ہنگامے پر توجہ، بحث سے گریز

0

پارلیمنٹ کا بارانی اجلاس ہنگاموں کی نذر ہوتا چلاجا رہا ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرا ہے جب ایوان کی کارروائی خوش اسلوبی اور امن و سکون کے ساتھ پوری ہوئی ہو۔ چند یوم قبل ہی ہنگامے، شور شرابے اور نعرے بازی کی وجہ سے حزب اختلاف کے دو درجن ارکان کو ’بھاری دل ‘ کے ساتھ معطل کرنے کے بعد یہ مژدہ سنایا گیاتھا کہ وزیر خزانہ محترمہ نرملاسیتارمن صحت مند ہوکر ایوان میںلوٹ آئیں گی تو مہنگائی، بے روزگاری، خوردنی اشیا پر جی ایس ٹی اور اس نوعیت کے دیگر عوامی مسائل پر منطقی بحث ہوگی اور انہیں روکنے کا حل نکالاجائے گا۔
محترمہ نرملا سیتارمن غسل صحت کے بعدا یوان میں جلوہ نما بھی ہوئیں لیکن قوم کا نخل آرزو شاداب نہیں ہوسکا۔اب دو دنوں سے ایوان میں ہنگامہ آرائی کا دوسرا دور حکمراں جماعت نے شروع کر رکھا ہے۔’ سونیا گاندھی معافی مانگو‘ ’ کانگریس معافی مانگو‘ کے نعروں کی گونج میں بڑھتی مہنگائی، بے روزگاری، اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ اوران پر ظالمانہ ٹیکس وصولی جیسے طویل المدتی مسائل اور اگنی پتھ، غیر بی جے پی ریاستوں میں حکومت گرانے اور بنانے، تحقیقاتی ایجنسیوں کا حزب اختلاف پر بزن بولنے جیسے سیاسی مسائل سے توجہ ہٹا کرقوم کو ایسے مسئلہ میں الجھانے کی کوشش کی جارہی ہے جس پر پہلے ہی صاحب مسئلہ نے معافی مانگ لی ہے۔
سونیاگاندھی سے معافی مانگنے کے مطالبہ پرآج جمعہ کو بھی دن بھر حکمراں بی جے پی کے وزرا و ارکان لوک سبھا میں ہنگامہ آرا رہے تو جواب آں غزل کے طور پر کانگریس نے بھی اپنی قائد سونیا گاندھی کے ساتھ محترمہ سمرتی ایرانی کے ’ نارواسلوک‘ کے خلاف شور شرابہ میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ اس ہنگامہ آرائی کی وجہ سے پہلے تو لوک سبھا کو دوپہر 12 بجے تک اور بعدازاں دن بھر کیلئے ملتوی کرنا پڑا۔ جیسے ہی لوک سبھا کی کارروائی 12 بجے دوبارہ شروع ہوئی، مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی اور حکومت کے کئی دیگر وزرا اور بی جے پی کے ارکان پارلیمنٹ نے کھڑے ہو کر ایوان میں ’سونیا گاندھی معافی مانگو‘ کے نعرے لگانے شروع کر دیے۔ کانگریس اور بائیں بازو کے ارکان پارلیمنٹ بھی ہنگامہ آرائی اور نعرے بازی کرتے ہوئے چاہ ایوان میں اتر گئے۔اس ہنگامہ آرائی اور شور و غل کی وجہ سے ایوان کی کارروائی دن بھر کیلئے ملتوی کر دی گئی۔
گزشتہ دو دنوں سے بھارتیہ جنتاپارٹی جس معاملہ پر ہنگامہ کر رہی ہے ،وہ معاملہ کانگریس لیڈر ادھیر چودھری کی جانب سے معافی مانگ لینے کے بعد ختم ہوجاناچاہیے تھا۔ کانگریس لیڈر ادھیر چودھری مغربی بنگال کے دور افتادہ ضلع مرشدآباد سے منتخب ہوکر آنے والے خالص بنگالی دہقانی پس منظر رکھتے ہیں۔ بنگلہ ان کی مادری زبان ہے، ہندی سے واجبی واقفیت رکھتے ہیں، جیسا کہ دیکھا گیا ہے غیر اردو اور ہندی زبان والے تذکیر و تانیث میں اکثر ہی خطا کھاجاتے ہیں۔ ادھیر چودھری نے بھی ایک گفتگو کے دوران صدر جمہوریہ محترمہ دروپدی مرمو کو ’راشٹرپتی ‘ کے بجائے ’ راشٹر پتنی ‘ کہنے کی فاش غلطی کردی۔توجہ دلانے پر اپنی غلطی کا ادراک کیا اور فوراً ہی معافی مانگ لی۔ ’ راشٹرپتی‘ کے باوقار عہدہ کے پیش نظرا ن کی یہ غلطی سنگین ہے اور یہ غلطی قابل مواخذہ بھی ہوسکتی ہے۔ خواتین کمیشن نے ان سے اس معاملہ پر وضاحت اور جواب بھی طلب کرلیا ہے۔ادھیر چودھری نے معافی مانگ لی ہے اور اپنا کیا بھگتنے کو بھی تیار ہیں۔
اس صورت حال میں ایک فردکی غلطی کو پوری کسی سیاسی جماعت سے جوڑ کر نہیں دیکھاجاناچاہیے اور نہ اسے سیاسی مسئلہ بناکر ایوان کا قیمتی وقت ضائع کرنا مناسب ہے۔لیکن ’ خوئے بد بہانہ بسیار‘ پر عمل پیرا حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کے وزرا و اراکین رائی کا پہاڑ اور تل کو تاڑ بناکر سلگتے عوامی مسائل سے دامن بچا رہے ہیں۔
ایوان کا وقت ہنگامے اور شور شرابے کی نذر کرنے کے بجائے ایوان میں وہی کام ہونا چاہیے جس کیلئے وہ بنایاگیا ہے۔ ملک میں جن وجوہات کی بناپر مہنگائی اور بے روزگاری بڑھ رہی ہے، ان وجوہات پر بحث ہونی چاہیے اورپارلیمنٹ سے کوئی ایسا حل نکلنا چاہیے کہ اس سے ہندوستان کے لوگوں کو راحت نصیب ہوسکے۔ عوام کی خواہش ہے کہ جن رہنمائوں کو انہوں نے اپنا نمائندہ بنا کر پارلیمنٹ میں بھیجا ہے، وہ وہاں ان کے مسائل اٹھائیں اور حکومت ان کا جواب دے۔ بہتر ہوگا کہ حکمراں بھارتیہ جنتاپارٹی عوام کے کرب کا امتحان نہ لے اور مہنگائی و بے روزگاری جیسے سلگتے ہوئے مسائل پرسوالات کا سامنا کرے اور اس کا جواب دے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS