کیوں صفر ہو گئی مسلمانوں کی سیاسی حیثیت؟

0

محمد حنیف خان

جمہوریت ایک ایسا طرز حکمرانی ہے جس میں ہر سر کو ہر جگہ یکساں حقوق حاصل ہوتے ہیں،عدم مساوات کا سایہ بھی قریب نہیں پھٹکنے پاتا لیکن حصول حکمرانی کا میدان اتنا وسیع ہے کہ لاکھوں اور کروڑوں افرادکا وجود چشم زدن میں صفر ہوجاتا ہے۔در اصل بادشاہی یا پھر آمریت میں سیاسی کھیل کھیلنے کے مواقع بہت کم ہوتے ہیں جبکہ جمہوریت میں یہی اس کی بساط ہوتی ہے۔اسی سے کسی فرد/کمیونٹی کی سیاسی و سماجی حیثیت کا تعین ہوتا ہے۔جو کمیونٹی سیاسی بساط پر گوٹیاں بچھانے میں ماہر ہوگی، ہر جگہ نہ صرف اس کی سنی جائے گی بلکہ وہ خود دوسروں کے وجود کا ضامن بن جائے گی لیکن سوئے اتفاق اگر ایسا نہیں ہوا تو کثرت تعداد کے باوجود اس کا وجود ایک ایسے صفرمیں بدل جائے گا جو ہندسے کے غلط سائڈ پر لگ گیا ہو۔
ہندوستان میں آج کسی بھی شعبے میں دیکھ لیجیے مسلمانوں کا وجود ہندسے میں غلط سائڈ میں لگے صفر کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔سیاسی ،سماجی اور معاشی ہر سطح پر ناکارگی مقدر بن چکی ہے۔یہ نہ تو چشم زدن میں ہوا ہے اور نہ ہی اس کے لیے کوئی ایک فرد ذمہ دار ہے بلکہ اس کے لیے دو طرفہ افراد ذمہ دار ہیں ،اول وہ افراد جنہوں نے اپنے وجود کو صفر ہونے سے بچانے کے لیے کوئی تگ و دو نہیں کی، دوم وہ افراد جنہوں نے حصول اقتدار کے لیے سماج اور ملک کے ایک بڑے طبقے کے وجود پر اپنی سیاسی چالبازیوں سے خط تنسیخ پھیرنے کا کام کیا ہے،جس کی وجہ سے ان کا وجود ہر شعبے میں صفر کی طرف گامزن ہوگیا، اس کے لیے ثانی الذکر سے زیادہ اول الذکر گنہگار اور ذمہ دار ہیںمگر کوئی نہ تو اس کی ذمہ داری لینے کو تیار ہے اور نہ ہی اس کی تلافی کے لیے کوئی آگے قدم بڑھانے کے لیے آمادہ ہے بس سب کے سب ڈوبتی ہوئی کشتی کو دیکھ رہے ہیں اور شور مچا رہے ہیں حالانکہ سب کو یہ بھی پتہ ہے کہ صرف شور مچانے سے ڈوبتی ہوئی کشتیاں نہیں بچ جاتی ہیں بلکہ اس کے لیے عملی اقدام کرنا ہوتا ہے اور بحر ناپیدا کنار میں اترنا پڑتا ہے۔مگر مچھ کا کیا ہے اس کو تو خوراک چاہیے، شناورتو وہ ہے جو خود کو اس مگر مچھ سے بچا کر کشتی کو کنارے لگادے مگر ابھی تک ایسا کوئی شناور نظر نہیں آیا ہے جس نے بھی آگے بڑھنے کی کوشش کی اس کو اپنوں نے ہی دریا میں اترنے سے قبل دھکا دے دیا اور وہ اس مگرمچھ کا شکار بن گیا جو شکار کی تاک میں پہلے سے ہی منھ کھولے انتظار کر رہا تھا۔
جمہوریت میں ہر شعبے میں طاقت اسی کے پاس ہوتی ہے جس کی سیاسی حیثیت مضبوط ہو اور سیاسی حیثیت صرف حق رائے دہی کے استعمال سے نہیں بن جاتی ہے بلکہ اس کے لیے بیدار ذہن اور شعور کی ضرورت ہوتی ہے،اس کے بغیر کوئی بھی بڑی جمعیت کسی بھیڑ بکری کے ریوڑ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی ہے۔مسلمان اپنے حق رائے دہی کا استعمال ضرور کرتا ہے مگر بغیر کسی اسٹرٹیجی اور منصوبہ بندی کے کرتا ہے جس کی وجہ سے اس کے ووٹوں کی حیثیت پہلے ہی ختم ہو جاتی ہے کیونکہ سامنے والے کی اسٹرٹیجی پہلے تیار ہوتی ہے جس کے جال میں یہ بآسانی آجاتا ہے۔اس طرح پہلے اس کی سیاسی حیثیت ختم ہوتی ہے اور اس کے بعد سماجی اور معاشی حیثیت خود بخود ختم ہوجاتی ہے۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سیاسی طاقت کے بغیر جمہوریت میں کسی کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی ہے خواہ آئین کتنا بھی لچیلا ہو، مقننہ جمہوریت میں سیاست سے ملی طاقت سے اس میں اتنے سوراخ کردے گی جنہیں بند کرنے کے لیے جس سیاسی طاقت کی ضرورت ہوتی ہے، اس کے حصول میں ہی صدیاں گزر جائیں گی،جس کے نمونے گزشتہ چند برسوں میں ہماری ان کھلی آنکھوں نے دیکھے ہیں۔ جب کشمیر سے لے کر آسام تک بہن بیٹیاں سڑکوں پر بیٹھی تھیں مگر ان کا کوئی پرسان حال نہیں تھا اور آج کسان اپنے حقوق کے لیے لڑرہے ہیں مگر کوئی ان کی سُدھ لینے والا نہیں ہے۔اگر سب کو یکساں حقوق ہی حاصل ہوتے تو کسی کو اس طرح گھر بار چھوڑ کر ریاست سے ٹکرانے کی ضرورت نہیں پڑتی مگر چونکہ سیاست سے ملی طاقت کچھ لوگوں کو طاقت ور بنا دیتی ہے اور ان کو اضافی حقوق دے دیتی ہے جو مقننہ کی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں اور پھر سیاہ و سپید کے مالک بن جاتے ہیں۔اس کو اگر روکنا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے سیاسی طاقت حاصل کی جائے جس کے لیے منصوبہ بندی اور ایک ایسے پلیٹ فارم کی ضرورت ہے جس میں شکوک و شبہات کے لیے کوئی جگہ نہ ہو۔
یہ عجیب طرفہ تماشہ ہے کہ جو غائب ہوتاہے اصلاً وہی حاضر ہوتا ہے اور جو حاضر ہوتا ہے عملاً وہی غائب ہوتا ہے۔اس وقت سیاسی منظر نامے کا یہی عالم ہے، سیاست کے کینوس پر عملی سطح پر کہیں مسلمان موجود نہیں ہے لیکن ہر طرف اسی کے رنگ بکھرے دکھائی دیتے ہیں۔غالباً مارچ 2022میں اترپردیش میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیںجس کی گہما گہمی شروع ہو چکی ہے۔یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ،نئی بات تو یہ ہے کہ وہ مسلما ن جو عملی سطح پر اس الیکشن میں کہیں نظر نہیں آ رہا ہے اور نہ ہی کوئی سیاسی پارٹی ان کو لانا چاہتی ہے، وہی سیاست دانوں کیلئے ’ہاٹ کیک‘ بنا ہوا ہے۔اسٹیج سے لے کر ٹی وی ڈیبیٹ تک بس مسلمان ہی مسلمان نظر آتا ہے۔ اباجان بھی وہی ہے اور چچا جان بھی وہی ہے،بس چٹخارے دوسرے لے رہے ہیں۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ اتر پردیش میں انتخابات سے قبل مسلمان ایسی منصوبہ بندی کریں جس سے ان کے ووٹ بکھراؤ اور صفر ہونے سے بچ جائیں۔اب وقت آگیا ہے کہ سیاسی شعور و آگہی کا ثبوت دیا جائے جس کے لیے ایسی سیاسی قیادت کی ضرورت ہے جو مذہب کے بجائے انسانیت اور جمہوریت میں یقین رکھتی ہو، خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔

یہ اب بتانے کی ضرورت نہیں رہی کہ ہندوستان کی تقریباً 20 فیصد آبادی کی سیاسی حیثیت صفر ہو چکی ہے،خواہ میونسپل کارپوریشن کا الیکشن ہو یا پھر پارلیمانی و اسمبلی انتخابات ہوں، اب کہیں بھی اور کسی کو بھی ان کے ووٹوں کی ضرورت نہیں ہے۔وہ جمہوری دستور کے تحت ووٹ تو ضرور ڈالتے ہیں مگر ان کے ووٹوں کی اب کوئی حیثیت نہیں رہ گئی ہے، نہ ان کے ووٹ کسی کو کامیابی سے ہمکنار کر سکتے ہیں اور نہ ان کے ووٹوں سے کسی کو شکست ہو سکتی ہے۔اس کا نظارہ گزشتہ دو پارلیمانی الیکشن اور ایک اتر پردیش کے الیکشن میں کیا جا چکا ہے۔یہی حال دوسری سبھی ریاستوں کے اسمبلی الیکشن میں دیکھنے کو ملا ہے۔اس کے باوجود مسلمان ہی مقتدرہ پارٹی کے سیاسی مرکز میں رہتا ہے اور وہی اس کی اسکیموں سے باہر بھی ہے جس کی دو سب سے بڑی وجوہات ہیں۔اول سیاسی حربوں کا استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں کو سیاسی کینوس پر اس طرح پینٹ کیاجاتا ہے جس سے پولرائزیشن کی صورت بن جاتی ہے۔دوم خود مسلمانوں کا ووٹ بکھر جاتا ہے جس سے اس کا وجود عدم میں بدل جاتا ہے۔
اتر پردیش میں انتخابات ہیں، اس کے باوجود کوئی بھی پارٹی مسلمانوں کی طرف ہاتھ بڑھاتی نہیں دکھائی دے رہی ہے۔وہ پارٹیاں جو سیکولرزم کا ڈھنڈھورا پیٹ رہی تھیں اور آج بھی اس کی علمبردار ہیں، وہ بھی مسلمانوں کا نام لینے سے کترا رہی ہیں۔اترپردیش کی وہ پارٹی جس نے مسلمانوں کی مدد سے سب سے پہلے اکثریت کی حکومت بنائی، آج وہ سماج کے ایک چھوٹے سے طبقے سے متعلق یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتی کہ اگر وہ نہیں بہکا تو آئندہ اترپردیش میں اس کی حکومت ہوگی مگر وہی مسلمانوں کا نام تک نہیں لیتی، اسی طرح وہ پارٹی جس کی سیاست کا مرکز ہی مسلمان تھے وہ بھی اب خود کو جمہوری اقدار سے الگ کرکے خالص مذہبی دکھانے پر مصر ہے۔گزشتہ چند برسوں میں مسلمانوں پر سیاسی سطح پر بڑی بڑی افتاد آئیں، خواہ وہ تین طلاق کا مسئلہ ہو یا پھر بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر، 370ہو یا پھر گیان واپی مسجد اور متھرا کی عید گاہ پر دعویٰ ،کبھی وہ مسلمانوں کے حق میں سامنے نہیں آئی۔سبھی پارٹیاںبس اتنا کہتی ہیں کہ مقتدرہ پارٹی نے ترقیاتی کام نہیں کیے ہیں، اس لیے وہ مذہب اور پولرائزیشن کا سہارا لے رہی ہے مگر اس کے سیاسی فیصلوں پر کسی بھی سیاسی پارٹی میں انگلی اٹھانے اور مسلمانوں کے حق میں بولنے کی جرأت نہیں ہے۔اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ اتر پردیش میں انتخابات سے قبل مسلمان ایسی منصوبہ بندی کریں جس سے ان کے ووٹ بکھراؤ اور صفر ہونے سے بچ جائیں۔تقریباً 20فیصد ہونے کے باوجود اگر ان کا وجود صفر ہے تو واقعی ان کو انسان کی حیثیت سے جینے کا کوئی حق نہیں ہے کیونکہ انسان میں تو شعور اور نفع و نقصان میں شناخت کا مادہ ہوتا ہے۔اب وقت آگیا ہے کہ سیاسی شعور و آگہی کا ثبوت دیا جائے جس کے لیے ایسی سیاسی قیادت کی ضرورت ہے جو مذہب کے بجائے انسانیت اور جمہوریت میںیقین رکھتی ہو، خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS