اسکولوں کی بندش اور بچوں کی نشو و نما

0

صبیح احمد

2 سال قبل تک کسی کے وہم گمان میں بھی نہیں تھا کہ کووڈ19- جیسا ایک وائرس آئے گا اور بلا تفریق لوگوں کے طرز زندگی کو یکدم بدل کر رکھ دے گا۔ اس وبا کے سبب ہماری اس دنیا میں اچانک بہت ساری تبدیلیاں آگئیں اور لوگوں کو اس نئے طرز کو اپنانے میں اچھا خاصا وقت لگا۔ اس کا اثر ہر جگہ پڑا۔ آج کوئی بھی شعبہ اس کے اثر سے اچھوتا نہیں ہے۔ یہ وبا ہمارے سسٹم کے اہم ترین حصہ ’تعلیم‘ کے لیے تو انتہائی تباہ کن ثابت ہوئی۔ اس بات سے کسی کو بھی انکار نہیں ہو سکتا کہ تعلیم کا کسی بھی ملک کی فلاح و بہبود اور انسانی ترقی و فروغ میں بنیادی کردار ہوتا ہے اور اس وبا نے ہمارے اسی تعلیمی نظام پر کاری ضرب لگائی ہے۔ اس سے لاکھوں بچوں کی زندگیاں متاثر ہوئی ہیں۔ لاک ڈائون کے سبب پیدا ہونے والے اقتصادی بحران نے بھی تعلیم میں کافی رکاوٹیں پیدا کی ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس وبا کے سبب کم و بیش 32 کروڑ طلبا کو تعلیم سے محروم ہونا پڑا۔ اسے اگر ایک قومی بحران کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا۔
اس وبا کے نتیجے میں تمام اسکول کالجوں اور دیگر تعلیمی اداروں کو بند کرنا پڑا۔ شروع میں تو زیادہ تر حکومتوں نے کووڈ کے اثر کو کم کرنے کے لیے اسکولوں کو عارضی طور پر بند کیا اور بعد میں کچھ بڑی کلاسوں کے لیے اسکول کو پھر سے کھول دیا گیا لیکن کووڈ معاملوں کی تعداد میں دوبارہ اضافہ کے پیش نظر اسکولوں کو پھر سے بند کر دیا گیا جو ابھی تک بند پڑے ہیں۔ مگر طلبا آن لائن کلاسز، ریڈیو پروگرام جیسی مختلف تعلیمی سرگرمیوں کے ذریعہ اپنی تعلیم کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ حالانکہ یہ بہت اچھی پیش رفت ہے لیکن طلبا و طالبات کی ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے جن کے پاس آن لائن کلاسز جوائن کرنے کے لیے بنیادی وسائل سرے سے ہیں ہی نہیں۔ یہ طلبا سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ جہاں تک ٹیچرس کا سوال ہے، ان کی تربیت بلیک بورڈ، چاک، کتابوں اور کلاس روم کو دھیان میں رکھتے ہوئے ہوئی ہے۔ ڈیجیٹل تعلیم ان کے لیے بھی بالکل نئی چیز ہے۔ وہ بھی حالات کے مطابق خود کو ڈھالنے کے لیے مسلسل جدو جہد کر رہے ہیں۔

بچوں کو مستقل بنیادوں پر گھر سے بھی پڑھایا جا سکتا ہے مگر یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اس سسٹم کے دور رس اثرات بہت پریشان کن ہو سکتے ہیں۔ اسکول میں ہر چیز ہماری مرضی کی نہیں ہوتی، اچھی باتیں بھی ہیں بری بھی، اسکولوں میں کبھی سخت اساتذہ بھی مل سکتے ہیں اور دوسرے بچوں سے ہراسانی کا سامنا بھی ہو سکتا ہے مگر ان سب سے کیسے نمٹا جائے، یہ سیکھنے کے لئے اسکول جانا ضروری ہے۔ آج بچے ان سب کا سامنا کریں گے اور ان سے سیکھیں گے تبھی آئندہ زندگی میں ایسے رویوں سے نمٹ سکیں گے، گھر کی چہار دیواری میں رہ کر یہ سب سیکھنا ممکن نہیں۔

بہرحال تعلیمی اداروں کو کھولنے کے لیے پوری دنیا میں مسلسل کوششیں جاری ہیں تاکہ تعلیمی نظام کو پھر سے پٹری پر لایا جا سکے۔ بچوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارہ یونیسیف نے اب اسکولوں کو کھولنے پر کافی زور دیا ہے کیونکہ اسکولوں کی بندش بچوں کی بہتر نشو و نما اور مستقبل کے منظرنامہ کے لیے نقصان دہ ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں 60 کروڑ سے زیادہ بچے اسکول نہیں جارہے ہیں۔ ایشیا اور بحرالکاہل خطہ کے تقریباً نصف ممالک میں اسکول کورونا کے سبب 200 سے زیادہ دنوں سے بند ہیں۔ اسکولوں کی بندش بچوں کی ذہنی اور جسمانی صحت پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ بچوں کو اسکولوں میں فراہم ہونے والی تعلیم، تحفظ، دوستوں اور خوراک کے بجائے اب جو کچھ حاصل ہو رہا ہے، وہ ہے پریشانی، تشدد اور نوعمری کے دیگر مسائل۔ بچوں سے متعلق ہیلپ لائن میں رپورٹ ہونے والے تشدد کے واقعات میں اس عرصہ کے دوران 3 گنا اضافہ ہوا ہے۔ خاص طور پر تیسری دنیا کے بچوں کیلئے آن لائن تعلیم کی سہولت نہ ہونے کے برابر ہے۔ مشرقی ایشیا اور بحرالکاہل خطہ کے ملکوں میں 8 کروڑ سے زیادہ بچوں کے پاس اسکولوں کی بندش کے دوران فاصلاتی تعلیم کے وسائل موجود نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یونیسیف نے تمام حکومتوں پر طلبا اور اساتذہ کو ویکسین لگائے جانے کا انتظار کیے بغیر جتنی جلدی ممکن ہو، اسکول کھولنے پر زور دیا ہے۔ اسکولوں کی بندش سے بچوں کو جو نقصان ہو رہا ہے، اس کی تلافی آسانی سے نہیں ہو پائے گی۔
آن لائن تعلیم کا یہ طریقہ کچھ والدین کو ایسا بھا گیا ہے کہ اب وہ اپنے بچوں کو گھر پر ہی تعلیم دینے کی خواہش رکھتے ہیں۔ والدین کی مخصوص ترجیحات بلاشبہ الگ ہوں گی لیکن ان میں یہ ایک بات مشترک ہے کہ ان سب نے کووڈ وبا کے زمانے میں مجبوراً اپنے بچوں کو ہوم اسکولنگ کرائی اور پھر انہیں احساس ہوا کہ ایسا کرنا ممکن ہے اورایک وقت گزرنے کے ساتھ انہیں یہ سلسلہ بہتر محسوس ہونے لگا۔ جب اسکول بند ہوئے تو خاص طور پر بچے بہت خوش تھے۔ ایک نیا طریقہ تھا، گھر سے پڑھنا بچے انجوائے کر رہے تھے مگر جب یہ سلسلہ مستقل شکل اختیار کر گیا تو بچے جلد ہی اکتاہٹ کا شکار ہو گئے اور وہ اپنے دوست اور اساتذہ کو یاد کر نے لگے۔ اب تو بچے اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ کب وہ پہلے کی طرح روزانہ اسکول جانا شروع کریں اور زندگی پھر پرانی ڈگر پر لوٹ آئے۔ اس دوران یہ اندازہ بھی ہوا کہ گھر سے اسکولنگ ممکن ہے اور بچوں کو مستقل بنیادوں پر گھر سے بھی پڑھایا جا سکتا ہے مگر یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اس سسٹم کے دور رس اثرات بہت پریشان کن ہو سکتے ہیں۔ اسکول میں ہر چیز ہماری مرضی کی نہیں ہوتی، اچھی باتیں بھی ہیں بری بھی، اسکولوں میں کبھی سخت اساتذہ بھی مل سکتے ہیں اور دوسرے بچوں سے ہراسانی کا سامنا بھی ہو سکتا ہے مگر ان سب سے کیسے نمٹا جائے، یہ سیکھنے کے لئے اسکول جانا ضروری ہے۔ آج بچے ان سب کا سامنا کریں گے اور ان سے سیکھیں گے تبھی آئندہ زندگی میں ایسے رویوں سے نمٹ سکیں گے، گھر کی چہار دیواری میں رہ کر یہ سب سیکھنا ممکن نہیں۔
ماہرین بھی اس بات پر متفق ہیں کہ بچوں کو مستقل گھر پر رکھنا ان کی ذہنی صحت کے لئے اچھا نہیں ہے۔ ان کا دوسروں سے ملنا جلنا ضروری ہے اور اسکول ان کی ذہنی نشو و نما کے لئے بہترین جگہ ہے جہاں وہ تعلیم کے ساتھ ساتھ سماجی ڈسپلن بھی سیکھتے ہیں۔ آن لائن پڑھائی سے بچوں کا اسکرین ٹائم تشویشناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ بچے پورا دن اسکرین کے سامنے بیٹھے بیٹھے ذہنی تھکاوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اسکول جانے سے یہ سارے مسائل ختم ہو جائیں گے۔ اتنا اسکرین ٹائم بچوں کے لئے قطعی اچھا نہیں ہے۔ نہ صرف پڑھائی، دوستوں سے رابطے کا ذریعہ بھی فون اور کمپیوٹر کی اسکرین بن جاتا ہے۔ پورا دن گھر میں بیٹھے رہنا نہ بچوں کی جسمانی صحت کے لئے اچھا ہے نہ ذہنی صحت کے لیے۔ بچے گھر میں بیٹھے بیٹھے سست ہو جاتے ہیں، وزن بڑھ جاتا ہے اور اکتاہٹ کا شکار بھی ہو جاتے ہیں۔ رات دیر سے سوتے ہیں۔ صبح ویسے ہی اٹھ کر پڑھائی شروع کر دیتے ہیں۔ بلا شبہ اسکول جانے میں ہی ان تمام مسائل کا حل مضمر ہے۔ ویسے بھی انسان کی قدرتی ساخت ایسی ہے کہ ہمیں سماجی رشتوں اور رابطوں کی ضرورت رہتی ہے اور گھر میں بیٹھ کر یہ مقصد حاصل نہیں کیا جا سکتا، اس لئے مستقل ہوم اسکولنگ کو صحیح قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مگر مسئلے کا ایک دیگر پہلو بھی ہے۔ موجودہ وبا کے دور میں اس کے سوائے کوئی چارہ بھی تو نہیں ہے۔ ایک جانب بچوں کی پڑھائی اور ان کے دیگر مسائل ہیں تو دوسری طرف جان کو لاحق خطرہ ہے۔ پہلی ترجیح یقینا جان کی حفاظت ہونی چاہیے کیونکہ جان ہے تو جہان ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS