افسانہ: چار چناری

0

زاہد مختار

صمد میر فجر کی نماز سے فارغ ہوتے ہی اپنے ہاؤس بوٹ ’چار چناری‘ کی مغربی کھڑکی کھول کر جب ڈل کی خاموشی سطح آب پر اپنی نظروں کا چپّو چلاتے ہوئے دور ’چار چناری‘ کے جزیرہ نما خط ارض کو دیکھتا تھا تو وہ اکثر اداس ہو جاتا تھا ۔ برسوں سے اب وہ اس خطے کی اور اپنا شکارا لے کر نہیں گیا تھا۔ ایک وحشت سی تھی جو اس کے اندریوں ڈیر ا جما ئے بیٹھی تھی جیسے ڈل کے سینے میں الجھی ہوئی کائی۔ حالانکہ برسوں سے وہ اس چار چناری کے ساتھ اپنے آپ کو یوں منسلک کیے ہوئے تھا جیسے وہ اس کا ایک خواب ہو اور شاید اسی لیے اس نے اپنے ہاؤس بوٹ کا نام بھی ’چارچناری‘ ہی رکھا تھا۔ اس کے ہم پیشہ لوگ تو یہاں تک بھی کہتے تھے کہ صمد میر کے گھر میں چونکہ چار خوبصورت بیٹیوں نے جنم لیا ہے، اس لیے اس نے اپنے ہاؤس بوٹ کو چار چناری کا نام دیا ہے لیکن یہ سب ماضی کی کہانی تھی۔ صمد میر کا حال اب اس سے مختلف تھا۔
ماضی کا صمد میر ایک سجا سجیلا نوجوان تھا جس کے ہاؤس بوٹ میں سیاحوں کی ایک بڑی بھیڑ ہوا کرتی تھی اور وہ اپنے مہمانوں کو روز ڈل کی حسین دنیا کی سیر کرانے کے لیے اپنے خوبصورت شکارے کا چپو چلاتے ہوئے کوئی پیارا سا کشمیری گیت ضرور گنگناتا ۔ سیاح ڈل کے حسن سے لطف اندوز تو ہوتے ہی رہتے تھے لیکن ساتھ ہی صمد میر کی دل سوز آواز ان پر کچھ اور جادو کر دیتی اور جب شام ڈھلتے ڈھلتے وہ اپنے شکارے کو چار چناری کے پاس روک کر ان سے یوں مخاطب ہوتا کہ ’لیجئے یہ رہی ہماری خوبصورت سی چار چناری جس کے چار چنار یوں لگ رہے ہیں جیسے ڈل کے آنچل پر کاڑھے گئے خوبصورت نقش ونگار‘ تو سیاحوں کے دل میں ان چناروں کی عظمت کا احساس اور بھی گہرا ہو جاتا تھا لیکن حال کا یہ عالم تھا کہ اب صمد میر کے لیے نہ اس چار چناری کی کوئی خوبصورتی معنی رکھتی تھی اور نہ ہی اس کی کوئی عظمت۔۔۔۔ وہ آج اپنے ہی ’چار چناری ہاؤس بوٹ ‘ کے ایک کونے میں مصلیٰ بچھائے اکثر اپنی نم ناک آنکھوں سے اپنے رب سے بس ایک ہی سوال پوچھا کرتا تھا کہ آخر وہ سب ہوا کیوں؟
اور جو ہوا تھا، وہ کسی نے سوچا بھی نہیں تھا۔ یہی تو انسان کی زندگی کی ایک ایسی گتھی ہے جسے آج تک کوئی سلجھا نہیں سکا ہے۔ یہاں اکثر وہ ہوتا ہے جس کاتصور بھی انسان نے نہیں کیا ہوتا ہے اور اکثر تصور میں بسایا ہوا محل یوں بھی زمین بوس ہو جاتا ہے کہ آسمان کی آنکھوں سے بھی دو آنسو چھلک پڑتے ہیں۔ صمد میر اب بس یوں ہی اشک بہایا کرتا تھا۔ اب اس کے ہاؤس بوٹ میں بھی وہ چہل پہل بھی نہیں رہی تھی اور شاید یہ سکوت بھی اس کنبے کے لیے زیادہ ہی وحشت ناک ثابت ہو رہا تھا۔ انہی وحشتوں اور تنہائیوں کی گھٹن سے نجات پانے کے لیے جب آج علی الصباح صمد میر نے اپنے ہاؤس بوٹ کی کھڑکی کھول کر پھر اپنی مایوس نگاہوں سے اس چار چناری کو دیکھا تو نہ جانے کہاں سے ایک خواہش کی ایک رنگ برنگی چڑیا اڑتی ہوئی اس کے ہاؤس بوٹ کی کھڑکی پر آکر اسے اپنی جانب متوجہ کرنے لگی۔ وہ اس خواہش کے سامنے تلملا اٹھا۔ بے قراری کے ہزاروں رنگ اس کے چہرے پر یوں رقصاں ہوئے کہ اسے ڈل کے پانیوں میں بھی اپنے اضطراب کا عکس نظر آنے لگا۔
’نہیں، وہ خود سے بڑبڑا تا ہوا کھڑکی سے ہٹ گیا لیکن اس کے قدم ایک انجانی کشش کے زیر اثر دھیرے دھیرے چار چناری ہاؤس بوٹ کے ساتھ بندھے شکارے کی جانب بڑھنے لگے اور کچھ دیر کے بعد اس کی بیوی اور بیٹیوںنے حیرت بھری نگاہوں سے اسے خاموش چپو چلاتے ہوئے ’چار چناری‘ کی جانب بڑھتے ہوئے دیکھا۔ وہ خاموش تھا لیکن اس کا چپو ڈل کے سینے میں ارتعاش پیدا کرتا ہوا جیسے چیخ چیخ کر اسے کچھ یاد دلارہا تھا۔ کوئی ایسی یاد جس کا عکس مٹانے کے لیے صمد میر نے اپنی بوڑھی آنکھوں سے پانیوں کی آبشار بہائی تھی لیکن یادوں کے عکس آنسوئوں سے دھوئے جاتے تو پھر دل کے نہاں خانوں میں درد کی ٹیسیں نہ ابھر تیں۔
صمد میر کے ہاتھ چپو چلانے میں محو تھے ۔ شکارا دھیرے دھیرے چار چناری کی جانب بڑھ رہا تھا لیکن اس کا ذہن ڈل کی گہرائیوں میں ڈبکی لگا کر پیچھے کی جانب تیر رہاتھا ۔ اچانک صمد میر کے منہ سے ایک چیخ نکل گئی، ’لاڈلی!‘ ۔۔۔
اور چپو چلانے والے اس کے ہاتھ جیسے منجمد ہو کر رہ گئے۔ وقت جیسے ٹھہرگیا اور ماضی کی دھند میں جیسے ایک خوبصورت سا چہرا مسکراتا ہوا صمد میر کی بانہوں میں سمٹ گیا، ’مائی ڈیئرڈیڈی۔۔۔۔تمہیں ہم چاروں بیٹیوں میں کون سی بیٹی زیادہ اچھی لگتی ہے، یہ آپ کو ابھی بتانا ہے۔ ابھی اور اسی وقت۔‘
لاڈلی حسب معمول چہک رہی تھی اور اس کی تینوں بہنیں جو عمر میں اس سے بڑی تھیں، اس کی شرارتوں کی عادی ہوکر بھی اپنے باپ کے چہرے کی جانب ایسے دیکھ رہی تھیں جسے کوئی طالبہ اپنا رزلٹ دیکھنے کے لیے گزٹ کے صفحات میں اپنے نمبر تلاش کر رہی ہو لیکن وہ سب جانتے تھے کہ ان کا باپ تانیہ کو ناراض کر ہی نہیں سکتا، کیونکہ اس کا دل توڑنے کی کوشش آج تک کسی نے کبھی کی ہی نہیں تھی۔ اسی لیے تو سب کی لاڈلی تھی اور سب اسے پیار سے لاڈلی ہی کہا کرتے تھے۔
لاڈلی تھی بھی ایک چہکتی بلبل۔ اپنی بہنوں کے برعکس اس نے دسویں تک تعلیم بھی حاصل کی تھی لیکن پھر صمد میر نے اسے آگے پڑھنے سے روک دیا تھا، کیونکہ ڈل کی وادیوں سے نکل کر کالج کی سرحدوں تک پہنچنا ان دنوں کسی سنسان جنگل سے گزرنے کے برابر ہو گیا تھا۔ ہر طرف آگ اور آہن کی بارش تھی، کرفیو، بم دھما کے، فائرنگ، ہڑتال اور بھاگم بھاگ کا عالم تھا۔ حدیہ کہ اس کا ایک ہم جماعتی لڑکا سر یندر بھی، جسے وہ راکھی کے تہوار پر ہر سال راکھی باندھا کرتی تھی، ایک رات چپکے چپکے اسے کچھ بتائے بنا اپنے والدین کے ساتھ وادی چھوڑ کے جموں کے کسی مائیگرنٹ کیمپ میں جابسا تھا۔ اس دن جب لاڈلی کو اپنے باپ کی زبان سے سریندر کے یوں چوری چوری بھاگنے کی خبر ملی تو وہ دوڑتی ہوئی چار چناری ہاؤس بوٹ کی ایک کھڑکی کی آڑ میں روتی رہی تھی۔ اس نے بہت دنوں تک اس پن کو بھی ٹرنک سے باہر نکال کر دیکھنے کی جرأت نہ کی جو سریندر نے پچھلے سال راکھی کے تہوار پر اسے تحفے میں دیا تھا۔ ان دنوں لاڈلی کچھ زیادہ ہی گم صم رہنے لگی تھی۔ اسی لیے اس کے والدین نے اسے کچھ دنوں کے لیے اپنے ماموں احد ملک کے پاس پہلگام بھیج دیا۔ احد ملک پہلگام میں گھوڑے بان تھا جو سیاحوں کے علاوہ ہر سال امرناتھ یا ترا کے دوران یاتریوں کی خدمت کو اپنی زندگی کا اہم فریضہ سمجھنے لگا تھا۔ لاڈلی کا ماموں دیر رات گئے اسے مختلف ریاستوں سے آئے ہوئے یاتریوں کے بارے میں بہت ساری دلچسپ باتیں بتایا کرتا تھا۔ احد ملک نے اپنی پچاس سالہ زندگی کے دوران کچھ ایسے پہنچے ہوئے سادھوں سنتوں سے بھی ملاقات کی تھی جن کے اندر گیان کا ایک سمندر موجیں مارتا ہوا محسوس ہوتا تھا اور احد ملک نے ان سے ایسی دلچسپ کہانیاں سنی تھیں کہ اب لاڈلی بھی انہیں سنے بغیر بستر پر آنکھیں بند کرنے کی کوشش نہ کرتی۔ صوفی سنتوں کی ان بے مثال کہانیوں کی وجہ سے ہی لاڈلی کے ذہن سے دھیرے دھیرے خوف اور وحشت کا رنگ اترنے لگا اور جب وہ واپس ’چار چناری ہاؤس بوٹ ‘ پہنچی تو اس کے والدین اور بہنوں نے اس میں ایک خوشگوار تبدیلی پائی۔ اس دوران ڈل کے پانیوں نے بھی وقت کے کئی مدوجزر دیکھے تھے۔ اس کی سطح آب نے برفیلی ہواؤں میں منجمد ہونے کا درد بھی سہا تھا اور گرمی کی تمازت کو بھی اپنے برہنہ بدن پر شدت کے ساتھ محسوس کیا تھا۔ لاڈلی بھی دھیرے دھیرے زمان ومکان سے مانوس ہوتی ہوئی ’چار چناری ہاؤس بوٹ‘ میں آنے والے سیاحوں کو ڈل اور اس کے اردگرد کے بارے میں اپنی پروفیشنل انگریزی کے سہارے اپنی علمیت کایوں بھر پور مظاہرہ کرنے لگی تھی کہ کچھ سیاح اسے ایک ٹورسٹ گائیڈکا نام دینے لگے تھے اور وہ تھی بھی ایک ایسی گائیڈ جس کی باتیں سن کر سیاحوں کے دل میں کشمیر کی خوبصورتی دیکھنے کا اشتیاق جلاپاتا تھا۔ اس کی اس صلاحیت کا احساس صمد میر کو بھی تھا اور شاید اسی لیے اس نے اسے اپنے ہاؤس بوٹ کا انچارج بھی بنا لیا تھا۔ ہر سیاح کو ٹور اور دیگر امورات کے بارے میں لاڈلی ہی مشورہ دیا کرتی تھی ۔
لاڈلی دن بھر ان ہی مصروفیات میں الجھی رہتی لیکن شام ہوتے ہی جب سارے سیاح اپنے اپنے کمروں میں سو جاتے تو وہ اپنی بہنوں کے ساتھ ایک کمرے میں لیٹے لیٹے کھڑکی سے باہر دور دور تک پھیلے ہوئے آسمان کی وسعتوں میں اپنے ایک سوال کا جواب تلاش کرنے کی سعی کرتی کہ آخر سر یندر کے ہاتھوں میں باندھی ہوئی اس کی راکھی نے اسے کشمیر چھوڑنے سے باز کیوں نہ رکھا۔ سریندر تو اس سے اکثر کہا کرتا تھاکہ ’میری لاڈلی بہن!۔۔۔یہ راکھی کا کچا سادھا گا اتنا مضبوط ہے کہ اسے دنیا کی کوئی طاقت توڑہی نہیں سکتی۔‘
ہر رات یہ سوال اس کے بھولے بھالے من کو کرید تا رہتا اور ہر رات وہ اس بات سے اپنے آپ کو تسلی دے کر نیند کی وادیوں میں کھو جاتی کہ سریندر ایک دن ضرور واپس آئے گا اور وہ ڈھیر ساری راکھیاں اس کی ہتھیلی پر باندھ کر اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے وادی کی مٹی سے یوں باندھ دے گی جیسے ڈل کے سینے میں سمایا ہوا چار چناری کاخطۂ ارض لیکن اس دن جب اچانک ایک بنجر زمین کے ایک ٹکڑے نے پورے گلستاں میں قحط کی سی صورتحال پیدا کر دی تو ڈل کی وادیوں میں سکون کے متلاشی سیاح بھی ایک ایک کر کے اپنا بوریا بستر اباندھ کر گھروں کو روانہ ہوئے۔ چاروں طرف سناٹاسا چھانے لگا۔ سخت ترین کرفیو نے گھنٹہ گھر کے گھڑیال کی سوئیاں بھی جیسے منجمد کر دیں۔ پہرے داروں نے اخبارات کی سرخیوں کو قید کر دیا اور پھر کچھ دنوں کے بعد جب بستیوں کے لوگ ڈل کی دنیا میں کھانے کی چیزیں تلاش کرنے کے لیے امڈ پڑے تو وہ صمد میر کے کنبے کو بھی شہر کی اقتصادی حالت کا کچھ کچھ اندازہ ہونے لگا۔ حالانکہ ٹی وی پر روز کی خبروں سے وہ ریاست کی صورتحال سے واقف ہو ہی رہے تھے لیکن اب کے جب شہر کے لوگوں نے حقیقت حال کی تصویر کشی کی تو صمد میر کو یوں لگا کہ اب کے جورنگ افق پہ بکھیرا جا رہا ہے، وہ ریاست کی جبیں پر ایک بدنماداغ کے مترادف ہوگا۔ اس دوران راکھی کا تہوار بھی آکر گزر گیا اور لاڈلی کی لائی ہوئی راکھی دھری کی دھری رہ گئی۔ اس رات لاڈلی ایک پل بھی نہ سوسکی ۔
دوسرے دن پوپھٹتے ہی جب کرفیو میں دو گھنٹے کی ڈھیل دی گئی تھی، لاڈلی خود ہی شکارا کھیتی ہوئی نہرو پارک پوائنٹ کے پاس لفافہ لے کر پہنچی اور جوں ہی اس نے سریندر کے نام ایک درد بھرے خط میں لپٹی ہوئی راکھی پوسٹ کرنی چاہی، عین انہیں لمحات میں ڈل گیٹ پوائنٹ سے ایک بھاری بھیڑ بھاگتی ہوئی آئی اور اس سے پہلے کہ لاڈلی کچھ سمجھ پاتی، نہ جانے کہاں سے ایک اندھی گولی نے اس کے ماتھے پر عین اس جگہ سوراخ کردیا جہاں اس کے والدین نے ہزار بار محبتوں کے بوسے ثبت کیے تھے۔ وہ لڑکھڑا کر آخری بار زمین پہ گری اور۔۔۔
صمد میر کا شکارا چار چناری خط ارض کے کنارے جا لگا جہاں اب تین چنار اپنے اس چوتھے چنار کا ماتم کرتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے جو برسوں پہلے فوت ہوچکا تھا۔n
)مدیر ’ لفظ لفظ ‘ ،المختار ہاؤس، نئی بستی، اننت ناگ، جموں و کشمیر(

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS