سنجے ورما
آج دنیا جب کورونا وبا سے نجات پانے میں اپنی پوری طاقت صرف کیے ہوئے ہے، تقریباً پورے عالم میں موسم کے انتہائی چہرے دکھائی دے رہے ہیں۔ ہندوستان میں دیکھیں تو مہاراشٹر کے رائے گڑھ اور رتنا گیری اضلاع میں زبردست بارش اور لینڈسلائیڈنگ سے سیکڑوں جانیں چلی گئیں۔ زبردست بارش کے سبب مہاراشٹر، کرناٹک، تلنگانہ اور آندھراپردیش کے کئی حصے خوفناک سیلاب سے متاثر ہوئے۔ لینڈسلائیڈ اور سیلاب نے سینٹرل ریلوے اور کونکن ریلوے کی خدمات ٹھپ کرکے رکھ دیں۔ گزشتہ چار دہائیوں میں پہلی مرتبہ مہاراشٹر میں جولائی کے ماہ میں اتنی بارش ہوئی۔ دوسرے ممالک پر نظر ڈالیں تو حالات مزید چونکانے والے ملیں گے۔ گزشتہ ماہ جرمنی میں ایسا خوفناک سیلاب آیا جس میں تقریباً 175لوگوں کی موت ہوگئی۔ چین کے مرکزی صوبہ ہینان میں مہاراشٹر جیسی زبردست بارش اور سیلاب نے وہاں کے شہریوں کے ہوش اڑا دیے۔ کناڈا جیسے ٹھنڈے علاقے اور امریکہ کے مغربی حصوں میں درجہ حرارت پچاس ڈگری کے پاس پہنچنے اور 500سے زیادہ اموات کے مناظر پوری دنیا نے دیکھے ہیں۔
مسئلہ صرف بارش-سیلاب کا نہیں ہے۔ اپنے ہی ملک میں گزشتہ کچھ برسوں میں ہمالیہ کے جلتے جنگلوں نے الگ قسم کا خوف پیدا کیا ہے۔ جنگلوں کی آگ کا سلسلہ جاری ہے جو سیکڑوں ہزاروں کلومیٹر کی جنگلاتی املاک کے نقصان کے ساتھ ساتھ ماحول میں انتہائی گرمی کا بھی سبب بن رہی ہے۔ ادھر یہ معلومات بھی موصول ہوئی ہیں کہ زمین کے لیے پھیپھڑوں کا کام کرنے والے ایمیزن کے جنگلات اب کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے کے بجائے خود اس کا ذریعہ بن گئے ہیں۔ دعویٰ ہے کہ گزشتہ کچھ برسوں میں یوروپ کی مشہور آلپس پہاڑی سلسلہ میں ایک ہزار سے زیادہ جھیلیں بن گئی ہیں۔ اس کی وجہ گلیشیر کے پگھلنے کے عمل میں تیزی آنا بتایا جارہا ہے۔ ادھر ہمالیہ میں بھی گلیشیر کے تیزی سے پگھلنے اور اچانک ٹوٹنے سے ایک کے بعد ایک حادثات کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ ساری اطلاعات فطری ہے کہ تشویش پیدا کرتی ہیں۔ ساتھ ہی، یہ تشویشات ان قدرتی واقعات کے اسباب کی تہہ میں جانے اور وہ حل تلاش کرنے کا بھی رجحان پیدا کرتی ہیں جن کی قوت پر انسان اپنی ترقی اور وجود کو بچائے رکھنے میں کامیاب ہوسکتا ہے۔
موسم کی یہ انتہا آخر کیوں ہوئی؟ اس سے متعلق ایک عام سمجھ یہ کہتی ہے کہ موسم میں تھوڑی بہت اونچ نیچ صدیوں سے چلتی آئی ہے۔ کسی سال زیادہ بارش ہوتی ہے تو کسی سال زیادہ گرمی پڑجاتی ہے۔ اس طرح قدرت پوری دنیا کا موسمی توازن کا خیال رکھتی ہے۔ لیکن ماہرموسمیات اس طرح نہیں سوچتے۔ وہ اس کے لیے گزشتہ برسوں-دہائیوں کی موسمی تبدیلیوں سے جڑے اعدادوشمار دیکھتے ہیں۔ تبدیلیوں کے پیچھے کے اسباب کی ٹوہ لیتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح، جیسے یوروپ کے آلپس میں ہزار سے زیادہ جھیلیں بننے کے اعدادوشمار جاری کرتے ہوئے سوئس فیڈرل انسٹی ٹیوٹ نے حالیہ اپنی ایک تحقیق میں بتایا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اس علاقہ میں گلیشیر کے پگھلنے سے جھیلوں کی تعمیر نئی تو نہیں ہے، لیکن حالیہ برسوں میں اس میں تیزی کافی آئی ہے۔ حقائق کے مطابق آلپس میں 1850کے بعد سے ہی جھیلوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا تھا۔ 1946 سے 1973 کے دوران یہاں ہر سال 8نئی جھیلیں بنتی تھیں۔ حالاں کہ بیچ میں یہ رفتار کچھ کم ہوئی، لیکن پانچ سال پہلے یعنی 2016سے اس میں ایک مرتبہ پھر کافی تیزی آگئی۔ اس علاقہ میں اب ہر سال 18نئی جھیلیں بن رہی ہیں، جس سے جھیلوں کے کل رقبہ میں ڈیڑھ لاکھ مربع کلومیٹر کا اضافہ ہورہا ہے۔
ماہرماحولیات ہندوستان کے ہمالیائی علاقہ میں بھی گلیشیر کے تیزی سے پگھلنے اور ٹوٹنے پر تشویش کا اظہار کرچکے ہیں۔ انٹرنیشنل سینٹر فار انٹی گریٹیڈ ماؤنٹین ڈیولپمنٹ(آئی سی موڈ) نے حالیہ تحقیق میں کچھ ایسے ہی اشارے دیے ہیں۔ اس کے مطابق ہندوکش-ہمالیہ علاقہ میں گلیشیر دوتہائی تک غائب ہوجائیں گے۔ گلیشیروں کی برف پگھلنے کا اثر یہ ہوگا کہ پورا جنوب-مشرقی ایشیائی علاقہ انتہائی سنگین پانی اور غذائی بحران سے گھرجائے گا۔ نتیجہ اس علاقہ کے دو ارب سے زیادہ لوگوں کو بھگتنا پڑے گا۔ صاف نظر آرہا ہے کہ قدرت ہم سے روٹھنے لگی ہے۔ برس2013میں کیدارناتھ سانحہ اور اس سال چمولی وغیرہ علاقوں میں ہوئے حادثات اس کی گواہی دیتے ہیں کہ انسان کی دخل اندازی سے قدرت کتنی زیادہ ناراض ہے۔
مسئلہ صرف بارش-سیلاب کا نہیں ہے۔ اپنے ہی ملک میں گزشتہ کچھ برسوں میں ہمالیہ کے جلتے جنگلوں نے الگ قسم کا خوف پیدا کیا ہے۔ جنگلوں کی آگ کا سلسلہ جاری ہے جو سیکڑوں ہزاروں کلومیٹر کی جنگلاتی املاک کے نقصان کے ساتھ ساتھ ماحول میں انتہائی گرمی کا بھی سبب بن رہی ہے۔ ادھر یہ معلومات بھی موصول ہوئی ہیں کہ زمین کے لیے پھیپھڑوں کا کام کرنے والے ایمیزن کے جنگلات اب کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے کے بجائے خود اس کا ذریعہ بن گئے ہیں۔ دعویٰ ہے کہ گزشتہ کچھ برسوں میں یوروپ کی مشہور آلپس پہاڑی سلسلہ میں ایک ہزار سے زیادہ جھیلیں بن گئی ہیں۔ اس کی وجہ گلیشیر کے پگھلنے کے عمل میں تیزی آنا بتایا جارہا ہے۔
موسم کے انتہائی تیوروں کے بارے میں اسکائی میٹ نے ایک اندازہ لگایا ہے۔ اس کے مطابق1970 سے 2005کے دوران ہندوستان میں موسم کی انتہا سے منسلک ڈھائی سو واقعات ہوئے تھے۔ لیکن گزشتہ 15برس میں اس رفتار میں اضافہ ہوگیا ہے۔ 2005سے 2020کے وسط میں ایسے واقعات کی تعداد ڈیڑھ سورہی۔ موسم کی انتہا پہاڑوں میں بادل پھٹنے، تو میدانی علاقوں میں اچانک زبردست بارش ہونے اور سیلاب آجانے کے علاوہ چکرواتی طوفان/سائیکلون، زبردست گرمی یا خشک سالی کی شکل میں نظر آرہا ہے۔ طویل مدتی نظریہ سے ان واقعات کا اثر اور بھی گہرا ہے۔ اسے ایسے سمجھا جاسکتا ہے کہ شہروں میں سیلاب کے واقعات کی تعدد کے باوجود تیزی سے کم ہوتی پانی کی سطح یہ ثابت کرتی ہے کہ ہماری زمین موسم کی انتہا سے کتنا نقصان جھیل رہی ہے۔ موسم کی انتہا شہروںمیں کیسی نظر آتی ہے، اسے ایک مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔ اگر کسی شہر میں تین دن کی بارش ایک جھٹکے میں تین گھنٹے میں ہوجائے تو سارا پانی زمین کی اوپری سطح سے نالوں میں اور پھر ندیوں-سمندروں میں پہنچ جاتا ہے۔ وہ زمین کے اندر نہیں پہنچتا جو اصل میں زیرزمین پانی کی سطح میں اپنا تعاون دیتا۔ ایسے میں تیز بارش سے اچانک سیلاب تو آجاتا ہے لیکن مانسون کے دوران مستقل طور پر جو رم جھم بارش ہوتی ہے اور جس سے زیادہ تر پانی رِس کر زمین کے اندر چلا جاتا ہے، وہ سلسلہ نہیں بن پاتا ہے۔ زیرزمین پانی کی سطح کم ہونے کی یہ بڑی وجہ ہے۔
سوال ہے کہ آخر ایسا کیوں ہورہا ہے؟ اس کا ایک جانا پہچانا جواب ہے آب و ہوا میں تبدیلی۔ اس نے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے سبب رفتار پکڑلی ہے۔ پیرس اور کیوٹو وغیرہ معاہدوں کے نافذ ہونے کا مطلب تھا کہ یہ رفتار دھیمی ہوتے ہوئے اُلٹ جائے۔ لیکن ہو تو کچھ اور ہی رہا ہے۔ معاہدے یا تو نافذ نہیں کیے گئے، امریکہ جیسے ملک نے اس سے اپنے آپ کو علیحدہ کرلیا۔ یا پھر یہ کوششیں محض ڈھکوسلا بن کر رہ گئیں۔ ماحولیات کی فکر کرنے، اس کا تحفظ کرتے ہوئے خود کا وجود بچانے کی کوششوں کو دنیا کے زیادہ تر ملک(سبھی نہیں) محض کتابی سمجھ رہے ہیں۔ حکومتوں سے لے کر عام عوام تک اس بارے میں صرف سنجیدگی کا اظہار کرتے ہیں۔ صرف خیالی پلاؤ پکائے جاتے ہیں۔ ہر سال بارش میں کروڑوں پودے لگاتے ہوئے شجرکاری کا سالانہ بناوٹی پروگرام کیا جاتا ہے۔ پھر ساری فکر سگریٹ اور کاروں کے دھویں میں اڑا دی جاتی ہے۔ خیال رہے کہ پٹرول-ڈیزل سے ہم گاڑیوں کو تو رفتار دے دیں گے، اپنے گھروں کو ایئرکنڈیشنروں سے ٹھنڈا تو کرلیں گے، لیکن قدرت کے قہر کی شکل میں جب تب ٹوٹنے والی موسمی آفتوں کی رفتار اس سے بھی چار گنا تیزی سے بڑھا دیں گے۔
عالمی موسمیاتی تنظیم (world meteorological organization)(ڈبلیو ایم او) کی تاکید پر کان دھریں گے تو سنائی دے گا کہ اگر زمین کا درجہ حرارت بڑھانے والی کوششوں پر دوگنا تیزی سے عمل نہیں ہوا تو ہماری ساری ترقی کو چوپٹ کرنے والی بارشوں، سیلابوں ، گرم موسموں، طوفانوں، چمکتی بجلیوں وغیرہ کا خوفناک سلسلہ ہماری چوکھٹ پر موجود کھڑا ہے۔ دروازے کی کنڈی کھٹک چکی ہے، اب صرف سیلاب کے گھر میں گھسنے کی دیر ہے۔
(بشکریہ: جن ستّا)