عدم مساوات کی بڑھتی خلیج

0

گزشتہ دو دنوں کے دوران معیشت کے شعبہ سے کئی ایسی خبریں آئی ہیں جنہوں نے اچھے دنوں کی نقیب مودی حکومت کے بلند بانگ دعوئوں کو زمیں بوس کردیا ہے۔ ایک خبر ملکی وسائل اور دولت کے ارتکاز کے تعلق سے ہے اور دوسری آسمان چھوتی تھو ک مہنگائی سے متعلق۔
مرکزی حکومت کے ادارہ نیشنل سیمپل سروے نے ایک مطالعاتی رپورٹ پیش کی ہے جس میں کہاگیا ہے کہ ہندوستان کے آدھے سے زیادہ منقولہ اور غیرمنقولہ اثاثے ملک کے 10فیصد امیر ترین افراد کے پاس ہیں جب کہ ملک کی غریب 50فیصد آبادی کے پاس فقط 10فیصد ہی ملکیت ہے۔یعنی ملک میں ایک ایسا طبقہ ہے جو وسائل و دولت سے مالامال ہوتاجارہا ہے اور دوسرے طبقہ کا سفر مسلسل پستی کی جانب ہے۔شماریات و پروگرام نفاذ کی وزارت کے ماتحت کام کرنے والے ادارہ نیشنل سیمپل سروے آفس(این ایس ایس او) کا کہنا ہے کہ شہروں میں رہنے والے 10فیصد امیر افراد کے پاس اوسطاً1.5 کروڑ کے اثاثے ہیں جب کہ شہروں میں ہی رہنے والے عام افراد کااوسط اثاثہ فقط2000روپے ہے۔اسی طرح دیہی علاقوں میں رہنے والے 10فیصد امیر ترین افراد کے پاس اوسطاً 81.17لاکھ روپے کے اثاثے ہیں جب کہ ان علاقوں کے عام لوگوں کے پاس اوسطاً41ہزار روپے کی مالیت کے اثاثے ہیں۔
این ایس ایس اوکے مطابق اس مطالعہ اور تحقیق میں کسی شخص کی جائیداد کی قیمت کا تخمینہ لگایا گیاہے۔اس تخمینہ میں اس کی زمین، مکان،عمارات،گھریلو سامان، جانوروں اور مویشیوں سمیت تمام چیزوں کی تخمینی قیمت نیز بینکوں، ڈاک خانوں اور دیگر جگہوں پر جمع رقم بھی اس میں شامل کی گئی ہے۔اس مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ شہروں میں کل اثاثے 274.6 لاکھ کروڑ روپے ہیں۔ان میں سے 130.6 لاکھ کروڑ روپے صرف 10 فیصد امیر لوگوں کے پاس ہیں۔ جبکہ دیہی علاقوں میں 238.1 لاکھ کروڑ روپے کے کل اثاثے ہیں جس میں سے 132.5 لاکھ کروڑ روپے صرف 10 فیصد امیر لوگوں کے پاس ہیں۔ دیہی علاقوں کے غریب ترین 50 فیصد لوگ فقط 10.2 فیصد جائیدادوں کے ہی مالک ہیں جبکہ شہروں میںغریبوں کی ملکیت اس سے بھی کم یعنی 6.2 فیصدہے۔این ایس ایس او نے یہ تحقیق جنوری 2019سے دسمبر2019کے درمیان کی تھی۔ کورونا وائرس کے بعد اب اگر لوگوں کی املاک و اثاثے کا نئے سرے سے جائزہ لیاجائے تو اس سے بھی زیادہ خوفناک تصویر سامنے آئے گی۔
مہنگائی کے تعلق سے آنے والا ڈاٹا بھی ہوش ربا ہی کہاجاسکتا ہے۔مرکزی وزارت صنعت و تجارت کے مطابق اگست کے مہینے میں ملک کی تھوک قیمت کااشاریہ یا انڈیکس بڑھ کر 11.39 فیصد ہو گیا ہے۔ تھوک قیمت کا اشاریہ دراصل ایک تاجر کی جانب سے ہول سیل مارکیٹ میں دوسرے تاجر سے وصول کی جانے والی قیمت ہوتی ہے۔ یہ لگاتار پانچواں مہینہ ہے کہ تھوک قیمت انڈیکس دو ہندسوں میں ہے۔ یعنی مہنگائی مسلسل بڑھ رہی ہے۔مہنگائی میں اس اضافہ کیلئے حکومت نے غیر خوردنی اشیا، پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ، قدرتی گیس، کپڑے، کیمیکل اور کیمیائی مصنوعات کی قیمتوں کو بنیادی وجہ قرار دیا ہے۔اس سے پہلے یہی حکومت بڑھتی مہنگائی کو خداکی قدرت بھی بتاچکی ہے۔
مہنگائی ہو یا بھوک وافلاس اور غربت ان سب کی وجہ نہ تو بڑھتی آبادی ہے اور نہ ہی یہ وسائل کی کمی کا نتیجہ ہے بلکہ اس کی صرف ایک وجہ ہے اور وہ ہے وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور ذرائع پیداوار پر بالادست طبقہ کا قبضہ۔ اس قبضہ کی کوکھ سے معاشی عدم مساوات جنم لیتے ہیں اور معاشرہ میں امیر اور غریب کے درمیان خلیج روز بروز بڑھتی جاتی ہے۔اسی خلیج کو پاٹنے کیلئے ہندوستان میں سوشلزم کی پالیسی اختیار کی گئی تھی، غربت مٹائو کا نعرہ دیاگیا تھا اور بہت سے اداروں، کمپنیوں اور بینکوں کو قومیایا گیا تھا لیکن اب دھیرے دھیرے کرکے یہ تمام فیصلے اور پالیسیاں واپس لی جارہی ہیں۔اس کا نتیجہ یہی ہونا تھاجو این ایس ایس کی تحقیق میں سامنے آیا ہے۔جب کہ ملک کی بہتری اور سوا ارب عوام کا مفاد اسی میں ہے کہ اس صورتحال پر قابو پایاجائے۔ ملک کو معاشی بحران، غربت اور مہنگائی سے بچانے کیلئے لازم ہے کہ حکومت اپنی معاشی پالیسی پر نظرثانی کرے اور عدم مساوات کی اس بڑھتی خلیج کو کم کرنے کیلئے ترجیحی بنیاد پر کام کرے۔ اس کیلئے روایتی روزگار کے ساتھ ساتھ غیر روایتی روزگار کے مواقع بھی وضع کرنے ہوں گے۔قومی اور ملکی وسائل پر عام شہریوں کا حق بھی سمجھناہو گا۔اس کے بغیر نہ تو دولت کا ارتکاز ختم ہوسکتا ہے اور نہ عدم مساوات کی بڑھتی خلیج کم کی جاسکتی ہے۔اچھے دن لانا تو دور کی بات ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS