ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کے نئے روشن چراغ

0

پروفیسر اخترالواسع

ایک ایسے وقت میں جب کہ کبھی کبھی ایسالگنے لگتا ہے کہ ہم ظلم وظلمت کی تاریکیوں میں گِھر گئے ہیں، کہیں نہ کہیں سے کسی نوجوان، خیر سے جس کے داڑھی ہو یا ٹوپی لگی ہوئی ہو، اس کو کہیں بھی اشرار گھیر لیتے ہیں، پِٹائی کرتے ہیں، جے شری رام کا نعرہ لگانے پر مجبور کرتے ہیں۔ کبھی کبھی یہ خبریں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں کہ کہیں کچھ انتہا پسندوں نے کوئی بھیڑ جمع کرکے اس کو یہ سبق پڑھانے کی کوشش کی کہ وہ مسلمانوں کا بائیکاٹ کریں، ان سے کوئی تجارتی لین دین نہ کریں، کہیں سے ایسی آوازیں بھی سنائی دیتی ہیں کہ مسلمانوں کا ہر سطح پر بائیکاٹ کیا جائے۔ یہاں تک کہ ہر ی دوار جیسے پوِتر استھل سے ان کی نسل کشی کی آوازیں بھی بلند کی جاتی ہیں۔ ایسے ماحول میں جب پولیس اور انتظامیہ کا رویہ بھی شفافیت سے مُبرّا ہو، جب سنگ و خشت مقید ہوں اور سگ آزاد، جب نوپور شرما آزاد ہوں اور زبیر جیل میں قید وبند کی صعوبتوں سے دو چار، جب عمر خالد اور شرجیل امام کی ضمانت نہ ہو پارہی ہو، جب خاندانی منصوبہ بندی پر سب سے زیادہ عمل کرنے والے مسلمانوں کو دیس میں بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے خطرہ بتایا جا رہا ہو اور خود حکومت کے ہی اداروں کے فراہم کردہ اعداد و شمار کو حکمراں ہی جھٹلا رہے ہیں، ایسے میں کچھ ایسی خبریں بھی ملتی ہیں کہ شاعر کی زبان میں :
جیسے صحرا میں چلے بادِ نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے
نفرت و عناد بھرے ماحول میں بھی وہ لوگ ہیں جو ہندوستان کی آبرو ہیں۔ قومی یکجہتی، مذہبی ہم آہنگی اور گنگا جمنی تہذیب کا جیتا جاگتا، چلتا پھرتا قابل رشک نمونہ ہیں۔ آئیے آج ان لوگوں کو یاد کریں، خراجِ تحسین پیش کریں اور اپنے آپ سے وعدہ کریں کہ ہم ان ہی کے راستے پر چلیں گے۔
آئیے بات دور سے کیوں شروع کریں۔ابھی 13؍جولائی کو بریلی کے شکارپور چودھری نامی قصبے کے لوگوں نے خاص طور پر اسلام اور رشید خاں نامی دو مسلمانوں نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی ایک مثال قائم کی۔ انہوں نے کانوڑیوں کی یاترا آسانی سے نکل سکے اور شیوبھکتوں کو کوئی پریشانی نہ ہو، اس کے لیے دونوں مسلمانوں نے اپنے کھیت کا کچھ حصہ عطا کرتے ہوئے کہا ’’کہ اس پر پکّی سڑک بنا دو۔ اس پر کانوڑیوں کو بھی پریشانی نہیں ہوگی اور دوسرے دنوں میں بھی گاؤں والوں کو آمدورفت کے لیے راستہ مل جائے گا۔‘‘ جب گاؤں کے کچھ لوگوں نے زمین کے بدلے پیسے دینے کی پیشکش کی تو اسلام اور رشید خاں مسکرائے اور کہا ’’یہ پیسے لے کر کہاں جائیں گے۔ اس گاؤں میں تو سب کچھ ہے۔ ایک دوسرے کی خوشیاں بڑھتی رہیں یہ ہمارے لیے سب سے بڑی دولت ہے۔‘‘ تقریباً ڈھائی ہزار کی آبادی والا یہ قصبہ مسلمانوں کی اکثریت والا ہے اور مسلمانوں نے یہ سب کچھ ہنسی خوشی بغیر کسی بوجھ اور دباؤ کے ممکن کرکے دکھایا۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ ہمارے نام نہاد قومی میڈیا نے اس کو وہ جگہ نہ دی جو اس کی ان کے یہاں ہونی چاہیے تھی۔
اسی طرح مہاراشٹر کے اورنگ آباد میں چھوٹا پنڈھر پور نامی ایک قصبہ ہے جس میں ہمیشہ سے ہندو مسلمان اتحاد و اتفاق کے ساتھ رہتے چلے آئے ہیں۔ جس قصبے میں کبھی بھی کوئی الحمد للہ فرقہ وارانہ کشیدگی نہیں ہوئی، پنڈھر پور میں وٹّھل رکمنی کے نام سے ایک قدیم مندر بھی ہے جس میں اشاڑھی اکادشی کے موقع پر پورے مراٹھواڑے سے لاکھوں کی تعداد میں عقیدت مند آتے ہیں، گاؤں میں میلا لگتا ہے، غالباً یہ پہلا موقع تھا جب اس قصبے میں اکادشی اور عیدالاضحی ایک ہی دن منائے جانے تھے لیکن اشاڑھی اکادشی کی وجہ سے اپنے غیرمسلم بھائیوں کے جذبات اور احساسات کا احترام کرتے ہوئے یہاں کے مسلمانوں نے یہ فیصلہ کیا کہ کیوں کہ عیدالاضحی کی قربانی اگلے دو دن بھی ہوسکتی ہے، اس لیے آج صرف نماز دوگانہ ادا کر لی جائے اور قربانی کو اگلے دن کے لیے مؤخر کر دیا جائے۔ اس فیصلے پر وہاں کے ہندو سماج کے لوگوں نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اسے خوش آئند قدم قرار دیا۔ مقامی ہندوؤں کا کہنا ہے کہ عیدالاضحی کی 10؍تاریخ کو قربانی سے اجتناب کرکے مسلمانوں نے جو فیصلہ کیا ہے اور آپسی بھائی چارے اور باہمی احترام کی جو مثال پیش کی ہے، اس کی ستائش ہونی چاہیے کیوں کہ ملک کو آپسی اتحاد کی آج جتنی ضرورت ہے، اس کے لیے یہ قدم انتہائی خوش آئند ہے۔ چھوٹا پنڈھر پور کے مسلمانوں نے ملک بھر کو یہی پیغام دیا ہے۔
اسی طرح اتراکھنڈ کے کاشی پور کی دو ہندو بہنوں انیتا اور سروج نے اپنے باپ لالہ برج نندن رستوگی کے انتقال کے بیس برس بعد جب یہ جانا کہ ان کے والد اپنے مسلمان بھائیوں کو کچھ زمین عیدگاہ کی توسیع کے لیے دینا چاہتے تھے تو انہوں نے اپنے بھائی راکیش سے باہمی مشورے کے بعد ان کی خواہش کی تعمیل کرتے ہوئے تقریباً ایک کروڑ روپے سے بھی زائد کی زمین مقامی مسلمانوں کے حوالے عیدگاہ کی توسیع کے لیے کر دی۔ کاشی پور کے مسلمانوں نے اس مخیرانہ عطیہ کے بعد کہا کہ ’’رستوگی جی بڑے دل کے آدمی تھے اور وہ جب تک زندہ رہے مسلمانوں کے ہر مذہبی تہوار کے موقع پر خطیر عطیات دیتے رہے۔‘‘ یہ بھی کم اہم بات نہیں کہ یہ عیدگاہ سِکھوں کے ایک گرودوارے اور ہندوؤں کے ایک مندر کے بیچ واقع ہے اور کوئی تنازع نہیں۔ کاش! بنگلور کی عیدگاہ پر تنازع کھڑے کرنے والے لالہ برج نندن رستوگی، ان کی بیٹیاں انیتا، سروج اور ان کے بیٹے راکیش سے کچھ سبق حاصل کر سکتے۔ پورے کاشی پور اور اتراکھنڈ کے سارے علاقے میں دونوں بہنوں کے اس کارِ خیر کو خوب سراہا جا رہا ہے۔
اسی طرح بہار کے مشرقی چمپارن میں اشتیاق احمد خاں نامی ایک مسلمان نے اپنی تیس ایکڑ قابلِ کاشت آراضی میں سے تقریباً ڈھائی کروڑ روپے کی مالیت والی زمین کو کیسریا نامی قصبے میں واقع وراٹ رامائن مندر کے لیے دے دی۔ ان کا کہنا تھا کہ جب انہیں پتا چلا کہ دنیا کے سب سے بڑے رامائن مندر کی تعمیر کے لیے پانچ سو کروڑ روپے کا پروجیکٹ ہے لیکن زمین کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے مہاویر ٹرسٹ والے پوری طرح زمین نہیں خرید پا رہے ہیں اس لیے میں نے اپنی زمین کا عطیہ دینے کا فیصلہ کیا۔ یہاں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ اشتیاق احمد خاں کے رشتے دار پہلے بھی ساٹھ ایکڑ زمین بہت سستے داموں میں دے چکے تھے اور ٹرسٹ کے پاس 103؍ایکڑ زمین ہوگئی تھی اور تقریباً بیس ایکڑ زمین کی ضرورت باقی تھی۔ مہاویر مندر ٹرسٹ کے سکریٹری اور سابق آئی پی ایس آفیسر کشور کنال نے اظہار ممنونیت کرتے ہوئے کہا کہ جب زمین کی قیمت چار لاکھ کٹّھا ہے اس وقت اشتیاق احمد خاں کے ذریعے زمین کو دان کر دینا بڑی بات ہے۔ انہوں نے اس بات پر بھی خوشی کا اظہار کیا کہ مقامی مسلمانوں نے اپنی زمینیں پچیس ہزار سے سات ہزار روپے کٹّھا کے حساب سے ٹرسٹ کے حوالے کردیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ مندر ایودھیا سے جنک پور رام جانکی پتھ پر واقع ہوگا اور جو بھی رام بھکت اور سیتا کے عقیدت مند یہاں سے گزریں گے اس وراٹ رامائن مندر میں پوجا کے لیے آئیں گے، اشتیاق احمد خاں اور دوسرے مقامی مسلمانوں کے جذبۂ ایثار اور مذہبی رواداری کو یاد رکھیں گے۔
اگر دیکھا جائے تو یہ ہندوستان میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہندوستان کا ضمیر اور خمیر اسی میل ملاپ سے تیار ہوا ہے۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ ہندوستانی فلموں کا سب سے محبوب اور مقبول ترین بھجن بیجو باورا کا ’من ترپت ہری درشن کو آج‘ کو لکھا شکیل بدایونی نے تھا، اس کو موسیقی سے سجایا نوشاد علی نے تھا اور اس کو اپنی آواز سے امر کر دیا محمد رفیع نے۔ اسی طرح مغلِ اعظم میں ’بے کس پہ کرم کیجیے سرکارِ مدینہ‘ لتا (تائی) منگیشکر نے گایا تھا۔
پتا نہیں آج کس کی نظر ہماری رواداری، وضع داری، فرقے وارانہ اور مذہبی ہم آہنگی کو لگ گئی ہے کہ ہم اسی شاخ کو کاٹنے پر تُلے ہوئے ہیں جس پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ بقول علامہ اقبال:
شکتی بھی شانتی بھی بھگتوں کے گیت میں ہے
دھرتی کے باسیوں کی مکتی پریت میں ہے
(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں۔)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS
Previous articleہندوستان سے مدد کا ہاتھ، چین نے چھوڑا ساتھ
Next articleزرمبادلہ اور تجارتی خسارہ
Prof. Akhtarul Wasey
Akhtarul Wasey (born September 1, 1951) is the president of Maulana Azad University, Jodhpur, India, and a former professor of Islamic Studies. He taught at Jamia Millia Islamia (Central University) in New Delhi, where he remains professor emeritus in the Department of Islamic Studies. Early life and education: Wasey was born on September 1, 1951, in Aligarh, Uttar Pradesh to Hairat bin Wahid and Shahida Hairat. He is the oldest of six children. Wasey attended Primary School No. 16, the City High School of Aligarh Muslim University, and Aligarh Muslim University where he earned a Bachelor of Arts (Hons.) in Islamic studies in 1971, a Bachelor of Theology in 1975, a Master of Theology in 1976, and an Master of Arts in Islamic studies in 1977. He also completed a short-term course in the Turkish language from Istanbul University in 1983. Career: On August 1, 1980 he joined Jamia Millia Islamia, Delhi as lecturer and worked there till 31 August 2016.Wasey was a lecturer, reader and professor at Jamia Milia Islamia University in New Delhi from 1980-2016, serving as the director of Zakir Husain Institute of Islamic Studies and later becoming head of the Department of Islamic Studies and Dean of the Faculty of Humanities and Languages. He is currently the president of Maulana Azad University in Jodhpur and remains a Professor Emeritus in the Department of Islamic Studies at Jamia Millia Islamia. In March 2014, Wasey was appointed by Indian President Shri Pranab Mukherjee to a three-year term as Commissioner for Linguistic Minorities in India, and became the first Urdu-speaking commissioner since 1957. Wasey is the editor of four Islamic journals: Islam Aur Asr-e-Jadeed; Islam and the Modern Age; Risala Jamia; and Islam Aur Adhunik Yug. Awards and honors: 1985 Award from Urdu Academy, Delhi and UP Urdu Academy on "Sir Syed Ki Taleemi Tehreek" 1996 Maulana Mohammad Ali Jauhar Award 2008 Fulbright Fellowship 2013 Padma Shri award from President Pranab Mukherjee of India 2014 Makhdoom Quli Medal from the President of Turkmenistan 2014 Daktur-e-Adab from Jamia Urdu, Aligarh