اکھلیش آرییندو
اس مرتبہ بھی دیش کے تمام علاقوں میں بارش کے سبب تباہی کا منظر دیکھنے کو ملا۔ ہماچل پردیش اور اتراکھنڈ جیسی ریاستوں میں بادل پھٹنے، پہاڑوں کے ٹوٹ کر گرنے اور زمین دھنسنے جیسے واقعات میں جان و مال کا خاصا نقصان ہوا۔ ادھر راجستھان، اترپردیش، مدھیہ پردیش، بہار، جھارکھنڈ، آسام جیسی ریاستوں میں بھی برسات کے تیور چونکانے والے رہے۔ راجستھان کے کوٹہ، باراں، جودھپور سمیت 12اضلاع میں 15دن تک بارش ہوتی رہی۔ اس سے خریف کی فصل تباہ ہوگئی۔ اس سال ملک کے زیادہ تر حصوں میں بارش جیسی تباہی مچا رہی ہے، اس سے تو لگتا ہے کہ اب برسات سے پیدا ہونے والے حالات کئی معاملات میں پہلے کے مقابلہ کافی تبدیل ہوچکے ہیں۔
سمجھنے والی بات یہ ہے کہ پہاڑی ریاستوں میں سیلاب نے جس طرح سے قہر برپا کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں لوگوں و لاکھوں حیوانات کو اپنی زد میں لے لیا، اس سے اب تبدیل ہوتے سیزن سائیکل سے ڈر لگنے لگا ہے۔ ہماچل میں زمین کھسکنے و بادل پھٹنے کے واقعات سامنے آئے۔ لیکن اس مرتبہ بادل پھٹنے کے سب سے زیادہ واقعات اس اترانچل میں ہوئے جہاں پہلے کبھی کبھار ہی ایسا ہوتا تھا۔ قبل میں ایسے واقعات لوگوں میں دہشت پیدا نہیں کرتے تھے، جس سے لوگوں کو اپنے پشتینی گھر چھوڑ کر محفوظ ٹھکانوں کی جانب نقل مکانی کے لیے مجبور ہونا پڑے۔ اسی طرح مانسون کے بعد اترپردیش کے کئی اضلاع میں سیلاب کا خطرہ پیدا ہوگیا اور اب تک سیلاب، بجلی گرنے اور برسات کے سبب ہوئے حادثات میں کئی لوگ اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔
سوال ہے کہ کیا ان قدرتی حادثات کو آب و ہوا میں تبدیلی کا نتیجہ سمجھ کر بیٹھ جائیں یا پھر ان کا مقابلہ کرنے کے لیے کچھ ٹھوس اقدامات کریں؟ جس مہاراشٹر کے زیادہ تر علاقوں میں گزشتہ کئی برسوں سے جہاں قحط کی صورت حال برقرار تھی، وہاں برسات نے ریکارڈ توڑ دیے۔ کچھ ایسے ہی حالات مدھیہ پردیش، مغربی بنگال، جھارکھنڈ، آسام، اترپردیش، ہماچل پردیش اور کم و بیش مدھیہ پردیش میں سیلاب ہر سال لاکھوں لوگوں کو اُجاڑ دیتا ہے۔ بڑے پیمانہ پر جان اور مال کا نقصان ہوتا ہے۔ ہر سال جیسے ہی مانسون آتا ہے، نشیبی علاقوں میں پانی بھرنے لگتا ہے۔ سرکاری خزانہ سے راحت کے نام پر پانی کی طرح پیسہ بہایا جاتا ہے۔ یہ مختص رقم سیلاب میں کہاں بہہ جاتا ہے، کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا ہے۔ ہر سال یہ کہا جاتا ہے کہ سیلاب کا مستقل حل کیا جانا چاہیے، لیکن اسے کبھی بھی عمل میں نہیں لایا جاتا ہے۔ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے درمیان ہم آہنگی کا فقدان ہونے کی وجہ سے سیلاب کا مسئلہ بڑھتا جاتا ہے۔ اسی تناسب میں ’امدادی رقم‘ بھی بڑھتی جاتی ہے۔ لیکن جان و مال کا نقصان بڑے پیمانہ پر ہونے کے باوجود سرکاری پیش رفت اسی روایت میں ہی کی جاتی ہے، جس سے اس مسئلہ کا کوئی مستقل حل نہ نکل سکے۔ زیادہ حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ حکومتیں ملک کے سیلاب کے انتظام کے ماہرین(flood management experts) کی رائے کو عمل میں لاکر اس کا مستقل حل کرنے کی بات تو کرتی ہیں لیکن ان کے مشوروں پر کبھی عمل کرتی نظر نہیں آتیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ہر سال سیلاب آتا ہے اور پھر وہی ہائے توبہ مچتی ہے۔
ہندوستان میں سیلاب کا مسئلہ کوئی نیا نہیں ہے۔ آزادی کے بعد سے لے کر اب تک نہ جانے کتنی مرتبہ اس کے مستقل حل کے لیے تجاویز آئیں، لیکن آج تک کچھ چھوٹی ریاستوں کو چھوڑ کر ملک کی کسی ریاست میں سیلاب کے بحران سے نمٹنے کے لیے کوئی ا سٹرکچر تیار نہیں کیا جاسکا ہے۔ ماحولیاتی ماہرین اور ماہرین موسمیات کی صلاح اور آب و ہوا میں تبدیلی کے ماہرین کی تجاویز پر مرکزی اور ریاستی حکومتوں نے سیلاب کے پیچیدہ مسئلہ کے حل کے لیے کسی قوت ارادی کا مظاہرہ کیا ہو، ایسا دیکھنے کو ملتا نہیں ہے۔ جب تک برسات ہوتی رہتی ہے اور سیلاب کا خطرہ موجود رہتا ہے، تب تک سیلاب سے نمٹنے کے لیے بڑے بڑے فارمولوں پر عمل دکھانے کے لیے ہوتا رہتا ہے۔ لیکن جیسے ہی سیلاب کا خمار اُترا اور مانسون جانے کو ہوتا ہے، سیلاب کے مسئلہ کو مکمل طور پر فراموش کردیا جاتا ہے۔
جب موسلادھار بارش ہوتی ہے اور پانی اپنی پوری روانی سے آگے بڑھتا ہے تو ڈیموں کے پھاٹک کھول دیے جاتے ہیں اور اچانک سے چھوڑا گیا پانی گاؤوں کو اپنی زد میں لے لیتا ہے۔ لاکھوں ہیکٹیئر زمین کی فصل پوری طرح تباہ ہوجاتی ہے۔ کیرالہ اس کی مثال رہی ہے۔ سیلاب محض زیادہ برسات کے سبب نہیں، بلکہ بد انتظامی، زیادہ کانکنی اور جنگلات کی کٹائی کے سبب آتا ہے۔
سیلاب سے جان و مال کے ہونے والے نقصان کے تعلق سے یوں تو سرکاری اعدادوشمار آتے ہی ہیں لیکن حقیقت میں نقصان کا دائرہ کافی زیادہ ہوتا ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق آزادی کے بعد 1951میں ایک کروڑ ہیکٹیئر زمین سیلاب سے متاثر ہوئی تھی۔ اگلے دس سال یعنی 1960میں یہ اعدادوشمار بڑھ کر تقریباً ڈھائی کروڑ ہیکٹیئر ہوگئے۔ یہ سلسلہ یہیں نہیں رکا اور 1978میں یہ اعدادوشمار بڑھتے ہوئے ساڑھے تین کروڑ ہیکٹیئر ہوگئے۔ 1980کے بعد تو اس میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا اور موجودہ وقت میں یہ اعدادوشمار چار کروڑ ہیکٹیئر سے آگے نکل گئے ہیں۔ بہار میں سب سے زیادہ سیلاب متاثرہ علاقے ہیں۔ اعدادوشمار کے مطابق ریاست کا 73.06فیصد علاقہ سیلاب سے متاثر ہے۔ یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ سیلاب کی تباہی سے نجات پانے کے لیے مرکزی اور ریاستی سطح پر کسی طرح کی ٹھوس کوششیں نہیں کی گئیں۔ سائنسدانوں کے مطابق ترقی کے نئے نئے اور ناقابل عمل ماڈل اپنانے اور قدرت کے بے انتہا استحصال کی وجہ سے ماحولیاتی توازن بگڑنے لگا ہے۔ اس سے زمین کے درجہ حرارت میں اضافہ ہورہا ہے۔ زہریلی گیسوں، درختوں کی کٹائی، بڑے بڑے ڈیموں کی تعمیر، ندیوں کی بہتی لہروں کو روکنے اور ندیوں کے کنارے بڑی بڑی تعمیرات کی وجہ سے ماحولیات پر کافی منفی اثر پڑا ہے۔ اس کے علاوہ ہر سال لاکھوں ٹن مٹی اور کوڑا ندیوں میں ڈالنے کی وجہ سے ندیوں میں گاد بڑھتی جارہی ہے۔ اس سے ندیوں کے بہاؤ میں رکاوٹ پیدا ہورہی ہے۔ جو ندیاں گہری تھیں وہ ابھرتی جارہی ہیں۔ گزشتہ کچھ برسوں میں اتراکھنڈ، ہماچل اور آسام کی ندیوں میں تباہی مچانے والے جو تباہ کن تیور دیکھنے کو ملے ہیں، ان کے پیچھے یہی اسباب ہیں۔ پہاڑی ریاستوں میں جو برسات ہوتی ہے، اس سے پہاڑوں کا کٹاؤ ہوتا ہے۔ بادل پھٹنے سے یہ صورت حال مزید خوفناک ہوجاتی ہے۔ اوپر سے پہاڑوں کا ملبہ اتنا زیادہ گرتا ہے کہ گاؤں کے گاؤں اس میں سما جاتے ہیں۔
ملک کی بڑی ندیوں برہم پتر، گنگا، جمنا، مہانندا، گنڈک، کملا اور کوسی ہر سال تباہی کا سبب بنتی ہیں۔ اس کے علاوہ چھوٹی چھوٹی ژونل ندیاں بھی گاد کی وجہ سے زیادہ برسات ہونے پر تباہی مچانے لگتی ہیں۔ سیلاب آنے پر بہار، اترپردیش، آسام اور اترانچل میں بڑی تعداد میں گاؤں سیلاب کی زد میں آجاتے ہیں۔ اس حالت میں یہاں کے لاکھوں لوگ نقل مکانی کرجاتے ہیں۔ ان کے سامنے بازآبادکاری اور معاش کا سنگین مسئلہ ہوتا ہے۔ اترپردیش، اترانچل، آسام سمیت دوسری ریاستوں میں ندیوں پر بڑے پیمانہ پر ڈیم بنائے جارہے ہیں۔ جب موسلادھار بارش ہوتی ہے اور پانی اپنی پوری روانی سے آگے بڑھتا ہے تو ڈیموں کے پھاٹک کھول دیے جاتے ہیں اور اچانک سے چھوڑا گیا پانی گاؤوں کو اپنی زد میں لے لیتا ہے۔ لاکھوں ہیکٹیئر زمین کی فصل پوری طرح تباہ ہوجاتی ہے۔ کیرالہ اس کی مثال رہی ہے۔ سیلاب محض زیادہ برسات کے سبب نہیں، بلکہ مس مینجمنٹ، زیادہ کانکنی اور جنگلات کی کٹائی کے سبب آتا ہے۔ اس لیے جب تک یہ اسباب موجود رہیں گے، تب تک سیلاب کی تباہی سے چھٹکارہ نہیں پایا جاسکتا۔
(بشکریہ: جن ستّا)