سوویت یونین کی سابقہ ریاستوں کے اندیشے

0

یوکرین پروسی جارحیت کا ایک اورپہلو ہے۔ سوویت یونین سے علیحدہ ہوکر خود مختار اور آزاد ملک بننے والے ممالک کو اس بات کا ڈر ہے کہ اگر روس اس جنگ میں اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا تو وہ ان کی طرف بھی بڑھے گا۔ خاص طورپر بلیسٹک ریاستوں پرخوف زیادہ شدید ہے۔ اسی بنا پر اسٹونیا، لاٹیویا اورلیتھوانیا وغیرہ نے خودمختاری اور آزادی کوبرقرار رکھنے کے لیے یوروپی اورمغربی ممالک سے اپنے رشتے مضبوط کر لیے ہیں۔ یہ تینوں ممالک یوروپی یونین کے ممبر ہیں اور ناٹو نے بھی ان ممالک کو اپنی ممبرشپ دے دی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب یہ ناٹو کی دفاعی چھتری کے اندر آگئے ہیں۔اس کے علاوہ ناٹو نے ان ممالک میں فوجی دستے تعینات کررکھے ہیں۔ حال ہی میں لیتھوانیامیںجرمنی کے 4ہزار فوجی بھیجے گئے ہیں جو لتھوانیا میں فوجی مشقیں کریں گے اور بلیسٹک ممالک کو تحفظ کا احساس کرائیں گے۔ جرمنی لتھوانیا میں ناٹو کی افواج کا سرابراہ ہے اور اس سے قبل بھی یہاں ڈیڑھ ہزار فوجی پہلے سے ہی تعینات تھے، روس کی یوکرین پرجارحیت کے بعد سے بلیسٹک ممالک میں عدم تحفظ کا احساس قوی ہوا ہے، روس کے صدر ویلادیمیرپوتن کو سوویت یونین کے بکھراؤ کا ملال ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ وہ کسی طرح سوویت یونین سے آزاد ہونے والے علاقائی خطوں کو ایک کرکے واپس ایک کڑی میں پرولیں اور پرانا اثر ورسوخ دوبارہ قائم کرلیں۔اسی بابت وہ چین کے سربراہ کے ساتھ چوٹی کانفرنس میں اعلان کرچکے ہیں کہ دنیا میں اب موجودہ مغربی اجارہ داری کا خاتمہ ہونے والا ہے۔ 2014میں کریمیا پر روسی قبضہ کے بعد سے مشرقی یوروپ پر ناٹو نے بھی فوکس بڑھایا ہے۔ اس میں پولینڈ، بلغاریہ، ہنگری، رومانیہ اورسلواکیہ بطورخاص شامل ہیں۔n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS