یوپی الیکشن میں خاتون کارڈ

0

ملک کی سب سے بڑی اور حساس ریاست اترپردیش میں اسمبلی انتخابات 4 ماہ بعد اگلے سال فروری یا مارچ میں ہوسکتے ہیں،اس کے لیے الیکشن کمیشن اپنے طورپر تیاری کررہا ہے اورسیاسی پارٹیاں الگ تیاری کررہی ہیں۔کس پارٹی سے کون الیکشن لڑے گاایک دوماہ بعد تصویر صاف ہونے لگے گی۔اس کے بعدہر پارٹی کا انتخابی منشور بھی جاری ہو گا۔اس دوران کانگریس نے زبردست پہل کی ہے۔جہاں انتخابی امور کے سربراہ پی ایل پونیا نے یہ کہا ہے کہ اترپردیش میں پارٹی کا چہرہ پرینکا گاندھی ہوں گی یعنی ان کے نام پر ووٹ مانگا جائے گا، وہ خود الیکشن لڑیںگی یا نہیں یاوزارت اعلیٰ کا امیدوار کون ہوگا، اس بابت وہ بھی خاموش رہے تاہم پی ایل پونیا نے پارٹی کا چہرہ بتایا اورچہرے نے پارٹی کا نعرہ اور کارڈ بتادیا۔ اس طرح کانگریس کی انتخابی حکمت عملی کی تصویر بہت حد تک واضح ہوگئی۔ پرینکا گاندھی نے جونعرہ دیااوراعلان کیا، وہ کافی اہمیت کے حامل ہیں۔ آگے کیا ہوگا ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا، لیکن فی الحال کانگریس کی پوری انتخابی حکمت عملی اسی کے اردگرد گھومتی نظر آرہی ہے۔
پرینکاکی پریس کانفرنس کانچوڑ یہی ہے کہ پارٹی الیکشن میں خواتین کی سیاست کریں گی۔ پریس کانفرنس میں جو نعرہ دیا گیا، وہ بھی خواتین سے متعلق ہے کہ ’لڑکی ہوں لڑسکتی ہوں ‘ اورٹکٹوں کی تقسیم کے سلسلہ میں بھی کہا گیا کہ 40فیصد ٹکٹ خواتین کے لیے مخصوص ہوں گے۔ لگتاہے کہ کانگریس کا پوراگیم پلان خواتین پر مرکوز ہے اورپارٹی نے بہت سوچ سمجھ کر یہ دائو چلاہے۔ایک ایسی ریاست میں جہاں ذات پات ہی نہیں مذہب کی سیاست خوب ہوتی ہے اورہر پارٹی اپنی پوری توانائی اسی میں صرف کرتی ہو۔ ٹکٹوں کی تقسیم سے لے کر انتخابی مہم اورلیڈروں کی ریلی و تقریر تک میں ذات پات ، مذہب اورووٹ بینک پر توجہ دی جاتی ہے، وہاںکانگریس نے لیک سے ہٹ کر50فیصدرائے دہندگان کو ووٹ بینک بنانے اورخواتین ریزرویشن کے معاملہ کو پھر سے اچھالنے کا دوررس فیصلہ کیاہے۔ ایساکرکے پارٹی نے تمام سیاسی پارٹیوں کے سامنے پریشانی کھڑی توکردی لیکن سوال یہ ہے کہ کیا فیصلہ کے دوررس اثرات انتخابات اورنتائج پرظاہرہوں گے؟
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ 40فیصد ٹکٹ خواتین کو دینے کافیصلہ اورنعرہ بہت اہم اوراچھاہے لیکن صرف ان ہی کے بھروسے الیکشن نہیں جیتا جاسکتا۔وہ بھی اس وقت جب ریاست میں پارٹی کی صرف 2خاتون ممبران اسمبلی ہوں۔ ماضی کے ریکارڈ اوراعدادوشمار کو دیکھا جائے تو پارٹی کے لیے امید کم اورچیلنجز زیادہ نظر آرہے ہیں۔ ماضی کے اسمبلی انتخابات میں ہر پارٹی نے اوسطاً 8فیصد ٹکٹ خواتین کو دیے اوران میں بھی بہت کم کو کامیابی ملی۔ اگر2017کے اسمبلی انتخابات کی بات کریں تو پوری ریاست میں 445 خواتین امیدوار مقابلہ میں تھیں لیکن ان میں سے صرف 40کامیاب ہوسکیں، ان میں بھی 34 بی جے پی کی ہیں۔ 2012میں تو صرف 36خواتین ہی کامیاب ہوئی تھیں۔ جب 403رکنی اسمبلی میں مجموعی طورپر خواتین کی نمائندگی 33فیصد تک بھی نہیں پہنچ پاتی ہے جتنی ریزرویشن دینے کی مانگ کی جاتی ہے۔ایسے میں کانگریس کا 40فیصد ٹکٹ خواتین کو دینا اوران سے امیدواری کے لیے درخواست دینے کی اپیل کرناخود پارٹی کے لیے بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ریاستی سیاست میں ایک تو پارٹی دہائیوں سے حاشیہ پر ہے، دوسرے اس کے پاس خواتین میں بڑے چہرے کا فقدان ہے۔پرینکاگاندھی کو بھلے ہی پارٹی کاچہرہ بناکر پیش کردیا گیا ہے لیکن دوسرے خواتین چہرے پارٹی کہاں سے لائے گی۔پھر خواتین امیدواروں کے انتخاب اوران کو ٹکٹ دینے کی کسوٹی کیاہوگی؟ کیا موجودہ مرد چہروں کی بیویوں کوپارٹی آزمائے گی؟یا نئی خواتین کو میدان میں اتارے گی؟جب فیصلے اورنعرے کو زمین پر اتارنا پارٹی کے لیے خود بہت بڑا چیلنج ہوگا تووہ دوسروں کے لیے کیا چیلنجز پیش کرسکے گی تاہم اس بات سے انکارنہیں کیا جاسکتا کہ مذکورہ فیصلے اورنعرے سے دوسری پارٹیوں کے سامنے مشکلات کھڑی ہوں گی اوراس سے خواتین کی سیاست ایک بارپھر زور پکڑے گی۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS