تمام تر کوششوں کے باوجود ملکی معیشت مقررہ ہدف کی جانب سے کوئی خاص پیش رفت نہیں کرپائی ہے۔لیکن یہ ضرور ہے کہ دوسرے ملکوں کے مقابلہ میں اس کی پوزیشن نسبتاً بہتر ہوئی ہے۔ دوسری سہ ماہی میں ہندوستان کی مالیاتی شرح نمو 6.30فیصد رہی ہے اور بین الاقوامی ادارہ جاتی سرمایہ کی کچھ مقدار ہندوستانی منڈیوں میں بھی ڈالی گئی ہے۔چند ایک ممالک کے اسٹاک مارکیٹ میں جہاںا ضطراب اور رسہ کشی ہے، وہیں اتارچڑھائو کے باوجود ہندوستان کے سینسیکس -نفٹی کاسفر مسلسل جاری ہے اور مجموعی طور پر ہماری اسٹاک مارکیٹ نے کچھ اونچائیاں بھی طے کی ہیں۔ان سب کے باوجود ترقی، خوش حالی اورا ستحکام کے دعوے تک رسائی ابھی کوسوں دور ہے۔
گزشتہ مالی سال کے مقابلے اس مالی سال کی دوسری سہ ماہی میں مینوفیکچرنگ سیکٹر میںبھی 4.3 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ 2017 سے 2020کے دوران اس سیکٹرمیں شرح نمو 10.6فیصد تھی اوراس سے پہلے2014سے2017کے دوران نمو کی شرح 31.3فیصدتھی۔ مینوفیکچرنگ ہی ملک میں روزگار دینے والا سب سے بڑا سیکٹر ہے اور اس میں کمی کا مطلب ہوتا ہے کہ بے روزگاروں کی تعداد میں اضافہ ہونا۔ جیسے جیسے یہ سیکٹر سکڑتا گیا ویسے ویسے روزگار بھی کم ہوتا گیا ہے۔ 2016سے اب تک دیکھاجائے تواس شعبہ میں روزگار نصف سے بھی کم ہوگیا ہے۔اس کے بعد 2020 میں کووڈ وبا کے جھٹکوں کا بوجھ بھی اس سیکٹر میں اب تک جاری ٹوٹ پھوٹ کا ایک اہم سبب ہے۔
ایک طرف یہ صورتحال ہے تو دوسری طرف آج ہی ریزرو بینک آف انڈیا نے مالی سال 2023-24 کیلئے جی ڈی پی کی شرح نمو کے سلسلے میں اپنی پیش قیاسی7 فیصد سے گھٹا کر 6.8فیصد کردی ہے۔ ریزرور بینک آف انڈیا کے گورنر شکتی کانت داس کا کہنا ہے کہ رواں مالی سال میںجی ڈی پی شرح نمو6.8فیصد رہے گی تاہم مالی سال2024کی پہلی سہ ماہی میں کچھ پیش رفت ہوسکتی ہے لیکن دوسری سہ ماہی ہندوستانی معیشت کیلئے مزید ابتری کا سامان لے کرآئے گی کیوں کہ اس دوران مالیاتی شرح نمو5.9فیصد کی شرح تک گھٹ سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی آر بی آئی نے اپنی نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے0.35فیصد کا اضافہ کرتے ہوئے ریپوریٹ کو 6.25فیصد پہنچا دیا ہے۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے گورنر شکتی کانت داس نے کہا کہ ملک میں مہنگائی اب بھی تشویش ناک سطح پر ہے، اس لیے یہ اقدام اٹھایاگیا ہے۔ آر بی آئی کے اس قدم سے ہوم لون، کار لون اور پرسنل لون لینے والی ملک کی متوسط طبقہ کی آبادی پر براہ راست اثر پڑے گا اوراسے اپنے قرضوں کی قسطوں پر سود کی مدمیں اضافی رقم دینی ہوگی۔ یاد رہے کہ موجودہ مالی سال میں یہ پانچواں اضافہ ہے۔
یہ اعداد و شمار اور واضح حقائق بتارہے ہیں کہ ہندوستانی معیشت کو اقتصادی بدانتظامی،بے روزگاری اور مہنگائی کی اس کشاکش سے نکلنے میں ابھی عرصہ لگنے والا ہے۔نوبل انعام یافتہ ماہرمعاشیات امرتیہ سین اور ابھی جیت بنرجی کے ساتھ ساتھ آر بی آئی کے سابق گورنر ڈاکٹر رگھو رام راجن سمیت درجنوں ماہرین حکومت کی موجودہ معاشی پالیسی پر تنقید کرتے آرہے ہیں۔ یہ ماہرین کئی بار مشورہ دے چکے ہیں کہ حکومت ترقی کے منصوبوں پر اخراجات میں اضافہ کرے اور غریبوں تک رقم پہنچائے تاکہ ان کی قوت خرید میں اضافہ ہو۔لیکن حکومت ایسے مشورہ پر کان دھرنے کو تیار ہی نہیں ہے۔اس سال کی دوسری سہ ماہی کے دوران حکومت نے ترقیاتی منصوبوں اور دیگر مدات میں اخراجات کو4.4فیصدتک کم کردیا ہے۔جب کہ 2019-20 کے مقابلے میں 2022-23کے پورے مالی سال کے دوران حکومت نے ترقیاتی اخراجات اور کھپت میں کل20فیصدکی کٹوتی کی ہے۔ حکومت کی اس پالیسی سے جہاں ترقیاتی منصوبہ کے اخراجات میں اضافہ ہورہاہے، وہیں روزگار میں کمی اورنقدی کی ترسیل میں بھی روانی کے بجائے ٹھہرائو آگیا ہے۔ایسے میں ترقی اور استحکام کے جھوٹے و بے بنیاد دعوے کرتے ہوئے سفر کوہی منزل بتانا ملک کو گمراہ کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیںہیں۔بہتر ہوگا کہ حکومت ماہرین کے مشورے کی روشنی معاشی پالیسی کا از سر نو جائزہ لے۔
[email protected]
۔۔۔مقررہ ہدف سے کوسوں دور!
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS