زین شمسی: جشن کے بہانے

0

زین شمسی

ریختہ میں شرکت کا موقع ملا۔ ایک عوامی سیلاب سے روبرو ہوا۔ قطار اندر قطار انسانی ہجوم۔ ہر سو چہ میگوئیاں اور پیشین گوئیاں۔ دہلی کا دھیان چند اسٹیڈیم ندائے اردو سے معطر۔ دلکش لڑکیاں، خوبرو نوجوان، ادھیڑ جوڑیاں اور دانشوران ملک اپنی اپنی ذہنی خوراکوں کے لیے کمر بستہ۔ ہال کے سامنے بڑے بڑے ہورڈنگس اور اس پر میر و غالب، اقبال ، فیض کے اشعار چسپاں۔ ایک پنڈال کے اندر نصیر الدین شاہ ، دوسرے میں جاوید اختر، تیسرے میں دانش اقبال اور چوتھے میں عبدالصمد اور ذکیہ مشہدی۔ جسے جس پروگرام میں دلچسپی ہے، وہ وہیں جم سا گیا محسوس ہورہا ہے۔ جسے جگہ نہیں مل سکی وہ ایل ای ڈی کے سامنے پسر گیا۔ کہیں سے تالیوں کی گونج تو کہیں سے واہ واہ کی صدائیں گونج رہی ہیں۔ کچھ دکانیں جو اردو کی وراثت کو سامنے رکھ رہی تھیں، کچھ دکانیں اردو کی تہذیب و ثقافت کو بارآور کرا رہی تھیں۔ ایک کیمپس کو مختلف انواع و اقسام کے پکوان کے لیے مختص کردیا گیا ہے۔ وہاں بہترین ذائقہ کے لیے بہترین قیمت بے حد خوشی و مسرت کے ساتھ ادا کی جارہی ہے۔ اتنے بڑے مجمع کو کنٹرول کرنا اور اتنی بڑی بھیڑ کو مینیج کرنا حیرت زدہ کرنے والا تھا۔
اس بھیڑ میں ایک شخص پوری سادگی کے ساتھ چل رہا ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے وہ بھی ریختہ میں اپنی پسند کی کوئی چیز تلاش کر رہا ہو، وہ اور کوئی نہیں سنجیو صراف ہیں۔ جنہوں نے اردو کے بازار کو اتنا وسیع بنانے کی کوشش کی ہے۔ وہ شخص کسی کے ساتھ بھی فوٹو کھنچوا لیتا ہے، اس کے چہرے پر کسی طرح کا کوئی غرور و تکبر نہیں۔ وہ ایک پنڈال سے دوسرے پنڈال کی طرف تنہا چہل قدمی کرتے ہوئے کہیں پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
کیمپس کے ازدحام میں کئی نامور شخصیات عام آدمی کی طرح شرکت کرتی ہوئی نظر آجاتی ہیں۔ کئی یو ٹیوب چینلس کے رپورٹر کسی کو بھی روک کر ان کے تاثرات جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سوالات ہو رہے ہیں۔
ایک سوال بہت اہم ہے۔ آپ ریختہ میں کیوں آئے؟ جواب دینے والا اردو نام والا بھی ہے اور ہندی نام والا بھی ہے۔ بس اردو سے محبت ہے اور اردو سیکھنا چاہتا ہوں۔ اردو نام والے شکایت بھی کر رہے ہیں کہ یہاں اردو رسم الخط کو ترجیح نہیں دی جا رہی ہے۔ یہاں کے اسٹال میں اردو کی کتابیں نہیں مل رہی ہیں۔ کچھ لوگوں کو اس پر بھی اعتراض ہے کہ بزم خیال میں اردو زبان و ادب پر جو مباحثہ ہورہا ہے وہ کمتر سطح کا ہے۔ یہ ویسا ہی ڈسکشن ہے جیسے اردو اداروں میں ہوتا ہے۔ سنجیو صراف کو اس پر دھیان دینا چاہیے۔ جنہیں اسٹیج ملا وہ ریختہ کے تئیں رطب اللسان نظر آئے ، جنہیں اسٹیج نہیں مل سکا، وہ خامیوں اور تنقیدوں کے نئے الفاظ گڑھنے میں مگن رہے۔
تین دن کا یہ پروگرام دہلی کی سردیوں کی آمد کا استقبال کرتا ہوا ختم ہوگیا۔ اخبارات کے رپورٹرس اپنی رپورٹ بھیج چکے۔تبصرہ نگاروں نے اپنے تبصرے دے دیے اور نقادوں نے اپنی اپنی کرلی۔ نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ ریختہ کے ذریعہ اردو رسم الخط کو ختم کرنے کی بھرپور کوشش ہو رہی ہے اور اسے جشن سمجھ کر ہر کوئی خوش ہورہا ہے۔ اس طرح کے ریمارکس بغیر کسی حوالہ کے دے دینا بہت آسان ہے اور اگر حوالہ ہے تو اس طرح کا جشن منا کر دکھانا اتنا ہی مشکل ہے۔ ایک طرف جہاں یہ شور ہے کہ اردو ختم ہورہی ہے، وہیں ریختہ یہ ثابت کر رہا ہے کہ اردو کے چاہنے والے بے تحاشہ بڑھ رہے ہیں۔ ریختہ میں موجود این بی ٹی کی چیف ایڈیٹر نیرا جین سے میں نے یہی سوال پوچھا کہ یہاں اردو رسم الخط کا فقدان ہے تو انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا ، لیکن مواد کی بہتات ہے۔ اردو کا مواد دوسری زبانوں کے لوگوں کے پاس پہنچ رہا ہے، یہ اردو کی سب سے بڑی جیت ہے۔ ایک اور شخص نے کہا کہ سب کچھ سنجیو صراف ہی کریں گے یا آپ لوگ یعنی اردو والے بھی کچھ کریں گے۔ اب میں ان سے کیا الجھتا کہ اردو والے بریانی اور قورمہ کا انتظام کرنے کے باوجود شائقین اور ناظرین کے لیے ترس جاتے ہیں۔ یہاں تو300روپے کی ہاف پلیٹ چکن بریانی کھا کر بھی لوگ جمے ہوئے ہیں۔ آخر کچھ بات تو ہے جشن ریختہ میں۔
بات منفی ہو یا مثبت مگر مجھے صرف یہی بات اچھی لگتی ہے کہ بات اردو کی ہو خواہ وہ کسی صورت ہو۔ تھک گیا تھا اس لیے بحالت مجبوری50روپے کی ایک کلہڑ چائے مجھے بھی پینی پڑگئی۔ چائے کی پہلی چسکی اردو کی چاہت کے لیے تھی۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS