بھی گراوٹ کا سلسلہ جاری ہے۔ امریکی ڈالر80روپے کے قریب پہنچ گیا ہے۔ جس کی بنیاد پر اپوزیشن پارٹیاں سرکار پرحملہ آور ہیں اور سرکار خاموش ہے۔لیکن ریزروبینک اپنے طور پر حالات کو قابو میں کرنے کے لیے سرگرم ہے اورقدم اٹھارہا ہے۔جس کے اثرات فی الحال ظاہر نہیں ہورہے ہیں، لیکن دیرسویر ضرورظاہرہوں گے۔ماہرین معیشت بھی کچھ اسی طرح کی توقعات کااظہارکررہے ہیں۔
زرمبادلہ، روپیہ اورتجارتی خسارہ تینوں ایک دوسرے سے اس طرح جڑے ہوئے ہیں کہ ایک کا اثرسیدھے دوسرے پرپڑتا ہے۔اسی لیے کہا جاتا ہے کہ جیسے جیسے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی ہوتی ہے، روپیہ میں بھی گراوٹ آتی ہے اورتجارتی خسارہ بڑھنے لگتا ہے۔لیکن جب زرمبادلہ کے ذخائر بڑھتے ہیں تو روپیہ بھی مضبوط ہونے لگتا ہے اورتجارتی خسارہ بھی کم ہونے لگتا ہے۔فی الحال ملک میں روپے کی قدر گررہی ہے تودرآمدات کی قیمت بڑھ رہی ہے اوربرآمدات کی قیمت کم ہورہی ہے۔اس سے ملک کا تجارتی خسارہ بڑھ رہا ہے۔ابھی جون میں تجارتی خسارہ 25.6 بلین ڈالر کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیاتھا۔مجموعی طورپر نقصان ملک کی معیشت کو ہی پہنچتاہے۔حال ہی میں امریکہ میں جس طرح ریکارڈ مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے۔ وہاں اگر شرح سود میں اضافہ کیا گیا تو اس کا بھی اثر روپیہ پر پڑسکتا ہے۔ کہیں سے بھی اچھے اشارے نہیں مل رہے ہیں۔ مہنگائی امریکہ میں کیا ہمارے وطن عزیز میں بھی بڑھ رہی ہے،خردہ یا تھوک مہنگائی میں کمی ہوتی بھی ہے تو وہ ایسی نہیں ہوتی جس سے لوگوں کو راحت ملے، شیئر بازار کا حال بھی کچھ اچھا نہیں ہے۔جی ڈی پی کے اندازوں میں مسلسل کمی کی جارہی ہے۔رہی بات بے روزگاری کی تو وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ معیشت پٹری سے اترگئی ہے۔لیکن کورونا کے بعد جب ملک میں معاشی سرگرمیاں پھر سے معمول پر آئیں تو بیرون ملک کے حالات ملکی معیشت کے لیے سازگار نہیں ہوپارہے ہیں، اسی لیے بہتری نظر نہیں آرہی ہے، جس کی وجہ سے پریشانیاں بڑھتی جارہی ہیں۔
زرمبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی کسی خطرے سے کم نہیں ہے، کیونکہ روپیہ کا جو حال ہوگا، وہ تو ہم دیکھ ہی رہے ہیں، ہمارا امپورٹ کافی مہنگا ہوسکتا ہے۔جو لوگوں کی جیب پر بھاری پڑے گا۔اس سے سرکار کی پریشانیاںبھی بڑھیں گی اورلوگوں کو زندگی گزارنے میں بھی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔یعنی کسی کے لیے بھی راحت کی بات نہیں ہے اورامکانات بھی اچھے نظر نہیں آرہے ہیں۔
[email protected]
زرمبادلہ اور تجارتی خسارہ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS